دسمبر 2011ء میں بون میںہونے والی ایک اہم کانفرنس ، جس میں نوّے وزرائے خارجہ نے شرکت کی، میں ایسا گماں ہوتا تھا کہ طالبان امریکی شرائط ، جن کے تحت اُن کو دوحہ میںدفتر کھولنے کی اجازت مل جاتی، تسلیم کرنے کے قریب ہیں۔ مختلف ممالک ، خاص طور پر جرمنی اور قطر کی ثالثی کا شکریہ، اس کانفرنس سے پہلے ا مریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ مذاکرات کے چار دور ہوچکے تھے، تاہم افغان صدر مسٹر حامد کرزئی آخری لمحات میں یہ کہتے ہوئے پھر گئے کہ اُنہیں دفتر کھولنے کی شرائط منظور نہیں ہیں کیونکہ امریکہ یا جرمنی نے ان سے مشاورت نہیں کی تھی۔ اُن کی اس بات میں صداقت نہیںتھی۔ بون کے سرد دسمبر میں وہ مذاکرات سرد مہری کا شکار ہو کر بلا نتیجہ ختم ہو گئے۔ آج اس بات کو دوسال گزر چکے ہیں، ایک مرتبہ پھر دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تاہم ایک مرتبہ پھر اس کوشش میں صریحاً بدانتظامی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ذمہ دار ی تمام فریقین ، بشمول امریکہ، پر عائد ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر مسٹر کرزئی قیامِ امن کے لیے کیے جانے والے ان مذاکرات میں مداخلت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگرچہ اُنھوںنے طالبان کی شرائط یہ کہتے ہوئے ماننے پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ طالبان القاعدہ کی مذمت کریں، لیکن پھر طالبان کی طرف سے اپنا پرچم لہرانے اور دفتر کے باہر ایک تختی نصب کرنے پر جھگڑا کھڑا کرتے ہوئے‘ شروع ہونے والے ان مذاکرات کو ختم کرنے کی دھمکی دی۔ کرزئی صاحب کے اشتعال میں ایک طرف تو بہت سے افغانوںکے غصے کی جھلک ملتی ہے کیونکہ طالبان کا سفید پرچم اور اُن کی سیاہ پگڑیاں ، جو دوحہ میں دکھائی دیں، اُن کی انا کو مجروح کرتی ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ مسٹر کرزئی کے اپنے دفتر میں بھی افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ اُنھوںنے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے جن افراد کو منتخب کیا ہے وہ خود بھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ان کی اپنی کابینہ یا ایوان ِ صدارت میں طالبان سے مذاکرات کرنے پر اتفاق ِ رائے کا فقدان ہے۔ ان کے اہم ترین ساتھی طالبان سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کے حق میں نہیں ہیں، چنانچہ وہ سازش کی تھیوریاں پھیلارہے ہیں۔ ان میں کچھ خود بھی اگلی مدت کے لیے صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمند ہیں ۔ اس صورت ِ حال میں یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ صدر صاحب اپنا کردار بطریق ِ احسن ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جب وہ طالبان سے مخاطب ہوئے تو انھوں نے کہا۔۔۔’’میرے طالبان بھائیو!‘‘ایسا کہتے ہوئے اُنھوںنے لاکھوں افغانوں، خاص طور پر غیر پشتون آبادی اور خواتین کابھی خیال نہیں رکھا کیونکہ یہ افراد طالبان کی واپسی سے خائف ہیں۔ اس کے بعد وہ طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ملک میں اتفاق ِ رائے پیداکرتے، لیکن پیش آنے والے موجودہ واقعات اس امر کی غماز ی کرتے ہیں کہ مسٹر کرزئی کومغربی رہنمائوں کے علاوہ بہت سے افغان دھڑے بھی نہیں سمجھ پائے ہیں کیونکہ یہ صاحب، جو 2004ء سے امریکیوںسے کہہ رہے تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی جنگ ختم کرنے کا واحد طریقہ ہیں، لیکن اُس وقت طاقت کے نشے میں چور واشنگٹن نے اُن کی بات سننے سے انکار کر دیا بلکہ اکثر مواقع پر ان کو ڈانٹ بھی پلائی گئی، تو اگر وہ واقعی امن کے خواہاں تھے تو اب جب کہ امریکی طالبان سے بات کرنے پر آمادہ ہیں وہ اس کے راستے میں رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں؟ مسٹر کرزئی سے میںنے جب بھی بات کی ہے ، مجھے انداز ہ ہوا ہے کہ وہ جنگ ختم کرنے کے دانشمندانہ طریقوں، جیسا کہ اعتماد سازی ، طویل مذاکرات اور شراکت ِ اقتدار کے فارمولے، پر یقین نہیں رکھتے۔ اُن کا خیال ہے کہ طالبان اُن کے سامنے ہتھیار ڈالیں یا پھر پشتون قبائل کے جرگے میں طالبان اُن کی دستار بندی کرتے ہوئے اُنہیں اپنا لیڈر مان لیں۔ اُن کے خیال میں یہ سب کچھ ممکن تھا کیونکہ جنوبی افغانستان میں کچھ طالبان رہنمائوں اور درّانی پشتون قبائل، جن سے مسٹر کرزئی کا تعلق ہے، میں کچھ اشتراک پایا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ عملی دنیا میں ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔ جب طالبان امریکہ کی عقربی قوت کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے اس مقام پر لے آئے ہیں کہ افغان جنگ ایک جمود کا شکار ہو گئی ہے تو پھر وہ ایک افغان، جس سے وہ شدید نفرت کرتے ہیں، کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالیں گے؟اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے بھی کرزئی صاحب اس سے کم کچھ نہیں چاہتے۔ اُن میں گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مذاکرات کرنے اور اعتماد سازی کے لیے اقدامات اٹھانے کے لیے درکار صبر کا فقدان ہے۔ دوسری طرف ، اب طالبان بڑی مہارت سے سیاسی فہم دکھاتے ہوئے مذاکرات کی طرف آرہے ہیں۔ وہ افہام و تفہیم کے جدید خطوط کو اپناتے ہوئے ایک واضح پلان کے مطابق پہلے امریکی قابض افواج اور پھر افغان دھڑوںسے بات کرنا چاہتے ہیں۔ صرف افغان حکومت سے بات کرنا اُن کی ترجیحات میں شامل نہیںہے۔ مزید یہ کہ مسٹر کرزئی امریکہ کی اس پالیسی کی تفہیم سے قاصر ہیں کہ گزشتہ بیس سال سے، یا کم از کم 9/11 کے بعد سے ، پاکستان طالبان کی حمایت کررہا ہے مگر اس پر دبائو نہیں ڈالا گیا۔ کرزئی صاحب اس بات کی شدید مخالفت کرتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان میں قیام ِ امن کے عمل میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ، جو ایک ایٹمی قوت ہے، اگرچہ عدم استحکام کا شکار ہے اور اس میں عالمی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں پائی جاتی ہیں، طالبان سے بات چیت کا راستہ ہموار کرنے میں افغانستان سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںہے کہ اس کے انتہا پسندوں سے روابط ہیں ، لیکن خطے میں قیام ِ امن کے لیے پاکستان کو ناراض یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاضی کے فارمولے کی طرح سیدھی بات ہے کہ آپ پاکستانی تعاون کے بغیر طالبان سے بات نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اس کی سرزمین پر رہتے ہیں۔ اس دوران، طالبان کہاںکھڑے ہیں ؟حقیقت یہ ہے کہ اُنھوںنے چالاکی سے امریکہ کو ہزیمت سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک امریکی جنگی قیدی کے بدلے گوانتانامو بے سے پانچ طالبان جنگجوئوں کی رہائی۔ اگر اب اعتماد سازی کے لیے اس اقدام کی ضرورت ہے تو امریکیوں نے 2010ء میںبھی اس کی پیش کش کی تھی، لیکن کانگرس کے اعتراضات کے بعد واپس لے لی تھی۔ اب یہ پیش کش طالبان کی طرف سے آئی ہے اور آج تین سال بعد، جب مکمل فوجی فتح کا خیال خواب بن چکا ہے، امریکی عوام بھی اپنے فوجیوں کی بحفاظت واپسی کی خواہش رکھتے ہیں۔ اب یہ معاملہ سیاسی اور دفاعی سے بڑھ کر جذباتی حدود میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ اس موقع پر طالبان ، جن کو مغرب میں جاہل اور گنوار سمجھا جاتا ہے، کی طر ف سے یہ بری پیش کش نہیںہے۔ اس صورت ِ حال میں مسٹر کرزئی کے لیے مناسب ہو گا کہ وہ اپنی کابینہ اور ایوان ِ صدر میں پائی جانے والی کنفیوژن کو دور کریں اور عوام کو سمجھائیں کہ اگروہ طویل جنگ کا خاتمہ، 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کا انخلا، ملکی استحکام اور ہمسایہ ممالک، جیسا کہ پاکستان اور ایران ، سے اچھے تعلقات چاہتے ہیںتو پھر طالبان سے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جس راستے پر کرزئی صاحب چل رہے ہیں وہ ان کے لیے خسارے اور طالبان کے لیے فائدہ کا راستہ ہے۔ اگر افغان صدر سیاسی دانائی رکھتے ہیں تو اس صورت ِ حال میں اپنا فائدہ بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں۔