داعش کے خلاف جنگ میں ترکی کی شمولیت اور عرب ریاستیں

ایک سال پہلے تک انکار کرنے والا ترکی آخرکار داعش کے خلاف حملے کرنے پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے موقف میں یک لخت تبدیلی کی وجہ ایک طرف اس پر بڑھتا ہوا عالمی دبائو ہے تو دوسری طرف داعش کی اشتعال انگیزیوں میں اضافے کی وجہ سے اندرونی طور پر سیاسی دبائو کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی جبکہ ترک شہری داعش کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلیج کی عرب ریاستیں بھی اس ڈرامائی تبدیلی کا ساتھ دیں گی؟ کیونکہ ان ریاستوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ اسلامی جہادیوں سے نمٹنے کے علاوہ بھی بہت سے اہم کام کرنے والے ہیں۔ ان اہم کاموں میں سے ایک ایران کی مخالفت کی پالیسی کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہو سکتا ہے تاکہ وہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے سے پیدا ہونے والے امکانات سے استفادہ نہ کر پائے۔ علاوہ ازیں یمن فتح کرنا اور اسے انسانی المیے کی جہنم بنا دینا بھی ان کی ترجیحات میں صف اوّل پر ٹھہرا۔ اس کے علاوہ وہ ہر اُس پیش رفت کی مخالفت کرنا اپنا فرض سمجھیں گے‘ جس سے دنیا میں شیعہ سنی اختلافات میں کمی آنے کا امکان ہو۔ 
انقرہ کے ایک سینئر سرکاری افسر نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ''اب داعش ترکی کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘۔ تاہم اُس دانا افسر نے یہ وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کی کہ اس خطرے کا ادراک ہونے میں ترکی کو اتنی دیر کیوں لگ گئی۔ ابھی چند ہفتے پہلے تک تو داعش ترکی کے لیے خطرہ نہیں تھی‘ جب ترکی نے بہت سے غیر ملکی ریکروٹس، جو داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے، کو سرحد پار کر کے شام جانے کی اجازت دے دی تھی۔ جہاں تک داعش کا تعلق ہے‘ تو وہ اپنے عزائم اور اشتعال انگیزیوں میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے۔ اس کی ہمیشہ سے ہی کوشش رہی کہ وہ ترکی کو بھی جنگ میں گھسیٹ لے تاکہ اس کی اسلامی حکومت کو ''مغرب نواز‘‘ ثابت کیا جا سکے۔ جہادی گروہ خطے میں ترکی کی عسکری طاقت کو بھی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس نشست پر قبضہ کر سکیں جہاں پانچ سو سال تک عثمانی خلیفہ کی علمداری رہی؛ چنانچہ ترکی میں داعش کو خصوصی ''کشش‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ترکی پر قبضہ خلافت کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا۔ 
20 جولائی کو داعش نے ترکی کے اندر کئی خود کش حملہ کیے۔ ان میں سرحدی قصبے سورک (Suruc) پر تباہ کن حملہ بھی شامل تھا جس میں بتیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ آخرکار، انقرہ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ اس نے امریکی اور نیٹو جنگی طیاروں کو اپنے جنوبی علاقوں میں واقع انکرلک (Incirlik) ایئربیس سے پرواز کرنے اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی اجازت دے دی۔ اس ایئربیس سے امریکی جنگی طیاروں کو حملہ کرنے کے لیے بہت کم فلائنگ ٹائم کی ضرورت ہو گی۔ اس کے علاوہ ترکی کے اپنے جنگی طیارے بھی داعش کو نشانہ بناتے دکھائی دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی کی جہادیوں کے حوالے سے خاموشی اور سکوت، غصے اور اشتعال میں تبدیل ہو گیا ہے اور وہ ان پر پِل پڑنے کے لیے تیار ہے۔ اس اشتعال کا ترکی کی کرد آبادی کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ عراق اور شام میں کرد جنگجو داعش کے خلاف مرکزی مزاحمتی طاقت ہیں لیکن انقرہ کردستان ورکر پارٹی (PKK) کے حملوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ سے مدد لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی اور PKK کے درمیان ہونے والی جنگ بندی بھی ختم ہو چکی ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ترک فورسز نے کردوں پر بمباری کی۔ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ جب شام اور عراق میں کرد ہی داعش کے خلا ف لڑ رہے ہیں تو ترکی اُنہیں نقصان پہنچا کر داعش کے جہادیوں کے ہاتھ مضبوط کیوں کر رہا ہے۔ دوسری طرف وہ ان کے خلاف لڑنے کا عزم بھی ظاہر کر رہا ہے۔ کیا اب بھی عرب ریاستیں داعش کے خلاف صف آرا ہونے کے لیے تیار نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ اب اُنہیں ایک فیصلہ کن پوزیشن لینا پڑے گی۔ کیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو خود بھی داعش کے حملوں کے خطرے سے دوچار ہیں، یمن جنگ ختم کر کے پوری یکسوئی سے داعش کا مقابلہ کرتی دکھائی دیں گی؟کیا وہ ایران دشمنی کے خبط سے جان چھڑا کر آگے بڑھ سکتی ہیں؟ کیا وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہیںکہ داعش کا خطرہ شیعہ سنی تنازع سے کہیں زیادہ سنگین ہے؟
داعش کے خطرے کا تدارک ہونے کی کچھ امیدا پیدا ہو چلی ہے کیونکہ ایک طاقتور ریاست اس کے مقابلے میں آ رہی ہے۔ دوسری طرف ایران بھی داعش سے نفرت کرتا ہے۔ وہ بھی عراق اور شام کی حکومتوں کو اس عفریت سے نمٹنے میں مدد کر رہا ہے، لیکن خلیجی ریاستوں کو ایران کا یہ کردار قابل قبول نہیں کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ امید افزا بات یہ ہے کہ اس وقت ایران عرب ریاستوں کو قائل کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ ان کے خلاف کوئی عزائم نہیں رکھتا۔ اس کے وزیر خارجہ جواد ظریف (Javad Zarif) نے خلیجی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے انہیں داعش کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے عرب ریاستوںسے وعدہ کیا کہ اُن کا ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں ان کا بھرپور ساتھ دے گا۔ کویت میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا: ''کسی ایک ملک کے لیے خطرہ تمام ممالک کے لیے خطرہ سمجھاجانا چاہیے... کوئی ملک بھی دوسروں کی مدد کے بغیر علاقائی مسائل حل نہیں کر سکتا‘‘۔
دوسری طرف ایران کو بھی شیعہ جنگجو گروہوں، جیسا کہ حزب اﷲ کی مدد سے ہاتھ کھنچنا ہو گا۔ اس وقت ایران کی مدد سے حزب اﷲ بشارالاسد کو سہارا دینے کی کوشش میں ہے تو عرب ریاستیں اسد حکومت گرانا چاہتی ہیں؛ چنانچہ یہ معاملات بے حد الجھے ہوئے ہیں۔ ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے پُرمغز سفارتی کوششیں درکار ہیں۔ خطے کے ممالک کو کسی کمرے میں سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا تاکہ وہ ان مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔ پانچ لاکھ فوج رکھنے والے ترکی کی اس جنگ میں شمولیت اور نیٹو کی فائر پاور سے داعش کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے ساتھ ترکی کے قریبی روابط بھی عرب ریاستوںکے تحفظات دور کرنے میں معاون ہوں گے۔ ترکی ایران کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ حزب اﷲ کی مدد سے ہاتھ کھنچ لے۔ ترکی، ایران، سعودی عرب، کویت، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات اور کرد جنگجو ئوں کا ایک صفحے پر ہونا مشرق وسطیٰ کے لیے فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 
ایسی دل خوش کن رجائیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امریکی سفارتی بازو کیا چاہتا ہے۔ داعش کے خلاف جنگی کاوشوں کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے، لیکن صرف امریکہ، یورپ اور روس ہی ایسی سفارتی طاقت رکھتے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کو قریب لائے اور مل کر کام کرنے پر آمادہ کر سکے۔ اس عالم میں ترکی کے موقف میں تبدیلی اور داعش سے لڑنے کا عزم دنیا کے لیے امید کی کرن ہے؛ تاہم ضروری ہے کہ اس لمحے کو ضائع نہ کیا جائے اور مشرق وسطیٰ میں سفارتی کوششوں کو تیز کر کے اسے مسائل کے چنگل سے نکالا جائے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں