ملّا عمر کی مشکوک موت کے بعد کی صورت ِحال

1994ء کے اختتامی لمحات اور 1995ء میںکئی مرتبہ‘ میں قندھار میں ملّا محمد عمر، جو طالبان کی نئی تشکیل شدہ حکومت کے رہنما تھے، کی رہائش گاہ کے باہر کھڑا رہتا تاکہ اُن کا انٹرویو کر سکوں۔ میری ملّا عمر کے ڈرائیوروں، سیکرٹریوں، محافظوں، کمانڈروں اور حتیٰ کہ اُس کے کھانے کو پیشگی چکھنے والوں (ملّا عمر کو ڈر رہتا تھا کہ اُنہیں کھانے میں زہر دے دیا جائے گا) سے واقف ہو چکا تھا۔ مجھے اُن سے ملّا عمر کے بارے میں بہت کچھ علم ہوا، لیکن طالبان کے امیرالمومنین نے مجھے براہ راست انٹرویو نہ دیا۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو وہ اجنبیوں، خاص طور پر غیر ملکیوں سے نہیں ملتے تھے۔ بہت کم طالبان جنگجوئوں نے ملّا عمر کو دیکھا تھا یا اُن کی شکل سے واقف تھے۔ اُن دنوں میری ایک سینئر طالبان جنگجو سے ملاقات ہوئی، جس نے مجھے بتایا کہ ملّا عمر شرمیلے اور تنہائی پسند ہیں۔ وہ تصویر اتروانا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی آنے والے دور کے لیے اپنی کوئی یادگار چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ پریس میں ملّا عمر کی جو تصاویر گردش میں رہیں، ان کی حقانیت کے بارے میں پورے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ اُن کے دور میں ٹیلی ویژن اور فلم اور انسانوں یا جانوروں کی تصاویر بنانا، سب کچھ ممنوع تھا۔ 
ملّا محمد عمر، جو حکمران بننے سے پہلے ایک دیہاتی مولوی تھے، کی منسکرالمزاجی انتہائی متاثر کن تھی۔ وہ قندھار میں اپنی رہائش گاہ کے فرش پر بیٹھ کر اپنے کمانڈروں کو احکامات جار ی کرتے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے فریضہ حکمرانی کی انجام دہی کے لیے سخت رسی سے بُنی ہوئی ایک چارپائی پر بیٹھنا شرو ع کر دیا جبکہ سائلین فرش پر بیٹھے ہوتے تھے۔ بعد میں اسامہ بن لادن، جو 2011ء میں ہلاک ہوئے، نے اُنہیں ایک آرام دہ بم پروف گھر بنا کر دیا۔ ملّا عمر کاغذ پر لکھی گئی تحریروں کے ذریعے پیغام رسانی کرتے۔ اُس زمانے میں مجھے اُن کی طرف سے توڑے مروڑے ہوئے کاغذ کے ٹکروں یا سگریٹ کی ڈبیوں پر دستخط شدہ اجازت نامہ ملتا‘ جس کی مدد سے میں ملک کے مختلف شہروں میں سفر کر سکتا تھا۔ 
ملّا عمر اپنی سادگی کی وجہ سے اسامہ بن لادن کے چکر میں آ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے عرب مہمان کو 1996ء میں پناہ دی۔ نائن الیون کے بعد بھی انہوں نے القاعدہ رہنما کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انجام کار امریکی حملے کے نتیجے میں 2001ء میں اُن کی حکومت ختم ہو گئی۔ امریکی حملے کے بعد ملّا عمر کو عوامی سطح پر کبھی نہیں دیکھا گیا، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ انتقال سے پہلے انھوں نے کئی سال پاکستان میں گزارے تھے۔ حالیہ دنوں پاکستان، افغانستان اور طالبان کوئی قابل اعتماد کہانی جوڑنے کی کوشش میں ہیں۔ ملّا عمر، جن کے انتقال کی پہلے بھی متعدد خبریں آ چکی ہیں، کی تازہ ترین، اور بڑی حد تک حتمی وفات کے بارے میں کہا گیا کہ وہ دو سال پہلے، چھپن سال کی عمر میں، کراچی کے ایک ہسپتال میں فوت ہوئے تھے۔ ان کی وفات کی اس خبر میں خاصی جان محسوس ہوتی ہے لیکن جب اس سے پہلے طالبان کی طرف سے اتنی دروغ گوئی سے کام لیا گیا ہو تو موت کی دوٹوک اطلاع بھی دھندلی اور مشکوک دکھائی دیتی ہے۔
