ہمدانی کی یاد میں

یہ منگل کا دن تھا اور میری ہفتہ وار تعطیلات کا دوسرا روز ۔خبروں کا تجسس پھر بھی جاری تھا ۔تقریباً آٹھ بجے ٹیلی ویژن کھولا۔ چینل فور پر کھیلوں کی خبریں ہو رہی تھیں اور ملک کے حالا ت معمول پر دکھائی دیتے تھے ۔کوئی نو بجے باتھ روم سے واپس بیڈ روم میں آیا تو ماتھا ٹھنکا ۔ٹیلی وژن‘ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کی خبر سنا رہا تھا ۔نظریں ٹی وی کے پردے پر جم گئیں۔ چند گھنٹوں میں واضح ہو گیا کہ حملے نیو یارک میں ہی نہیں گھر کے پاس ورجینیا اور ریاست پنسلوینیا میں بھی ہوئے ہیں۔ یہ حملے در اصل امریکہ کی مالی‘ سیاسی اور فوجی قوت کے نشانات پر تھے اور ان سے ساری دنیا بدل گئی تھی ۔ان سے افغانستان اور عراق کی جنگیں چھڑیں اور ساری دنیا ان کی لپیٹ میں آئی۔ اب سکیورٹی نے اول درجے کی صنعت کا درجہ حاصل کر لیا تھا ۔اس کے سامنے باقی سب صنعتیں ماند تھیں ۔ واشنگٹن میں دفتر جانے کے لئے جو ٹرین روزانہ لیتا تھا اس کا ایک سٹیشن پینٹاگان تھا ۔آ ج مجھے بلیو ٹرین نہیں لینا تھی مگر محکمہ دفاع کے صدر دفتر کی اس پنج گوشہ عمارت میں شکیل مصطفی بھی کام کرتا تھا اور شام ہونے تک وہ گھر نہیں لوٹا تھا اس لئے سب فکر مند تھے ۔رات ہونے پر اس نے اطلاع دی کہ اسے قریب ہی ایک ہوٹل میں رکھا گیا ہے اور اسے امید ہے کہ اگلے روز اسے گھر جانے کی اجازت مل جائے گی۔ وہ پینٹاگان فیڈرل کریڈٹ یونین (بنک) کا سویلین ملازم تھا ( اور ہے ) اور اس کا دفتر وسیع و عریض عمارت کی مشرقی جانب تھا ۔گو اس حملے میں بھی 125 افراد مارے گئے تھے مگر زیادہ جانی نقصان عمارت کے مغربی جانب ہوا تھا ۔ تھکا ماندا شکیل پولیس کے طویل سوالوں کا جواب دینے کے بعد اگلے دن گھر لوٹا ۔ پینٹاگان میری جانی پہچانی عمارت ہے ۔یہ بڑی حد تک سویلین اور ملٹری حصوں میں منقسم ہے اور فوجی سیکشن میں قدرتی طور پر عام لوگوں کا داخلہ مشروط ہے ۔گو اس کے شاپنگ سنٹر اور دوسرے سویلین حصوں میں جانے کا اتفاق اکثر ہوا مگر ایک بار فوجی حصے میں بھی دا خلہ ملا جہاں وزیر دفاع کا دفترہے ۔ ہوا یوں کہ علاقے میں شدید برف باری ہوئی تھی‘ نشیب و فراز بھر گئے تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ معطل تھی ۔اس امید میں کہ شاید پینٹاگان سے واشنگٹن جانے والی ٹرین مل جائے میں پیدل ہرج مرج کھینچتا ٹرین سٹیشن جا پہنچا ۔وہاں ہو کا عالم تھا۔ ایک فوجی افسر نے بتایا کہ آج کوئی گاڑی ڈی سی نہیں جا رہی ہے‘ اگر آپ کو ضرور واشنگٹن جانا ہے تو پیدل ہی جانا ہو گا۔ وہ مجھے عمارت کے ممنوعہ حصے میں لے گیا اور گرما گرم کافی کا ایک پیالہ دیا۔کافی پینے کے بعد میں پیدل رینگتا ہوا 395 پر چڑھ گیا اور ہائی وے سے گزرنے والے ایک ڈرائیور نے اپنی SUV میں بٹھا کر مجھے واشنگٹن پہنچایا۔ ہنگامی حالت میں امریکیوں کا انسانی جذبہ جاگ اٹھتا ہے ۔میں بہر حال شام کی شفٹ کے وقت دفتر پہنچا جب کہ مجھے صبح کی شفٹ میں کام کرنا تھا ۔ اس واقعہ کو بارہ سال بیت چکے ہیں۔ پینٹاگان کے نقصان رسیدہ بازو کی مرمت کر دی گئی ہے مگر عمارت کے اندر جانا پہلے کی طرح آسان نہیں رہا ۔ اگلے روز لوئر مین ہیٹن‘ نیو یارک جانا ہوا تو دیکھا کہ ٹریڈ سنٹر کی جڑواں عمارتیں اب بھی نا بود ہیں ۔اس روز دو اغوا شدہ طیارے سنٹر سے ٹکرائے تھے اور آن واحد میں اسے زمیں بوس کر دیا تھا ۔سن اسی کے عشرے میں اپنے تینوں بیٹوں کو انگلی سے لگائے اس سنٹر کی آخری منزل پر گیا تھا ۔میں بلندی سے ڈرتا ہوں اس لئے شہر پر نگاہ ڈالنے کی ہمت نہیں پڑی تھی مگر بچے شمالی ٹاور کی 110 ویں چھت کے پردوں سے لٹک کر بندرگاہ سمیت دور دور کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔میں اس عمارت کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔یہ اسی سال مکمل ہوئی تھی جس سال (1973ء) میں مستقل طور پر امریکہ منتقل ہوا تھا ۔ اٹھائیس سال بعد گیارہ ستمبر 2001 ء کو سنٹر پر حملے میں تین ہزار لوگ مارے گئے جو ان عمارتوں میں کام کرتے تھے‘ راہگیر تھے یا اغوا ہونے والے ہوائی جہازوں کے مسافر تھے ۔ان میں 1200 لوگ‘ عرب اور مسلمان بھی تھے اور ان کی تعداد مجموعی جانی نقصان کے 41فیصد کے برابر تھی ۔مرنے والوں میں کم و بیش ایک درجن پاکستانی امریکی بھی تھے جو چوکیدارہ کرکے‘ رستورانوں میں محنت کرکے یا سرمایہ کار فرموں میں کام کرکے رزق حلال کماتے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے تھے ۔محمد سلمان ہمدانی کی غم زدہ والدہ سے کئی بار بات ہوئی جو بیٹے کی واپسی کے لئے گھر کا دروازہ کھلا رکھتی ہیں ۔ہمدانی جواں سال تھا‘ نیو یارک پولیس میں زیر تربیت تھا اور پیرا میڈک یا طبی کارکن بننے کے خواب دیکھتا تھا۔ وہ صبح صبح کام پر جا رہا تھا جب اس نے اپنی کار کے ریڈیو پر جہنم کی آگ کا سنا ۔ اس نے سوچا تربیت کا اس سے بہتر موقع کون سا ہو سکتا ہے ۔اس نے گاڑی موڑی اور جلتی ہوئی عمارتوں کے قریب جا پہنچا ۔گاڑی پارک کی‘ اپنا مخصوص لباس پہنا اور چیختے چلاتے لوگوں کی جان بچانے کے لئے آگ میں کود گیا ۔ اس روز 19نوجوانوں نے چار کمرشل طیارے اغوا کئے تھے ۔دو تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے‘ تیسرے نے پینٹاگان کو لتاڑا اور چوتھا ریاست پنسلوینیا کے دیہی علاقے میں گر کر تباہ ہوا ۔یہ ہوائی جہاز وائٹ ہاؤس یا کیپیٹل (ایوان کانگرس)پر مار کرنے والا تھا اور اس کے مسافر پہلے دو طیاروں کی تباہ کاریاں ہماری طرح ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے تھے جب انہوں نے اپنا انجام نا گزیر جانا‘ کچھ نے اپنے عزیزوں کو الوداعی فون کئے اور اغوا کاروں سے گتھم گتھا ہو گئے۔ اس سانحے میں چالیس لوگ مارے گئے ۔با ایں ہمہ 2006ء میں مشرق وسطی جانے کا موقع ملا تو جگہ جگہ لوگوں کو یہ کہتے پایا کہ نائن الیون اندرونی کار ستانی تھی ۔ قاہرہ‘ جدہ‘ استنبول‘ سیرا جیوو‘ جکارتہ‘ کولا لمپور اور کراچی میں کچھ لوگ بر ملا اور باقی زیر لب یہی بات کہہ رہے تھے ۔ اغوا کاروں کی اکثریت ایک عرب ملک سے تعلق رکھتی تھی اور انہوں نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس میرے محلے کی DMVسے بنوائے تھے۔ وہ اسامہ بن لادن کی کمان میں تھے جو افغانستان میں پناہ گزین تھا ۔صدر پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے اس کے پاس کئی لوگ بھیجے جو انہیں خود کو بین الاقوامی قانون کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ کر سکے ۔ان میں مفتی نظام الدین شامزئی مرحوم بھی تھے جو اکوڑہ خٹک میں بن لادن کو دینیات پڑھاتے رہے تھے اور القاعدہ کے بانی پر بڑے اثر و رسوخ کا دعوی رکھتے تھے ۔ اتوار کو نائن الیون کی یاد میں ایک یونیٹی واک (اتحاد کی پیش قدمی) ہوئی جس میں مسلم‘ مسیحی‘ یہودی‘ ہندو‘ سکھ‘ بہائی اور دوسرے مذا ہب کے لوگ شریک ہوئے اور ان کا جلوس‘ دو میل کا فاصلہ طے کر کے اسلامک سنٹر‘ واشنگٹن تک گیا ۔ظہر کی اذان ہوئی اور حاضرین کے سر معبود کی بارگاہ میں جھک گئے۔ اس اجتماع کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو کیا شئے یکجا کرتی ہے ۔ یہ مظاہرہ در اصل اس ذہنیت کے خلاف تھا جس نے دنیا ئے اسلام کو آگ لگا رکھی ہے‘ جو پاکستان میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کا خون کر چکی ہے اور جو تونس‘ مصر‘ لبیا‘ انڈونیشیا اور شام میں کار فرما ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں