بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے

آموں کی جو پیٹی آپ نے بھیجی‘ وہ مل گئی ہے ۔یہ آم ہیوسٹن ٹیکسس میں آئے ہیں جہاں احمد مشتاق سمیت ہزاروں پاکستانی اور لاکھوں بھارتی رہتے ہیں ۔احمد کیا جانے آم کا سواد‘ وہ تو امرتسر میں پیدا ہوا تھا اور ہجرت کرکے لاہور پہنچا تھا۔ ستیہ پال آنند‘ جو سندھڑی کی سرزمین سندھ اور پنجاب کی سرحد پر پیدا ہوا تھا اور ہجرت کرکے لد ھیانہ جا پہنچا تھا‘ واشنگٹن میں آباد و شاد ہے مگر وہ پاکستانی آموں کے سواد سے بدستور محروم ہے ۔ شا ید آم کی اس درآمد میں مرزا اسد اللہ خان غالب کا ہاتھ ہو ۔احمد غزل کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اور غالب نے بھی اپنی غزلوں کے بل پر شہرت پائی ۔آنند غزل سے بیزار ہے اور اس کو نظم کا شاعر ما نا جاتا ہے ۔
ربع صدی قبل جب عظیم تر واشنگٹن میں وسطی امریکہ کے ٹھوس‘ کچے اور کھٹے آم بکنے لگے تو ایک لاطینو نوجوان کو ایک گروسری سٹور کے کیش رجسٹر کی قطار میں لگ کر آم کھاتے دیکھا گیا ۔ اول تو وہ خلاف قاعدہ آم کھا رہا تھا اور دوم اس نے اپنے دانت شاہِ اثمار کے چھلکے پر گاڑ رکھے تھے ۔کسی لاطینو نے اس کی اس حرکت پر تعجب کا اظہار نہیں کیا مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ آم اس کی چھال سمیت کھا رہا تھا ۔امید ہے کہ احمد اور آنند دونوں آم کھانے کے آداب سے واقف ہوں گے ۔ کم از کم غالب تو تھے جنہوں نے اپنے دوست حکیم رضی الدین خان کی طنز کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا: ''ہاں صاحب ‘گدھے آم نہیں کھاتے‘‘۔ 
سفیر جلیل عباس جیلانی اطلاع دیتے ہیں کہ 3500 کلوگرام سندھڑی آموں کی پہلی کھیپ امریکہ پہنچ گئی ہے اور ریاست ٹیکسس کے تین شہروں میں پاکستانی آم فروخت ہو رہے ہیں ۔جیلانی صاحب کے منہ میں گھی شکر اور اگر وہ ان دونوں اشیا کو مضر صحت سمجھتے ہیں تو ان کے منہ میں میٹھے آم کا قوام‘ مگر اندیشہ ہے کہ یہ آم محمد حنیف کے ناول کی طرح A Case of Exploding Mangoes ثابت ہوں گے۔ ماضی میں تو یہی ہوا ۔تقریباً ہر پاکستانی سفیر موسم کی آمد پر پاکستانی آم کی درآمد کی خوشخبری سناتا رہا مگر وہ بازار میں نظر نہیں آئے ۔جیلانی کہتے ہیں کہ امریکہ پاکستانی پھلوں کی پسندیدہ منزل ہے اور درآمدی تجارت میں توسیع کے متعلق وزیر اعظم نواز شریف کی پالیسی کے عین مطابق ہے ۔ضروری نہیں کہ وزیر اعظم کی پالیسی سے مطابقت اس درآمد کی کامیابی کا وسیلہ ہو‘ پا کستانی آموں کو بازار میں دستیاب دوسرے میٹھے اور رسیلے آموں کا مقا بلہ کرنا ہو گا۔ اس کاروباری مقابلے میں ناکامی ماضی میں درآمد کی ناکامی کا سبب بنتی رہی ہے اور اسی بنا پر بھارت اپنے آم امریکہ لانے میں کامیاب نہیں ہوا ۔
سفیر صاحب نے پاکستانی مال کا ہوکا خوب لگایا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہیوسٹن‘ ڈلس اور ریاستی دار الحکومت آسٹن میں 2.25 کلو گرام سندھڑی آم کی پیٹی پچیس ڈالر میں فروخت ہوتی ہے ۔وہ یہ تو کہتے ہیں کہ پاکستانی آم خوش ذائقہ اور معیاری ہے اور یہ قیمت معقول ہے مگر ایک اچھے دکاندار کی طرح یہ بات چھپا گئے کہ سیزن میں میکسیکو سے Marathon برانڈ کے جو آم پاکستانی اور بھارتی گروسری سٹوروں پر آتے ہیں ان کی پیٹی نو سے گیارہ ڈالر میں ملتی ہے ۔ یہ آم بھی میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں اور اسی لیے ان دکانوں پر بکتے ہیں۔ سفیر صاحب نے جراثیم کشی کی جن سہولتوں کے لیے امریکی محکمہ زراعت کا شکریہ ادا کیا ہے ان کی بھی ایک قیمت ہے جو ایئر فریٹ میں شامل ہو کر مال کے دام اونچے کر دیتی ہے۔ پاکستان یا بھارت آم کے کاروبارمیں یورپ کو فتح کر سکتے ہیں مگر امریکہ میں شاید کبھی کامیاب نہ ہو سکیں ۔سفیر صاحب بتاتے ہیں کہ پاکستان سے مزید آم آنے والے ہیں مگر یہ معلوم نہیں کہ مغربی ساحل والوں‘ بالخصوص نیو یارک اور واشنگٹن کے شہری علاقے بھی ان کا مزہ چکھ سکیں گے یا نہیں۔ پاکستان میں ترشاوا پھلوں کے بعد آم کا نمبر آتا ہے مگر یہ پھل یا ان کا جوس ڈبوں میں بند کرنے کا خاطر خواہ انتظام نہیں اس لئے بہت سا پھل ضائع ہو جاتا ہے۔پاکستان ایک لاکھ پچیس ہزار ٹن آم برطانیہ اور یورپی یونین کے دوسرے ارکان‘ آسٹریلیا اور عرب ملکوں کو برآمد کرتا ہے ۔ ان میں چونسہ‘ لنگڑا‘ الفانسو‘ الما س‘ طوطہ پری‘ لال پری اور انور رٹول وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔اگر پاکستان نقل و حمل کی لاگت کم کر لے اور پیکنگ کے اپنے انتظامات کر لے تو شمالی اور جنوبی امریکہ اس کی منڈی بن سکتے ہیں ۔
پاکستان اور بھارت میں آم کے باغات بکثرت ہیں جو عام طور پر ٹھیکے پر دے دیے جاتے ہیں ۔ٹھیکیدار ایک یا دو رکھوالے ملازم رکھتا ہے‘ جو سیزن کے دوران باغ میں ڈیرے تو ڈال دیتے ہیں اور ایک غلیل سے شرارتی طوطوں اور لڑکوں کو دور بھگاتے رہتے ہیں مگر پھل کی صحت کا خیال کم رکھتے ہیں۔ پھل‘ جو پیٹیوں میں بھر کر برآمد کیا جاتا ہے‘ جراثیم سے پاک نہیں ہو سکتا‘ جن میں فروٹ فلائی سر فہرست ہوتی ہے۔ امریکہ میں جو پاکستانی آم درآمد کیا گیا اسے irradiation کے عمل سے گزار کر ان جراثیم سے پاک کیا گیا ہے ۔ یہ ایک سخت اور گراں خرچ عمل ہے جس سے درآمد ہونے والی تمام سبزیاں اور پھل گزارے جاتے ہیں ۔ پاکستانی آم کا عمدہ معیار اسے اس عمل سے مستثنی نہیں کر سکتا ۔ سنا ہے کہ اب یورپی یونین بھی پاکستان کی درآمدات کو اس عمل سے گزارے گی اور ہوسکتا ہے کہ بعض آم اس کے معیاروں پر پورے نہ اتریں۔ اس صورت میں پاکستانی درآمدات یقیناً متاثر ہوں گی ۔
وقت آگیا ہے کہ جو اہل پاکستان موسم آنے پر آم کی پیٹیاں عزیز و اقارب کو تحفہ کے طور پر ارسال کرتے ہیں اور ان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں‘ وہ ملک خدا بخش بُچہ مرحوم کے پند و نصائح پر توجہ دیں ۔ ملک صاحب مغربی پاکستان کے وزیر زراعت تھے اور ہر ہفتے ریڈیو پر کاشتکاروں کو مفید مشورے دیا کرتے تھے ۔جب غیر ملکی مشروبات کا غلغلہ بلند ہوا اور مرکزی حکومت نے اپنے حامیوں کو فیکٹریاں لگانے کے پرمٹ جاری کیے تو انہوں نے بُرا منایا مگر وہ کھل کر مخالفت نہ کر سکے ۔ایک دن رپورٹروں کو بلا کر اتنا کہا کہ مشرقی پاکستان سمیت پاکستان کے تقریباً ہر حصے میں آم بکثرت ہوتا ہے۔ اس پھل کا جوس ٹھنڈی بوتلوں میں بھر کر مہمانوں کے آگے رکھنا زیادہ سہولت آمیز ہو گا۔اس طرح بہت سا زر مبادلہ بچے گا اور ایک زرعی پیداوار کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ہم نے سمجھا کہ ملک صاحب ملتان میں آم کے باغات کے مالک ہیں اس لیے معاشرے کی ترقی میں مخل ہو رہے ہیں مگر آج جب کہ امریکی محکمہ زراعت نے بعض سافٹ ڈرنکس میں سُرمئی رنگ اور شکر جیسے شربتی اجزا کو مضر صحت قرار دیا ہے اور اسے سکولوں کی مشینوں سے نکال باہر کیا ہے۔ ملک صاحب کی باتیں یاد آتی ہیں مگر ان کے ساتھ پھل مکھی بھی ۔یہ مکھی گرے پڑے اور گلے سڑے آموں پر آتی ہے جنہیں رکھوالے زمین سے اٹھانے میں کو تاہی کرتے ہیں ۔ فروٹ فلائی خطرناک ہے خواہ وہ لندن میں ہو‘ ہیوسٹن میں یا کراچی میں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں