مغربی ممالک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں ، خفیہ ایجنسیوں اور دانشوروں کے سامنے یہ سوال زیر ِ بحث ہے کہ آج کل القاعدہ کن عناصر پر مشتمل ہے۔ یہ ایک اہم بحث ہے کیونکہ القاعدہ دہشت گردی کا نیٹ ورک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریہ بھی ہے۔ آج بھی یہ گروہ، اگرچہ بن لادن ہلاک ہوچکا ، دنیاکے کئی علاقوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس بحث کا آغاز اُس وقت ہوا جب صدر اوباما نے اپنے ''اسٹیٹ آف دی یونین خطاب‘‘ میںکہا۔۔۔''ہم نے القاعدہ کی قیادت کو شکست سے ہمکنار کر دیا۔‘‘
صدر اوباما کا خطاب اپنی جگہ ،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ القاعدہ کی نئی شاخیں دنیا کے مختلف خطوں، جیسا کہ افریقہ اور مشرق ِ وسطیٰ میں فعال ہیں جبکہ یورپ کے اہم شہر وں میں رہنے والے مسلمان نوجوانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد اس کے نظریات سے متاثر ہورہی ہے۔ امریکی انٹیلی جنس چیف، James Clapper نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سات ہزار کے قریب نوجوانوں نے القاعدہ اور اس سے وابستہ دیگر گروہوں میں شمولیت اختیار کی ۔ القاعدہ کی سامنے آنے والی نئی شاخیں گیارہ ستمبر 2001ء سے پہلے، جب جارج بش اور ٹونی بلیئر اپنے اپنے منصب پر موجود تھے، اپنا وجود نہیں رکھتی تھیں۔ان دونوں رہنمائوں نے اُس وقت عہد کیا تھا کہ یہ وہ القاعدہ کو کچل کر رکھ دیںگے اور اسے کبھی اجازت نہیںدیں گے کہ وہ ناکام ریاستوں کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے مغربی ممالک کے لیے خطرے کا باعث بنے۔
درحقیقت القاعدہ کا افریقہ اور مشرق ِوسطیٰ سمیت دنیا کے سات خطوں میں سراٹھانا اس امرکی دلالت کرتا ہے کہ جس دوران امریکی اور نیٹو افواج طویل جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا کرنے جارہی ہیں، ہم دہشت گردی کو کچلنے میں ناکامی سے دوچار ہونے والے ہیں۔ القاعدہ کو عراقی شہروں ، جیسا کہ فلوجہ اور رمادی (Ramadi) پر اپنی گرفت مضبو ط بناتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیا اس مقصد کے لیے اتنا خون بہایا گیا تھا۔ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب میں نوے کی دہائی میں پہلی مرتبہ القاعدہ کے جنگجووں سے افغانستان میں ملا تو ان کی حالت دیکھ کر یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک دن وہ شام یا عراق جیسے ممالک پر بھی قبضہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیںگے۔ برطانیہ کے انسداد ِ دہشت گردی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ شام کی وجہ سے سارا کھیل تبدیل ہونے والا ہے کیونکہ وادیِ فرات نیا ''فاٹا‘‘ بننے جارہی ہے۔ شام کی وجہ سے عراق، جو ٹوٹ پھوٹ کے قریب ہے، میں القاعدہ اتنی توانا ہوچکی کہ ہر ماہ فرقہ واریت کی وجہ سے ایک ہزار کے قریب افراد ہلاک ہورہے ہیں۔
ان حالات میں، اس پھیلائو کی وجہ سے امریکہ کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ اپنے اصل دشمن ، القاعدہ ، کے خدوخال کا تعین کر پائے ۔ بہت سے گروہ جو القاعدہ کے دست و بازو بن کر کارروائیاں کررہے ہیں ، دراصل وہ مذہبی بنیادپرست گروہ تھے جن کے کچھ علاقائی مقاصد تھے اور وہ عالمی جہاد کا حصہ نہ تھے اور نہ ہی اُنہیں واشنگٹن اور القاعدہ کی لڑائی سے کوئی سروکار تھا، لیکن اب یہ گروہ عالمی منظر نامے پر دہشت گردی کے تبدیل ہوتے ہوئے خدوخال واضح کررہے ہیں۔ کچھ مقامی گروہ جیسا کہ پاکستان کے طالبان اور صومالیہ کا'' ال شباب‘‘ غیر ملکی جنگجوئوں کو تربیت کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔ پھر یہ تربیت یافتہ جنگجو مختلف ممالک میں جاکر بم دھماکے کرتے ہیں۔ ماضی میں عرب جنگجو پاکستان اور صومالیہ کے جنگجوئوں کو تربیت دیتے تھے لیکن یہ ممالک اس ضمن میں''خود کفیل ‘‘ ہو چکے ہیں۔ مقامی گروہ محدود ایجنڈے رکھتے ہیںلیکن جب ان کے ہاں دیگر ممالک کے جنگجوئوں کو تربیت دی جائے تو پھر ان کا کسی نہ کسی طرح القاعدہ سے الحاق ہوہی جاتا ہے۔
ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں موجود القاعدہ عرب جنگجوئوں کی ''محتاج ‘‘ نہیں، بلکہ ان کے مقامی کمانڈر بھی القاعدہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھار ہے ہیں۔ اس جنگ میں ایک اور اہم ایشو کسی خطے پر قبضہ کرنا ہے تاکہ یہ گروہ اپنے قدم جماکر آگے
بڑھ سکیں۔ آج کی جدید القاعدہ کا اصل ایجنڈہ کسی قسم کی اسلامی امارت کا قیام ہے جس کی سرحدیں محدود نہ ہوں بلکہ دیگر خطوں کو بھی زیر ِنگیں لا کر اس میں شامل کرنے کی سہولت موجود رہے۔ اس سے پہلے جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی اور بن لادن بھی وہاں تھا تو وہ بھی طالبان کو قائل نہ کر سکا کہ وہ عالمی خلافت قائم کرنے کی طرف جائیں۔ آج کی القاعدہ میں فرقہ واریت کا عنصر بھی شدت پاچکا ہے۔ شام او رعراق میں سنی انتہا پسند اپنے فرقے کی خلافت قائم کرنے کی کوشش میںہیں۔ اہم بات ، یہ کوشش ایک گروہ ''آئی ایس آئی ایس‘‘(Islamic State of Iraq and Syria) کی طرف سے کی جارہی ہے جبکہ ایمن الظواہری اس گروہ کی سرپرستی سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ روایتی القاعدہ ان ممالک کی حدود میں ردو بدل کی روادار نہیں لیکن القاعدہ کی نئی شاخیں وسیع علاقے پر خلافت قائم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس طرح القاعدہ کا نیا ایجنڈہ مغربی دنیاکے خلاف کارروائیاں کرنا نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں افراتفری پھیلا کر اسلامی خلافت کا قیام ہے۔
الظواہری نے تسلیم کیا ہے کہ یمن، عراق، صومالیہ ، شام اور مغربی افریقہ میں انتہا پسند گروہ القاعدہ سے وابستہ ہیں۔کتھرائین زمیرمین( Katherine Zimmerman)، جس نے امریکی تھنک ٹینک''American Enterprise Institute‘‘ کے لیے القاعدہ پر ایک رپورٹ تیار کی تھی، اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ جزیرہ نما عرب میں 2009ء سے لے کر اب تک القاعدہ یمن کے کچھ حصوں پر قبضہ کرکے امریکی فورسز پر تین اہم حملے کرچکی ہے۔ القاعدہ کا یہ گروہ ''جدید القاعدہ ‘‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو گروہ عالمی جہاد اور قیام ِ خلافت کے اس ایجنڈے پر عمل پیرا نہیں، انتہا پسند نوجوان اس میں شمولیت اختیار نہیںکرتے ۔ شام او ر عراق میں صورت ِ حال اتنی پیچیدہ ہو چکی ہے کہ ہر روز نت نئے گروہ بنتے، ٹوٹتے اور پھر دیگر گروہوں سے ادغام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی پتہ نہیں کہ کون کس کے خلاف لڑرہا ہے۔ اس صورت ِحال نے دفاعی اور عسکری ماہرین کو چکرا کے رکھ دیا ہے۔
اس وقت دنیا کے سامنے سب سے بڑا خطرہ شام اورعراق کی جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی فرقہ وارانہ تشدد کی لہر ہے۔ آج القاعدہ کی صفو ں میں یورپ کی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ افراد بھی شریک ہورہے ہیں اور افغانستان اور کشمیر کے جہاد کا تجربہ رکھنے والے مجاہدین بھی۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں لڑنے والے سات ہزار غیر ملکی جنگجوئوں میں سات سو فرانس، تین سو برطانیہ، ستر امریکہ اور ہزاروں عرب ممالک سے آئے ہیں۔ اس طرح ایک نئی القاعدہ ابھررہی ہے لیکن مغربی ممالک اس سے جنم لینے والے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے کیونکہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کم کررہے ہیں۔ اس سے وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالتے ہوئے القاعدہ کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں خلافت قائم کرلے۔