جنگ، دہشت گردی اور مہاجرین کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں پولیو نہایت تباہ کن طریقے سے پھیل رہا ہے۔ اس سے علاوہ شامی بچوں کو بھی پاکستان میں پائی جانے والی اس بیماری کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ طویل جنگ اور اس کے نتیجے میں غیرملکی مہاجرین اور مقامی طور پر بے گھر ہونے والے افراد ہیں۔ ڈبلیو ایچ او (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کا کہنا ہے کہ شام کے مشرقی صوبے ’’دیرالزور‘‘ (Deir al-Zour) میں دس بچے پولیو کا شکار پائے گئے ہیں جبکہ بارہ بچوں میں اس بیماری کی وجہ سے معذور ہونے کی علامات نمودار ہو چکی ہیں۔ خدشہ ہے کہ صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نہ صرف شام اور عراق بلکہ لبنان اور اردن کے کچھ حصوں میں بھی پولیو کا خطرناک حملہ ہونے والا ہے۔ ان ممالک میں خانہ جنگی سے بے گھر ہونے والے افرادکی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ دل دہلا دینے والی صورت حال مہذب دنیا کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے کیونکہ وہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسے مجرمانہ غفلت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ایک خطرناک بیماری جو ڈبلیو ایچ او اور مختلف تنظیموں (جیسا کہ مائیکرو سافٹ کے بانی مسٹر بل گیٹس کی تنظیم) کی جدوجہد کی وجہ سے دنیا سے ختم ہونے کے قریب تھی لیکن ان ممالک میں ناکامی کے بعد دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے۔ جنگوںکی وجہ سے پھولوں جیسے نوخیز بچوں کو شدید ترین اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بروس ایلوارڈ کا کہنا ہے۔۔۔ ’’ایک ایسا طوفان آ رہا ہے جس میں بارش کے قطروں کی بجائے پولیو کے وائرس برسیں گے۔ یہ صرف شام نہیں بلکہ سارے مشرقِ وسطیٰ کا مسئلہ ہے‘‘ مسٹر ایلوارڈ کہتے ہیں کہ سامنے آنے والے کیسز برفانے تودے کا صرف وہ باہر ی کنارہ ہیں جو ہمیں دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کا دیوہیکل جسم پانی کے اندر موجود ہوتا ہے۔ پولیو ایک ایسا متعدی مرض ہے جو بچوں، خاص طور پر جن کی عمر پانچ سال سے کم ہو، کو جسمانی طور پر معذور بنا دیتا ہے۔ فی الحال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے؛ تاہم ویکسی نیشن کے ذریعے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ پچیس سال سے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم جاری ہے۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں اس مرض میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس مہم کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک دنیا میں صرف پاکستان، افغانستان اور نائیجریا ہی رہ گئے ہیں جہاں پولیو کے مریض پائے جاتے ہیں جبکہ دیگر مہذب دنیا سے اس کا خاتمہ ہو چکا ہے؛ تاہم ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے وائرس، جو پولیو کا باعث بنتے ہیں، مصر، اسرائیل، غزہ اور مغربی کنارے میں بھی پائے گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند شام میں آئے ہیں اور ان کے ساتھ یہ وائرس یہاں منتقل ہو گیا ہے۔ افغان طالبان پولیو کے قطرے پلانے کی حمایت کرتے ہیں لیکن پاکستانی طالبان ملک کے شمال مغربی علاقوں، جو ان کے کنٹرول میں ہیں، میں پولیو مہم کی اجازت نہیں دیتے۔ اس مخالفت کے نتیجے میں ان علاقوں سے پولیو کے 37 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران پولیو مہم کا خدمات سرانجام دینے والے تیس افراد، جن میں نرسیں، ڈاکٹر اور سکیورٹی گارڈ شامل تھے، کو گولی مار کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔ امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ اور طالبان کو پرا من مذاکرات کی درخواست کرنا اس وقت نواز حکومت اور دفاعی اداروں کی پہلی ترجیح ہے، لیکن حکومت، جس کا اصرار ہے کہ مذاکرات پاکستان کے آئین کے تحت کیے جا رہے ہیں، طالبان کو اس بات پر قائل نہیں کر سکی ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں بچوں کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت دیں۔ یہ صورت حال کہ بچوں کو ایک دوا بھی نہیں پلائی جا سکتی ہے، ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے طویل عرصے تک غلط ترجیحات طے کرنے کا شاخسانہ ہے۔ انتہاپسندوں کے سامنے عوامی سطح پر اس طرح کمزوری دکھانے کی روایت کا اعادہ اب مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر شام، میں بھی کیا جا رہا ہے‘ جہاں پولیو کے پھیلائو کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے اگلے دو ماہ کے دوران اس خطے، جو جنگ اور تشدد کی لپیٹ میں ہے اور اس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر مہاجرین کی نقل و حرکت بھی جاری ہے، میں بیس ملین بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ خانہ جنگی سے پہلے شام دنیائے عرب کا سب سے جدید طبی شعبے کا حامل ملک تھا؛ تاہم اب یہاں ابتدائی طبی امداد کی بھی سہولت موجود نہیں ہے کیونکہ طبی مراکز جنگ میں تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی سہولیات، جیسا کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کا نظام‘ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا گزشتہ چودہ برسوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شام میں پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ریلیف آفیسر Valerie Amos نے گزشتہ ہفتے سکیورٹی کونسل کو بتایا کہ دو طرف سے لڑنے والے جنگجوئوں نے جنگ زدہ علاقوں میں سماجی خدمات سرانجام دینے والے رضاکاروں پر حملہ نہ کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس طرح یہاں اس بحران کے مزید گہرا ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے ۔۔۔ اگر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل شام پر اپنے موقف کو منوانے کے قابل نہیں ہے، اگر روس اور چین پولیو جیسی خطرناک بیماری کے خاتمے کے لیے شام کے مسئلے پر مغرب سے تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو پھر اس سال کے آخر میں ہونے والی امن کانفرنس سے کیا امید لگائی جا سکتی ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ اسلامی دنیا اس بحران کو تسلیم ہی نہیںکرتی۔ سعودی عرب کی طرف سے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس نے شامی باغیوں کی مدد سے منہ کیوں موڑا ہے لیکن یہاں پھیلنے والی پولیو کی وبائو کا کوئی ذکر نہیںکیا گیا ہے۔ او آئی سی میں 56 اسلامی ریاستیں موجود ہیں لیکن اس کی طرف سے بھی تشویش کا کوئی اظہار دیکھنے میں نہیں آیا۔ درحقیقت عالمی رہنما اس خطرے سے آنکھیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