1992ء کے موسم ِ بہار میں ،جب سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد افغانستان کی کیمونسٹ حکومت کا بھی شیرازہ بکھرنے لگا توپاکستان کے شہر پشاور میں سات افغان مجاہدین کمانڈروں کا اجلاس ہوا۔ ان کے درمیان اس بات پر مذاکرات ہوئے کہ کس طرح افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا جائے اور پر امن شراکت ِ اقتدار کو یقینی بنایا جائے۔ جو صاحب ان کو مذاکرات کی میز پرلائے اور اُن کے ساتھ بڑے صبرکے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ تینتالیس سالہ نواز شریف تھے جو پہلی مدت کے لیے پاکستان کے وزیر ِ اعظم بنے تھے۔ اُس وقت وہ ایک سادہ سے انسان تھے جن کو کوئی بہت بڑا دانشور تو نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن وہ عوامی معاملات کو خوب جانتے تھے اور اُن میںصبر اور تحمل کے ساتھ بات سننے اور کرنے کی خوبی موجود تھی۔ وہ افغانستان میں امن قائم کرنے کا کارنامہ اپنے نام کرنا چاہتے تھے اور وہ اس میںکم و بیش کامیاب بھی ہو گئے تھے؛ تا ہم بعد کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب اکیس سال بعد وہ ایک مرتبہ پھر اُس وقت اقتدار سنبھال رہے ہیںجب افغانستان میں مذاکراتی عمل کا کوئی شائبہ تک دکھائی نہیںدیتا۔ امریکہ کے یہاںسے انخلاء میں صرف ایک سال باقی ہے لیکن اس کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی امکان ہویدا نہیں ہے۔ یہ صورت ِ حال اُن کے لیے ایک بُری خبر ہے جو اس مسئلے کے کسی سیاسی حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اس پس ِ منظر میں مسٹر شریف کا اقتدار میں آنا شاید امید کی کرن کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ 1992ء میں پاکستانی حکومت افغان دھڑوں کے درمیان شراکت ِ اقتدار کی کامیاب کوشش کررہی تھی لیکن اس عمل کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان میں وہ ہولناک خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں طالبان منظر ِ عام پر آئے اور افغانستان پر قابض ہو گئے۔ آج کے معروضی حالات بہت حوصلہ افزاء نہیں ہیں، چنانچہ دفاعی اداروںکو سول حکمرانوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا۔ نواز شریف آگے بڑھ کر افغان طالبان سے بات کریں کیونکہ ان کے اکثر کمانڈر پاکستان میں ہی مقیم ہیں۔ اب تک جن پاکستانی افسران نے طالبان سے بات کی ہے اُن کا تعلق زیادہ تر آئی ایس آئی سے تھا اگر نواز شریف طالبان کمانڈروں سے مذاکرات کریںتو امید ہے وہ ان کی بات سنیںگے بھی اور مانیںگے بھی۔ چنانچہ کچھ عجب نہیں اگر طالبان سمجھ دار ی کا ثبوت دیتے ہوئے انتہاپسند نظریات رکھنے والوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے امریکہ کے ساتھ بات کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس اقدام سے پر امن انخلاء بھی ممکن ہو گا اور خطّے میں استحکام بھی پیدا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہر دم شاکی رہنے والے افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ بھی بہتر تعلقات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ افغان مسئلے پر نواز شریف کے سامنے آنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو سائیڈ لائن کر دیا جائے، بلکہ یہ سول ملٹری تعاون سے ایسا ماحول قائم کرنے کی کوشش ہے جس میں مذاکرات کرنے کا اختیار منتخب شدہ وزیر ِ اعظم کو دیا جائے۔ اس میں پاکستان کا بھی فائدہ ہے کیونکہ اگر افغان طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے نظر آئیںگے تو اس سے پاکستانی طالبا ن کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ایک اور بات، پاکستان طالبان افغان طالبان کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک اور انتہائی نظریات کے حامل ہیں اور وہ پاکستان کی سیاسی حکومت کا تختہ الٹ کر اپنا تشریح کردہ اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج بھی پاکستانی طالبان کے ہاتھوں بھاری جانی نقصان اٹھا چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن پیش قدمی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ سال آئی ایس آئی نے 26 افغان طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھاکہ وہ قیام ِا من میںاپنا کردار ادا کریںلیکن وہ سب غائب ہو گئے۔ افغان جنگ کے خاتمے، امریکی افواج کے انخلاء، افغانستان میں پُر امن صدارتی انتخابات کے انعقاد اور مسٹر کرزئی اور طالبان کمانڈروں کے درمیان شراکت ِ اقتدار کے فارمولے کی کامیابی صرف اسی صورت ممکن ہے جب افغانستان میں جنگ بندی ہو۔ امریکہ اور طالبان کے کچھ دھڑوںکے درمیان ہونے والے خفیہ مذاکرات اس لیے ناکام ہو گئے تھے کہ امریکہ اعتماد سازی کے اُن اقدامات کے لیے تیار نہ تھا جس کا مطالبہ طالبان کر رہے تھے۔ طالبان کا مطالبہ تھا کہ ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے پانچ طالبان کمانڈروں کو گوانتاناموبے سے رہا کیا جائے۔ پینٹاگان اور سی آئی اے طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے حق میں نہ تھے۔ امریکی صدر مسٹر اوباما نے بھی یکے بعد دیگرے بھیجے گئے دو خصوصی نمائندوں، رچرڈ ہالبروک مرحوم اور ان کے جانشین مارک گراسمین کو خصوصی اختیارات دینے سے انکار کر دیا۔ اس وجہ سے شروع کی گئی بات چیت ناکامی سے ہمکنار ہوئی۔ اس کی وجہ سے طالبان بھی آپس میں تقسیم ہو گئے۔ آج وہ سخت گیر نظریات رکھنے والے طالبان ، جو جنگ کو ہمیشہ کے لیے جاری رکھنے کی قسم اٹھائے ہوئے ہیں، زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں، جبکہ پُرامن طالبان‘ جو بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتے تھے، کوناکامی کا منہ دیکھنا پڑ ا ہے۔ پانچ ماہ کی تاخیر کے بعد صدر اوباما نے ایک تجربہ کار سفارت کار، جیمز ایف ڈوبینز (James F. Dobbins)کو خصوصی نمائند ہ بنا کر بھیجا ہے ، لیکن مسٹر ڈوبینز کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں‘ اگر وائٹ ہائوس ان کی بھرپور حمایت نہ کرے۔ مسٹر اُوبامانے افغان جنگ کے پُرامن حل اور انخلاء کی کوشش کرتے ہوئے بہت بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خصوصی نمائندوں کو بااختیار بنائیں تاکہ وہ ہر سطح پر افغان طالبان سے بات کرسکیں اور اگر ضرورت پڑے تو اُن کے قیدی بھی رہا کردیں۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن نہیں کہ پاکستانی قیادت جنگجوئوں کی حمایت کرے اور اپنے ہمسایوںکو اپنا دشمن بنا لے۔ آج پاکستا ن کے معروضی حالات اس قسم کی مہم جوئی کی اجازت نہیں دیں گے۔ تاہم تمام قومی اداروں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اب جمہوری قوتوں کو قدم آگے بڑھانا ہے اور سب نے مل کر ریاست کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس کام کے لیے میاں نوازشریف مناسب آدمی ہیں، بشرطیکہ تمام ادارے اُنہیں کام کرنے دیں۔