نواز شریف کو درپیش چیلنج

گزشتہ ماہ مسائل کے شکار اس ملک کی وزارت ِعظمیٰ سنبھالتے ہوئے نواز شریف اور ان کی کابینہ نے اگلے چند ایک ہفتوں کا نوے فیصد وقت یہ سوچنے میں گزارا کہ اس ملک، جس میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ایک معمول ہے ، جس کی معیشت تیزی سے انحطاط پذیر ہے اور جس میں صنعت اورزراعت کے شعبے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں، کو کیسے سنبھالا دیا جائے؟بحران کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے تو اُنھوںنے اپنے نعرے کہ وہ کشکول توڑدیںگے ، یعنی کسی غیر ملکی ادارے سے مدد نہیں لیںگے، پر نظر ِ ثانی کی اور آئی ایم ایف کی طرف 5.3 بلین ڈالر قرضے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اس کے علاوہ دیگر مالیاتی اداروں، جیسا کہ عالمی بنک، سے بھی مزید چار بلین ڈالر قرض کے لیے بات چیت ہورہی ہے۔ چین کے پانچ روزہ دورے، برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات اور دوبئی میں امریکی سرمایہ کاری پر کانفرنس میں شرکت کرنے پر وزیراعظم نوازشریف اور ان کے وزرا کو دوٹوک الفاظ میں بتایا گیا کہ کوئی بھی، خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کار، ناقص سکیورٹی اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان آنے کے لیے تیار نہیںہے۔ جب سے نواز شریف نے حکومت سنبھالی ہے، نو غیر ملکیوں سمیت 170 افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی طالبان اور فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی میں بھی سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ وزیراعظم کو احساس ہو چکا ہے کہ جب تک ملک میں سکیورٹی کی صورت ِ حال معمول پر نہیں آئے گی، سرمایہ کاری اور معیشت کی بحالی کا کام شروع ہونا ناممکن ہے، چنانچہ وہ سکیورٹی کے لیے مربوط حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ اس تفہیم کا نتیجہ ہے کہ اب وزیر ِ اعظم ہر روز فوج، خفیہ اداروں ، دفاعی ماہرین اور دیگر افراد سے ملاقات کرتے ہوئے قومی سلامتی کی ایسی پالیسی وضع کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کی ڈور وزیر ِ اعظم کے ہاتھ میںہو۔ ایسا شاید پاکستان میں پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے۔ اسی دوران پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے اور اس کے ساتھ تجارت کے خواہشمند ممالک نے نواز شریف پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ملک کی ناقص خارجہ پالیسی کو بدلیں اور اسے عالمی تنہائی سے نکالیں۔ اس عالمی تنہائی کی بڑی وجہ قرب و جوار کے ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو عناصر، بشمول افغان طالبان، کے اس کی زمین پر ٹھکانے ہیں۔ گزشتہ چند ایک ہفتوںکے دوران نواز شریف، جو دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پرفائز رہنے کا تجربہ رکھتے ہیں(اگرچہ دونوں مرتبہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے)‘ نے جس سادہ اور یک جہتی والے راستے پر چلنے کی کوشش کی ہے وہ معاشی بحران کے حل، دہشت گردی سے نمٹنے اور مثبت خارجہ پالیسی بنانے سے متعلق ہے۔ اس طرح معیشت کی بحالی، دہشت گردی کے حل اور خارجہ تعلقات کو ایک لڑی میں پرویا جائے گا، تاہم اس ضمن میں منصوبہ سازی کرنا ایک بات ہے، ابھی وزیراعظم کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بنائے گئے منصوبوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے سامنے امید کی صرف یہی کرن ہے، ورنہ اس کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس کے سامنے افغانستان بھی پُرامن ملک دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی گزشتہ پی پی پی کی حکومت، جس کے دوران مختلف نااہل وزیر ِ اعظم سامنے آئے، ہر معاملے میںناکام ثابت ہوئی۔ اُس نے کوئی معاشی حکمت ِ عملی نہ اپنائی ، جبکہ خارجہ پالیسی کو عملی طور پر دفاعی اداروں کے سپرد کردیا۔ چونکہ حکومت کوئی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں تھی، ا س لیے دفاعی اداروں کو بھی شکایت رہی کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا بوجھ نہیں اٹھاتی۔ اُسی دوران ملک میں عدم برداشت کے نظریات پروان چڑھتے رہے جبکہ دہشت گرد تنظیموںنے ملک کے کافی بڑے حصے میں اپنی جڑیں پھیلا لیں؛ تاہم اس وقت وزیراعظم نئی حکمتِ عملی میں سویلین اداروں کو شریک کرکے ذمہ داری اٹھارہے ہیں اور اس بات کے لیے پُرعزم ہیں کہ اس پالیسی پر عمل ہوتا نظر آئے۔ ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ اُنھوںنے فوجی قیادت اور خفیہ اداروںکو کس حد تک اعتماد میںلیا ہے۔ اگر اس مسئلے کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ فی الحال فوج سول حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے کیونکہ اس نے بھی دہشت گردوںکے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی درجے کی مذہبی انتہا پسندی کو برداشت کرنے کی روادار نہ ہو۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خفیہ ادارے بہت سی انتہا پسند تنظیموںکو کشمیر اور افغانستان میں جہاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، لیکن اب یہ گروہ قابو سے باہرہو چکے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اب یہ ثابت کرناہے کہ وہ کسی بھی انتہا پسند مذہبی گروہ کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے کیونکہ انتخابی مہم کے دوران یہ بات اچھالی گئی تھی کہ پی ایم ایل (ن) ان سنی گروہوںکے ساتھ رابطے میں ہے جو اہل تشیع کا خون بہاتے ہیں۔ ایسے گروہوںکے زیادہ تر ٹھکانے پنجاب میں ہیں اور پنجاب میں ہی ن لیگ کا ووٹ بنک ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بھی پاکستان میں ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نوازشریف بہت واضح ہیں۔ وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور جب 1999ء میں پرویز مشرف نے اُنہیں منصب سے ہٹایاتو بھارت اور پاکستان کے درمیان کافی برف پگھل چکی تھی۔ اس سے پہلے پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ بھارت کشمیر پر بات کرے، جبکہ نئی دہلی کا تقاضا تھا کہ اسلام آباد اسے ایم ایف این کا درجہ دے ، جو کہ بھارت پاکستان کو پہلے ہی دے چکا تھا، تاہم پاکستانی دفاعی ادارے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے حق میں نہیں ۔ اب بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوںکے ذمہ داروںکو سزا دے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہو گاکہ نواز لیگ کو لشکر ِ طیبہ کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ یہ تمام معاملات دشوار ہیں ، لیکن پاکستان میں ایک امید پیدا ہوچلی ہے کہ اس مرتبہ داخلی سکیورٹی کی پالیسی سویلین ادارے بنائیں گے جبکہ اُن کو دفاعی اور خفیہ اداروںکا تعاون حاصل ہوگا۔ اگر اس پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سول حکومت سکیورٹی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائے گی۔ یہ اقدام پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کا سبب بنے گا۔ اس سے سیاست دانوں میں بھی اعتماد پیدا ہو گا اور وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھائیںگے۔ پاکستان کو یہ سب کچھ کرنا ہے کیونکہ اگلے سال جب امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے جارہی ہوں گی تو پاکستان کا بہت کچھ دائو پر لگ جائے گا۔ اس وقت تک پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرلے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں