شبِ غم گزار کے

افغانستان نے ا مریکہ کی خارجہ پالیسی بدل کررکھ دی ہے اور اس میں کچھ ہاتھ پاکستان کا بھی ہے ۔پہلے افغان تحریک مزاحمت نے سوویت یونین کا شیرازہ منتشر کیا اور اب وہ نیٹو فوجوں کو رخصت کر رہی ہے ۔صدر اوباما سابق فوجیوں کی توقیر کا دن 'میموریل ڈے‘ بگرام کے وسیع و عریض ہوائی اڈے پر حاضر سروس امریکی فوجیوں کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس آکر خارجہ پالیسی میں اس تبدیلی کی طرف اشارے کر رہے ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ دسمبر میں لڑائی ختم ہونے کے بعد ایک سال تک9,800امریکی فوجی افغانستان میں رہیں گے‘ وہ افغان فوج کو تربیت دیں گے اور دہشت گردوں کا مقابلہ کریں گے۔ 2015ء میں یہ تعداد آدھی ہو جائے گی اور اگلے سال ان کی تھوڑی سی فورس‘ سفارت خانے کی حفاظت کرے گی۔ 
یہ ٹائم ٹیبل‘ رائے دہندگان کی خواہشات کے عین مطابق ہے جو ایک سے زیادہ بار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی لڑائی لڑنے کے قابل نہیں مگر شِکرے نکتہ چینی کر رہے ہیں کہ صدر نے فوجوں کی واپسی کی تاریخ دے دی ہے جس سے دنیا بھر کے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھیں گے اور اتحادی پریشان ہوں گے۔ ان کو یہ بھی گلہ ہے کہ حکومت نے ایک امریکی فوجی کے بدلے پانچ طالبان لیڈروں کی رہائی سے قبل کانگرس کو اطلاع نہیں دی ۔ واشنگٹن پوسٹ اس خبر کا ذمہ دار ہے کہ اوباما انتظامیہ نے جون 2000ء میں سارجنٹ بو برگڈال (Bowe Bergdahl)کے غائب ہونے کے بعد مہینوں کے اندر اس کی جان بچانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ اسے سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لے جایا گیا جہاں وہ حقانی نیٹ ورک کی قید میں رہا‘ جسے امریکہ ایک دہشت پسند تنظیم قرار دیتا ہے اور جس کے پاکستان کی مسلح افواج کی 
خفیہ سروس آئی ایس آئی سے تعلقات ہیں۔ اخبار نے ڈیوڈ سڈنی کے‘ جو گزشتہ سال تک افغانستان اور پاکستان کے متعلق امریکی پالیسی کی نگرانی کرتے تھے‘ یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ ''بطور خاص اس کی رہائی یا اس کے بارے میں مزید خفیہ معلومات کے حصول کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا بے سود تھا ۔مجھے نہیں معلوم کہ بار بار کی درخواستوں کے با وجود انہوں نے عملاً کبھی ہماری مدد کی۔ اس کی جان بچانے کا امکان بڑھ گیا تھا‘‘۔ تاہم اوباما انتظامیہ نے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ افغانستان کو خیر باد کہنے سے پہلے ''اپنا آ خری باوردی عورت یا مرد‘‘ قید سے نکال لینا چاہتی تھی۔ طالبان اب بھی افغانستان کی ایک اہم طاقت ہیں اور ان سے کوئی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ قطر کے توسط سے طالبان سے بات چیت کی ایک کوشش ایک سال پہلے بھی کی گئی تھی جو ناکام رہی تھی اور اس ناکامی کا سہرا کر زئی حکومت کے سر باندھا گیا تھا ۔وہ پھر بڑ بڑا رہی ہے ۔ برگڈال پانچ سال تک طالبان کے ایک گروہ کی قید میں رہا تھا۔ طالبان لیڈر ایک عشرے سے امریکہ کی فوجی تحویل میں تھے ۔
امریکی معترضین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہا ؤس نے ''بھگوڑے‘‘ برگڈال کی رہائی کے لئے بہت زیا دہ قیمت ادا کی ہے جب کہ باریش باپ کا بیان ہے کہ اس کے بیٹے نے افغانوں کی خدمت کے سوا کچھ نہیں کیا ۔طالبان لیڈروں کو جنہیں طالبان کمانڈر بتایا جا رہا ہے‘ ایک سال قطر کی نظر بندی میں رہنا ہو گا اور وہ طالبان کی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے مگر ظاہر ہے کہ دوحہ میں ان کا قیام 'گوانتانا مو بے‘ سے بہتر ہوگا ۔افغانستان اسلامی اما رات کے امیر ملا محمد عمر جو شاذ ہی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں اس واقعہ کو ''فتح کے ساحل‘‘ کی قربت قرار دیا ہے ۔بارک اوباما نے جنگ مخالف منشور کی بنا پر الیکشن جیتا اور کابل سے واپس آکر اعلان کیا کہ ''امریکہ کے پاس بہترین ہتھوڑا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہر کیل درست ٹھونک سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے وضاحت کی کہ افغانستان کی تعمیر نو ہماری ذمہ داری نہیں ۔
امریکہ نے انقلاب سے لے کر کئی لڑائیاں لڑی ہیں مگر اسے افغانستان اور عراق جیسی طویل لڑا ئیوں کا سا منا نہیں ہوا۔ افغانستان کی لڑائی پھیل کر پاکستان میں بھی داخل ہوئی جہاں پندرہ سو میل لمبی ڈیورنڈ لائن آج بھی دونوں ملکوں کی بین الاقوامی سرحد ہے مگر جسے طالبان سمیت کسی افغان حکومت نے تسلیم نہیں کیا اور لوگ آزادی سے جہاں چاہیں اسے عبور کرتے ہیں ۔کل تک 'افغان جنگی تھیٹر‘ میں دہشت گردی کے توڑ کی امریکی کارروائیوں میں سر فہرست القاعدہ اور دوسری تنظیموں پر ڈرون حملے تھے جو کئی وجوہ کی بنا پر دسمبر کے بعد معطل ہوگئے ۔ان میں سب سے بڑا وہ سمجھوتہ تھا جو اوباما انتظامیہ اور نواز شریف کی حکومت کے مابین ہوا اور جس کی رو سے پاکستان میں سی آئی اے کے ڈرون حملے تقریباً بند ہو گئے ہیں اور امریکہ‘ پاکستان کے آئین کو ما ننے سے انکار کرنے والوں کے خلاف پاک فوج کی کارروائی کی داد دے رہا ہے جو شریعت کی آڑ میں ایک قطعہ زمین پر قبضہ چاہتے ہیں ۔
وارسا میں نیٹو اتحادیوں کو اعتماد میں لینے سے پہلے صدر اوباما نے ایک تقریر امریکی کاکول ویسٹ پوائنٹ پر کی ۔فوجی درسگاہ سے فارغ ہونے والے ایک ہزار لڑکے اور لڑکیاں جب ہوا میں اپنی ٹوپیاں اچھالنے کی روایت پوری کر رہے تھے‘ انہیں معلوم تھا کہ اب انہیں افغانستان اور عراق جیسی دور از کار لڑائیوں میں شامل ہونے کو نہیں کہا جائے گا ۔ملٹری اکیڈمی کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کے دوران‘ صدر نے خارجہ پالیسی کے اپنے تصور کی صراحت کی اور ایک ایسی قیادت کی وکالت کی جو دخیل کاری اور خلوت گزینی کے مابین توازن پیدا کر سکے تاکہ ''بیرونی پنگے‘‘ سے بچا جا سکے ۔ صدر نے اندرون اور بیرون ملک اپنے نقادوں سے کہا کہ وہ ان کی پالیسی کو بے معنی اور بودی کہنے کی بجائے یہ بتائیں کہ ''آپ کیا مختلف کریں گے؟‘‘ ان کے تصور کو نظریہ اوباما کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ فوجی طاقت استعمال کرے گا اور اگر ضروری ہوا تو اکیلے ایسا کرے گا جب ہمارے بنیادی مفادات تقاضا کریں گے یعنی جب ہمارے لوگ خطرہ محسوس کریں گے‘ جب ہمارا معاش داؤ پر ہوگا اور جب ہمارے اتحادیوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا‘ مگر دوسرے معاملات میں جب تک عالمی فکر مندی کے مسائل‘ امریکہ کے لئے براہ راست خطرہ نہیں بنتے‘ ہمیں اکیلے قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔ نقادوں کے کہنے کے با وصف ''ہر مسئلے کا فوجی حل موجود نہیں‘‘۔ 
انخلا میں تدریج کا اہتمام نہ ہوتا تو امریکہ پر ایک بار پھر یہ الزام آتا کہ وہ افغانیوں سے دغا کر رہا ہے ۔افغا نستان میں صدارتی الیکشن کے دونوں امیدوار امریکہ کی موجودگی کے حق میں تھے اور اسی لئے انہوں نے انتخابی جلسوں میں توسیع نامے پر دستخط کا وعدہ کیا تھا ۔پھر لویہ جرگہ ان کی پشت پر تھا جو 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجوں کے قیام کا موئید تھا ۔ پاکستان بھی خطے میں طاقت کے خلا کے امکان پر پریشان تھا ۔ اس کی مشرقی سرحد پر ایک ہندو قوم پرست وزیر اعظم بن گیا ہے جس کی حلف لینے کی تقریب کا امریکہ نے بائیکاٹ کیا مگر پاکستان مصلحتاً شریک ہوا۔ ایران کو افغانستان میں انتہا پسندی بلکہ بنیاد پرستی گوارا نہیں۔ اگلے دو سال تک افغانستان میں امریکہ کی موجودگی خطے کے سب ملکوں کو راس آئے گی۔ اس طویل عرصے میں طالبان بھی بدل گئے ہیں اور وہ زیادہ ذمہ داری سے حکومت کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ دنیا کی نظریں اب چودہ جون پر لگی ہیں جب عبداللہ عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف غنی میں سے ایک حامد کرزئی کی جگہ لے گا اور ملک میں نیٹو فوجوں کے مزید قیام کے اختیار نامے پر دستخط کرے گا۔ ضروری نہیں کہ امریکیوں کی رخصتی کے بعد دوسری خانہ جنگی سر اٹھائے۔ طالبان جو موجودہ حکمرانوں کو بیرونی ''کٹھ پتلیاں‘‘ کہتے ہیں ان سے بھی بات کر سکتے ہیں ۔دس ہزار فوج‘ افغانستان جیسے وسیع ملک پر قابض نہیں ہو سکتی مگر عارضی طور پر امن کی ضامن بن سکتی ہے۔ صدر اوباما نے وطن کی خاطر‘ وطن سے دور رہنے والے امریکیوں کو مبارکباد تو دی مگر فتح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ البتہ اگلے سال افغان کہہ سکتے ہیں ؎ 
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے 
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں