جب کوئی تین ہفتے پہلے عمران خان نے وزیر ِ اعظم نواز شریف کو استعفا دینے اور تازہ انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کے لیے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا تو کپتان کا خیال تھا کہ ان کی آواز پر پوری قوم جوق در جوق گھروں سے نکل کر ان کے ساتھ شریکِ مارچ ہوجائے گی۔ عوام کے جتھے اسلام آباد پہنچ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کا دل دہلا دیںگے اور وہ چپ چاپ گھر جانے میں ہی عافیت گردانے گی۔ نواز شریف حکومت اپنے پہلے سال میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں یقینا ناکام رہی اور عوام کو احساس ہورہا تھا کہ جو مسائل ایک سال پہلے تھے، اب ان کا حل تو درکنار، ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔
جو کچھ ہوا وہ کپتان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ قوم‘ عمران خان اور ان کے حامیوں اور ان کے دعوے ، کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی، کے خلاف متحد ہو کر کھڑی ہوگئی۔ کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں روایتی سیاسی حریف ، بھی وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے دکھائی دیے۔ کاروباری طبقے، تاجر برادری، ٹرانسپورٹرز، میڈیا، وکلاء، سول سوسائٹی اور عدلیہ نے یک زبان ہو کر حکومت کی حمایت کرتے ہوئے آئین اور جمہوری نظام کے تحفظ کا عہد کیا۔ان میں سے بہت سوں نے عمران خان کے مطالبات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا۔۔۔ تاہم اصل بات یہ نہیں تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ کوئی بھی ملک میں نئے بحران ،مزید سیاسی ا فراتفری اور فوجی مداخلت کے نتیجے میں حکومت کی یک لخت تبدیلی کا روادار نہ تھا۔ یہ بات بھی کہی گئی معاملہ ایک وزیر ِ اعظم کا نہیں بلکہ نظام کے استحکام کا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس وقت پاکستانیوں کو جو چیز سب سے زیادہ درکارہے وہ کوئی شخصیت نہیں بلکہ نظام ہے۔ موجودہ بحران کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں بھی شخصیت پرستی کی بجائے نظام کی مضبوطی کی بات ہورہی ہے۔ اس میں کچھ روایتی سیاسی جماعتوںکے لیے ایک لمحہ ِ فکریہ بھی ہے۔
کپتان کی توقعات کے برعکس دھرنا اتنا ہنگامہ آرا ثابت نہ ہوا۔درحقیقت یہ ایک غیر متوقع ردِ عمل تھا۔ عمران خان کو شاید مشورہ دیا گیا تھا کہ اگر وہ ایسی تحریک چلائیںگے تو نواز شریف انتظامیہ ریت کی دیوار ثابت ہوگی ،وزیر ِ اعظم ملک سے فرار ہوجائیں گے اور قوم اُنہیں (کپتان کو)اپنا نجات دہندہ مان کر استقبال کرے گی‘ لیکن آسمان نے اس کے برعکس مناظر دیکھے۔ سارے ملک پوری طاقت سے اس عمل کے خلاف کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ وزیراعظم کی حمایت میں نہ سہی، نظام کے استحکام کے لیے یقینی طور پر۔ یہ ہے وہ نکتہ جسے عمران خان اور ان کے مشیر، جن میں سے بہت سے سابق جمہوری اور فوجی حکومتوں میں وزیر بھی رہے ، سمجھنے میں غلطی کرگئے۔
کئی عشروں کی فوجی مداخلت کی تاریخ، سیاسی ہنگامہ آرائی، قومی رہنمائوں، جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل، انتہاپسندی کے فروغ، معیشت کے زوال اور1990ء کی دہائی میں منتخب حکومتوں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی سے تنگ آئے ہوئے لوگ چاہتے تھے کہ وہ ملک میں استحکام دیکھیں۔ گزشتہ سال اُنہیں اس خواب کی ایک طرح سے تعبیر دکھائی دی جب پہلی مرتبہ ایک منتخب شدہ حکومت (پی پی پی) ، جس پر چاہے نااہلی اور بدعنوانی کے الزامات ہی کیوں نہیں تھے، نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور عام انتخابات میں ایک نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ اگرچہ ان انتخابات کو Westminster کے معیار پر نہیں پرکھا جاسکتا (اور نہ ہی پرکھا جانا چاہیے) لیکن خوش آئند بات یہ تھی کہ ایک توہم پُرامن انتقالِ اقتدار کے مرحلے سے فوجی مداخلت کے بغیر گزرے تھے اور پھر لوگوںکی ایک بڑی تعداد نے انتخابی عمل میں حصہ لیا تھا۔ ملک میں مجموعی طور پر جمہوری عمل کے تسلسل کو ایک تسلی بخش پیش رفت قرار دیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف نے اندازہ لگانے کی غلطی کی کہ اُنہیں عمران خان کے ابتدائی مطالبے (چار انتخابی حلقے کھولنے ) پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر انہوں نے گزشتہ سال ایسا کرلیا ہوتا تو آج وزیر ِ اعظم اور ملک ان مسائل سے دوچار نہ ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ عوام پوری توانائی کے ساتھ حکومت کے خلاف کیوں نہیں نکلے اور اب تک شاہراہ ِ دستور تحریر چوک کیوں نہیں بنی؟ یہ ایشو بنیادی طور پر عمران خان کی انا کا نہیں (اگرچہ وہ ابھی بھی خود کو کپتان ، حتیٰ کہ وزیر ِ اعظم ، قرار دیتے ہیں) اور نہ ہی یہ شخصیات کے تصادم کا معاملہ ہے۔ اس کا تعلق، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، حکومت کی ناقص کارکردگی اور خاندانی طرزِ حکومت ، جس میں کابینہ کی فعالیت برائے نام ہوتی ہے اورجس میں پارٹی یا پارلیمنٹ کے مشورہ کو درخور ِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا، سے بھی نہیں ہے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ تمام تر حکومتی معاملات وزیر ِ اعظم کے اہلِ خانہ، جن میں ناتجربہ کار نوجوان بھی شامل ہیں، چلا رہے ہیں۔ اس بات پر ان کی اپنی جماعت میں
بھی پریشانی اور تشویش بڑھ رہی ہے کہ شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد ہی حکومت چلارہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اب جیسا بھی یہ جمہوری نظام ہے، لوگ ان مسائل کے ساتھ تو گزارا کرسکتے ہیں لیکن ان کے حل کے لیے کسی اور طرف دیکھنے کو تیار نہیں۔ جو لوگ پی ایم ایل (ن) کے حامی نہیں وہ بھی قبل ازوقت حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے۔
اگر لوگ حکومت سے دوچار باتوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ بہتر گورننس اور معیشت کی بحالی ہے۔ اس سے زیادہ اُنہیں فی الحال کچھ درکار نہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے عوام سے ان مسائل کی بابت کوئی وعدہ نہیں کیا، وہ صرف وزیر ِ اعظم بننا چاہتے ہیں۔ ان کی شدید خواہش اور ان کے مشیروں کے خراب مشوروں کی وجہ سے یہ ملک انتشار کا شکار ہورہاہے جبکہ ہمیں سب سے پہلے اپنے داخلی استحکام کی ضرورت ہے۔ اب یہ تو ہوسکتا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کی وجہ سے لوگ جمہوریت سے بھی مایوس ہوجائیں لیکن اُنہیں استحکام اورترقی کی ضرورت رہے گی۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بہتر اور دانا رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی میدان میں جو بھی کھیل جاری رہیں، یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ لوگوںکے اصل مسائل کیا ہیں۔ وہ کسی خاص شخصیت کو منصب پر دیکھنے کے آرزو مندنہیں، اُنہیںامن اور استحکام درکار ہے۔ یہ بات ہمارے سیاسی کھلاڑیوں کو جتنا جلدی سمجھ میں آجائے اتنا ہی اچھا ہے۔