طالبان رہنمائوں اور مغربی سفارت کاروںکے مطابق ملّا عمر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے کوئٹہ میں اپنی حفاظت میں رکھا ہوا تھا۔ اب پاکستان بھی ملّا عمر کی وفات کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہے۔ طالبان کے کچھ محدود رہنما، جن میں نئے لیڈر ملّا اختر محمد منصور، جن کی عمر پچاس سال ہے، ملّا عمر کے انتقال سے آگاہ تھے‘ لیکن انھوں نے اپنے ساتھیوںکو اس بات سے بے خبر رکھا۔ وہ اور کچھ اور طالبان، جو پاکستان کے قریب سمجھے جاتے ہیں، یہ کہہ کر اپنی دروغ گوئی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملّا عمر کا انتقال ابھی چند دن پہلے ہی ہوا ہے۔ ملّا منصور کا جلدی سے طالبان کے نئے امیر کا منصب سنبھالنا بھی حیران کن نہیں‘ کیونکہ جب تک ملّا عمر حیات تھے، وہ ان سے رابطے میں تھے اور جب وہ انتقال کر گئے تو ملّا منصور نے ان کے جعلی نام سے پیغام رسانی کی۔ بہت سے فیلڈ کمانڈر ملّا منصور کو ایک موقع پرست قرار دیتے ہیں۔ ملّا عمر کے بڑے بیٹے اور خاندان کے کچھ دیگر افراد نے ملّا منصور کو امیر تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جانشین کے انتخاب کے لیے اعلیٰ قیادت کے اجلاس اور ووٹنگ کا مطالبہ کیا ہے۔ جہاں تک ملّا منصور کا تعلق ہے تو انھوں نے ایک پُرجوش تقریر میں طالبان کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے کابل کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا کہا ہے۔ کابل کے کچھ افغان افسران کو ملّا عمر کے انتقال کی خبر کی حقانیت پر شک ہے لیکن وہ خاموش ہیں۔ حالیہ ماہ کے دوران طالبان کے قریبی کچھ انتہا پسند گروہوں، جیسا کہ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور طالبان کی صفوں سے الگ ہونے والے ایک گروہ، فدائے محاذ نے کہا تھا کہ ملّا عمر اب اس دنیا میں نہیں اور کابل میں موجود مغربی سفارت کاروں نے بھی اس موقف کو درست مانا تھا۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اتنے طویل عرصے سے خاموش کیوں رہے؟ آئی ایس آئی اور طالبان کی نوجوان قیادت‘ دونوں صورت حال کو جوں کا توں رکھنا اور طالبان کی صفوں میں انتشار پھیلنے سے روکنا چاہتے تھے۔ اس وقت ملّا عمر کی وفات کی اطلاع آنے سے انتشار کی کیفیت ضرور دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ دنوں دہشت گردی کے خلاف مثبت موقف اختیار کرنے والی پاک فوج کا خیال ہو گا کہ کابل اور طالبان کے درمیان پر امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے ملّا عمر جیسی کسی شخصیت کی سرپرستی ضروری ہے۔ افغانستان میں ملّا عمر کی زندگی پر شک کرنے والے سیاست دان اس لیے خاموش تھے کہ انہیں اس کے مضمرات سے خدشہ محسوس ہو رہا تھا کیونکہ طالبان کی کمان کسی بڑے انتہا پسند لیڈر یا داعش کے ہاتھ جا سکتی تھی۔ اس وقت داعش افغانستان میں قدم جما رہی ہے اور یہ خدشہ بھی درست محسوس ہو رہا ہے۔ 
ملّا منصور کے سامنے کوئی آسان راستہ نہیں۔ پاکستان کے تعاون سے کابل اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا دوسرا رائونڈ ملّا عمر کی وفات کی خبر سے تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس دوران کچھ طالبان اپنے قائدین کی دروغ گوئی سے تنگ آ کر داعش کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کے لیے بہترین صورت حال یہی ہو سکتی تھی کہ طالبان کی اکثریت کابل اور اسلام آباد کے ساتھ مل کر امن کو آگے بڑھائے، لیکن اب اس کا امکان دشوار دکھائی دیتا ہے۔ پیدا ہونے والے خلا میں داعش اپنے قدم جما سکتی ہے۔ بہرحال مایوسی سے اجتناب کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی ایک پُرامن نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو دانائی کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ طالبان کی نوجوان قیادت میدان کی بجائے میز پر دکھائی دے؛ تاہم افغانستان کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کب وہ جنگ کرنے کا کوئی اور موقع ڈھونڈ لے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں