پرانی اقدار پر چلنے والا ایک نیا انسان

دار النور میں نماز جنازہ کے بعد کفایت اللہ رحمانی کی میت اس پارکنگ لاٹ سے موٹر گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں قبرستان کے سفر پر روانہ ہوئی‘ جس میں اس صبح بھی Reserved کی دو تختیاں لگی تھیں۔ایک پر امام صاحب اور دوسری پر رحمانی صاحب کا نام تھا‘ جو اس مسجد کے بانی تھے ۔مرحوم نے مسجد کے لئے جگہ خریدنے کی کہانی مجھے اور دوسرے دوستوں کو یوں سنائی۔
ایک بار وہ بیٹے کے ہمراہ ہوڈلی روڈ سے گز ر رہے تھے ۔اس جگہ برائے فروخت کا بورڈ نظر آیا ۔ذرا آگے پرنس ولیم کاؤنٹی پارک وے پر ان کا دفتر تھا ۔وہ کاؤنٹی کے انجینئر تھے ۔ انہوں نے بیٹے سے کہا: گاڑی روکو اور مالک کو فون کرو ۔ وہ اس خالی جگہ کے جو دام مانگ رہا تھا‘ معمولی تھے۔ مالک کو فون کیا اور سودا طے پا گیا۔ اب انہیں ادائیگی کے شیڈول کا سا منا تھا ۔انہوں نے کچھ دوستوں سے بات کی اور سب نے کاؤنٹی کی پہلی سجدہ گاہ کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ دارالنور کی بنیاد رکھ دی گئی تھی ۔
رمضان کے آخری عشرے میں جب میں نماز جنازہ کے لئے مسجد کے احاطے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ پارکنگ لاٹ میں لکیریں لگ چکی ہیں اور کارکن ایک طرف بچوں کے کھیلنے کا سازوسامان نصب کرنے میں مصروف تھے۔ منتظمین نے اس عشرے میں سجدہ گاہ کو مسلسل ترقی دی‘ نماز پنجگانہ ادا ہونے لگی ہے۔ مسلم ایسوسی ایشن آف و ر جینیا معرض وجود میں آئی۔جمعہ کا اجتماع ہونے لگا جس میں خطبہ ایک مہمان خطیب دیتا ہے۔ ان مہمانوں میں اکثریت غیر پیشہ ور علمائے دین کی ہوتی ہے‘ مثلاً ایک خطیب لیبیا میں پیدا ہوا تھا اور علاقے کے ایک اسپتال میں جراحی کے شعبے کا سربراہ ہے ۔مسجد کو جلد ہی ایک اسلامک سنٹر کی شکل دے دی گئی ۔معاشرتی خدمات کا اہتمام کیا گیا اور نو عمر افراد کو دین کی طرف مائل کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔
الحاج رحمانی نے87سال کی عمر میں کینسر کے سامنے ہتھیار ڈالے اور چند روزمیں خالق حقیقی سے جا ملے ۔وہ لد ھیانہ میں پیدا ہوئے تھے اور ساحر‘ ابن انشا اور حمید اختر کو جانتے تھے ۔چند سال پہلے پنجاب یونیورسٹی آف ایگریکلچر لدھیانہ کے پروفیسرڈاکٹر بلدیو سنگھ ڈھلوں ریٹا ئرہونے کے بعد اپنی اہلیہ ویرندر کے ساتھ واشنگٹن آئے تو رحمانی صا حب اور ان کی رفیقہ حیات‘ جین نے رات کے کھانے کے لئے انہیں اپنے گھر‘ جس کے باہر اب بھی ''گلبرگ‘‘ کی تختی لگی ہے‘ مدعو کیا۔ وہ تادیر انہیں یونیورسٹی میں اپنے دا خلے اور کھیلوں میں اپنے حصہ لینے کے حوالے سے تصویریں دکھاتے رہے ۔ ان کے صاحبزادے عدنان بتاتے ہیں‘ وہ چھ ماہ کے تھے‘ جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ان کا گھر تصویروں سے بھرا ہوا ہے مگر ان میں باپ کی تصویر نہیں۔ان کی پرورش بڑے بھائی نے کی اور تعلیم لاہور میں مکمل ہوئی۔
رحمانی صاحب پرانی اقدار پر چلنے والے ایک نئے انسان تھے ۔ ان کو تنظیم سازی کا جنون تھا۔ امریکہ آنے سے پہلے وہ ہانگ کانگ اور افریقہ میں ملازمت کرتے رہے ۔شہر شہر انہوں نے کئی مساجد قائم کیں۔ گزشتہ سال وہ ایسی ایک سجدہ گاہ کی تاریخ پر ایک کتاب کی رونمائی میں حصہ لینے کے لئے ایک سابق برطانوی نو آبادی میں گئے اور کامرانی کا احساس لئے واپس آئے ۔چند سال پہلے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن قائم کی اور لاہور کی پرانی درس گاہ کے وائس چانسلر مجاہد کامران کو واشنگٹن مدعو کیا‘ مگر وہ تشریف نہ لا سکے ۔ لاہور جا کر انہوں نے ڈاکٹر کامران سے ملاقات کی کوشش کی جو ناکام رہی حالانکہ انہوں نے وائس چانسلر سے پیشگی وقت لیا تھا ۔میں نے ایسوسی ایشن کا دعوت نامہ خالد حسن کو دیا تو وہ بیزاری سے بولے: امریکہ میں پنجاب یونیورسٹی کے طلبا و طالبات قدیم لوگوں کی طرح ہیں۔ پھر وہ خود کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر آناً فاناً اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 
رحمانی صاحب کا ایک کارنامہ حلقہ اربابِ ذوق شمالی امریکہ کا قیام ہے ۔یہ اس علاقے میں پہلی ادبی تنظیم تھی جس کے اجلاس ہر ماہ کے پہلے سنیچر کو ہوتے ہیں۔اس کے بانیوں میں عابدہ وقار رپلی اور ابو الحسن نغمی بھی شامل تھے۔ لاہور کے مشہور حلقے کی طرح ان جلسوں میں بھی مقالے‘ افسانے اور اشعار پیش کئے جاتے ہیں مگر ان پر تنقید توصیف و تعریف تک محدود رہتی ہے۔ یہ حلقہ بڑی عمر کے تارکین وطن کو مل بیٹھنے اور اپنی تخلیقی صلاحیتیں اجا گر کرنے کا نادر موقع مہیا کرتا ہے ۔رحمانی صاحب گزشتہ اجلاس سے پہلے بھی افطار کا انتظام کرتے دیکھے گئے ۔ انجمن ادب اردو SOUL نے حلقے کے بطن سے جنم لیا ۔ بیشتر اہل ذوق دونوں تنظیموں میں جاتے ہیں اور رحمانی صاحب بھی سول کے ایک اجلاس کی صدارت کر چکے ہیں ۔
جب تنظیم سازی کے لئے کوئی گروپ باقی نہ رہا تو رحمانی صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے دار النور میں جمع ہونے والے معمر لوگوں کی جماعت بنا دی ۔نماز کے بعد سینئر سٹیزن سجدہ گاہ میں اپنی فولڈنگ کرسیوں سے اٹھ کر ایک بالائی کمرے میں منتقل ہوتے تھے۔ حالات حاضرہ پر تبا دلہ خیالات ہو تا تھا اور ایک شخص کے لائے ہوئے کھانے سے کام و دہن کا اہتمام کرتے تھے۔اس مختصر اجتماع میں افریقی اور امریکی شہریوں کے علاوہ پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان‘ مصر‘ ترکیہ‘ بوزنیا ہر زے گوینا اور دوسرے ملکوں سے نقل وطن کرنے والے نمازی بھی حصہ لیتے تھے اور بعض اوقات آبائی وطن کا چکر لگا کر دوسروں کو تازہ واقعات سے آگاہ کرتے تھے ۔
رحمانی صاحب کا ایک معمول تھا ۔ جمعہ کے دن وہ مسجد آتے تھے۔ سنیچر کے دن حلقے کا اہتمام کرتے تھے اور اتوار کو وہ اپنے نواسوں اور پوتوں سے ملاقات کرتے تھے جنہیں عدنان نے Magnificent Seven قرار دے رکھا ہے۔ اتوار کی شام انہیں کسی تقریب میں مدعو کیا جاتا تھا تو وہ معذرت کرلیتے تھے ۔ کاؤنٹی کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی کاؤنٹی کی میراتھون (دوڑ) میں شریک ہوتے اور ہم سب کو حیران کرتے رہے ۔گزشتہ ماہ وہ حفظان صحت کے ایک ادارے کے علاقائی کلینک میں دکھائی دیے تو کہنے لگے: میں معمول کے چیک اپ کے لئے یہاں آیا تھا ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں ۔عدنان کا بیان ہے کہ وہ ''ٹھیک ٹھاک‘‘ نہیں تھے۔ جولائی کے شروع میں ان کا سرطان پکڑا گیا۔ مرض کی تشخیص میں تاخیر ہو چکی تھی ۔تین دن میں اس شاندار زندگی کا خاتمہ ہو گیا ۔عبید الرحمن (ایڈووکیٹ) نے روتے ہوئے اطلاع دی کہ رحمانی صاحب رخصت ہو گئے ہیں ۔ایم کیو ایم شمالی امریکہ کے صدر عباد الرحمن صدیقی کے پیرانہ سال والد حال ہی میں خود اسپتال میں داخل ہوئے تو دو بار رحمانی صا حب ان کی تیمار داری کو گئے ۔ رحمانی صاحب منے سس سے میرے ہاں لیک رج آتے تھے اور اپنی کلاسیکی گاڑی میرے گھر کے باہر پارک کر کے میری وین میں اسپتال جاتے تھے ۔ وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتے سوٹ بوٹ میں ملبوس ہوتے ۔
نماز جنازہ کا دن گو کام کا دن تھا اور قبل از دوپہر کا وقت تھا‘ پھر بھی مسجد حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔ جمع ہونے والے لوگوں میں مرحوم کے رضا کارانہ کام سے واقف مسلمانوں کے علاوہ علاقے کے کچھ سیاستدان‘ چند ہندو اور سکھ شہری بھی شامل تھے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں