ابراہیمی مذاہب کی بنیادی اقدار

برما میں مسلم اقلیت کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو بھلا یہ اطلاع کیوں تشویش میں مبتلا کرتی کہ رنگون میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا مزار لوحِ مزار سے بھی محروم ہے ۔یہ تشویش ایک پاکستانی امریکی کفا یت رحمانی کے حصے میں آئی۔وہ ورجینیا میں اپنے دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ قبر کی حالت زار دیکھ کر وہ شہر گئے‘ ایک کتبہ خریدا‘ اس پر بادشاہ کا نام کندہ کرایا اور واپس جا کر اسے مرقد پر نصب کر دیا ۔
بادشاہ کے آبائواجداد میں شاہ جہان بھی ہو گزرے ہیں جو معمار بادشاہ کہلاتے تھے۔ لاہور‘ دہلی اور آگرہ وغیرہ میں انہوں نے کئی یادگاریں چھوڑی تھیں ۔ رحمانی صا حب‘ لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور لاہور میں تعلیم مکمل کی تھی۔پیشے کے اعتبار سے وہ سول انجینئر تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں ہانگ کانگ‘ افریقہ اور امریکہ میں کام کیا اور جہاں کہیں گئے مساجد کی صورت میں اپنی یادگاریں چھوڑ آئے۔ دارالنور میں عیدالاضحی کے موقع پر علاقے کے ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن سیاستدان چار نومبر کے الیکشن کے لئے نمازیوں کے ووٹ مانگنے آئے۔ وہ رحمانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے کیونکہ اس پُر ہجوم مسجد کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی تھی ۔پا رکنگ لاٹ میں ایک جگہ اب بھی ان کے لئے مخصوص ہے اگرچہ انہیں اس جہان رنگ و بو سے رخصت ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ روزنامہ دنیا ان کا رحلت نامہ شائع کر چکا ہے ۔
رچرڈ اینڈرسن نے چوتھی شفٹ کے نمازیوں کو بتایا کہ ورجینیا کی جنرل اسمبلی نے پرنس ولیم کاؤنٹی کے ریٹائرڈ انجینئر کفایت رحمانی کی وفات پر ایک تعزیتی قرارداد منظور کی‘ جس کی باقاعدہ اطلاع مرحوم کے سوگوار خاندان کو دے دی گئی ہے ۔ ری پبلیکن اینڈرسن اب کانگرس کے امیدوار ہیں ۔مڈ ٹرم الیکشن میں سینیٹ کی 36اور ایوان نمائندگان کی سب کی سب یعنی 435 نشستیں داؤ پر ہیں ۔اس علاقے سے سینیٹ کی ایک نشست کے امیدوارڈیمو کریٹ مارک وارنر ہیں جو کانگرس میں جانے سے پہلے ریاست کے منتخب گورنر تھے ۔وہ بولے: میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے دوبارہ منتخب کیجئے بلکہ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ مجھے re-hire کیجئے تاکہ میں آپ کی خدمت جاری رکھ سکوں ۔وارنر سو رکنی ایوان میں فنانس‘ بجٹ اور انٹیلی جنس کمیٹیوں میں کام کر چکے ہیں ۔ امریکی مسلمانوں کے شہری حقوق کا دھیان رکھنے پر مامور قومی تنظیم CAIR کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عواض نے‘ جو اس شفٹ کے امام اور خطیب تھے‘ نمازیوں پر زور دیا کہ وہ خود بھی پبلک آفس کے لئے الیکشن لڑیں اور اپنی کامیابی کے لئے اللہ پر بھروسہ کریں۔
یہ اکتوبر کے مہینے کا پہلا سنیچر تھا‘ جو حلقہ ارباب ذوق شمالی امریکہ کے اجلاس کے لئے وقف ہوتا ہے ۔ یہ ادبی ادارہ بھی رحمانی صاحب کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ سیکرٹری شاہ فضل عباس‘ عید کے احترام میں یہ میٹنگ منسوخ کرنے کے حق میں تھے مگر عبید الرحمن ایڈووکیٹ نے‘ جو ایم کیو ایم شمالی امریکہ کے سربراہ عبادالرحمن صدیقی کے والد ہیں اور کراچی سے صدر ضیاالحق کی مجلس شوری کے رکن رہے‘ مشورہ دیا کہ جلسہ منسوخ نہ کیا جائے اور اسے عید ملن پارٹی بنا دیا جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب ارکان کو مسجد کی روداد سے آگاہ کیا گیا تو قدرتی طور پر سب خوش ہوئے۔ میٹنگ میں سورہ فا تحہ پڑھ کر رحمانی صاحب کی روح کو ثواب پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر نعیم قاضی نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ رحمانی صاحب جیسا بے غرض آدمی کم دکھائی دیتا ہے ۔ان کی اہلیہ ڈاکٹر صبیحہ قا ضی لکھنوی طرز کی سویاں بنا کر لائی تھیں جو سب نے مزے سے کھائیں اور ان کو یوں داد دی جیسے اچھا شعر سن کر دی جاتی ہے ۔
امریکہ میں عید کا ہفتہ‘ حسن اتفاق سے تین ا براہیمی مذاہب‘ یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کی تقریبات کے اتصال کا ہفتہ تھا۔ جمعہ کی شام یوم کپر آیا جو یہود کا سب سے مقدس تہوار ہے اور جسے توبہ و استغفار کا وقت سمجھا جاتا ہے ۔ دیہاتی یہودی اپنے ریوڑ سے ایک بکرا چنتے ہیں اور اپنے تمام گناہ اس کے سر ڈال دیتے ہیں۔ وہ اس بکرے کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ۔ بکرے کی واپسی ناممکن بنانے کے لئے بعض اوقات اسے پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکا دیا جاتا ہے ۔ہفتے کو یوم کپر کا خاتمہ ہوا تو عید الا ضحی آگئی اور مسلمانوں نے شہر شہر کئی کئی شفٹوں میں عید کی نماز پڑھی اور بکروں اور دوسرے حلال جانوروں کی قربانی دی۔ اٹلی میں ایک دن Feast of St. Francis of Assisiکے طور پر منایا جاتا ہے۔ کیتھولک مسیحی انہیں جانداروں اور ماحولیات کا پیر مانتے ہیں۔ اپنے بکروں اور دوسرے جانوروں کو بنا سنوار کر گرجا گھر لے جاتے ہیں اور ان پر پادری کی برکت حاصل کرتے ہیں ۔
ان سارے معاملات سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نیو یارک سے واشنگٹن پہنچے۔ انہوں نے میڈیسن سکوائر گا رڈن میں بیس ہزار گجراتیوں اور دوسری بھارتی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن سے خطاب کرتے ہوئے ہندو ازم کی اہمیت پر زور دیا اور سوامی وویکانند کی یادیں تازہ کیں‘ جو 1893ء میں برطانوی ہند کے ہندووں کی جانب سے شکاگو میں مذاہب کی عالمی ''پارلیمنٹ‘‘ میں شریک ہوئے تھے ۔ مودی نے نو راتری کا برت رکھا ہوا تھا جسے صدر اوباما نے ایک ڈنر سے توڑا۔ یوں امریکی معاشرے کی بنیاد جو Judo-Christian Tradition پر مبنی سمجھی جاتی تھی‘ ہندو مت کی بجائے اسلام کو گلے لگاتی دکھائی دی ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں ہندوئوں کی آبادی سات لاکھ جب کہ مسلمانوں کی تعداد ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مسلم لیڈر اکثر یہ گلہ کرتے سنے جاتے تھے کہ معاشرے کی بنیاد میں یہودیت ہے اسلام نہیں۔
ایک دفعہ ایدتی کے عنوان سے سمتھ سونین میں ایک نمائش ہوئی‘ جس کا مقصد بھارت ورش کے کلچر کو اجاگر کرنا تھا۔ اس میں بیس ہزار افراد کا ایک گاؤں دکھایا گیا تھا‘ جس کے بیس ہزار دیوتا تھے‘ جن کی گاؤں والے ہر روز پوجا کرتے تھے ۔وحدانیت ابراہیمی ادیان کی ایک اور قدر مشترک ہے ۔ان مذاہب کو ماننے والے اپنے تہواروں کے موقع پر خدائے بزرگ و برتر کی پرستش کرتے ہیں ۔یوم کپر تمام ہونے پر سنا گاگ میں ایک حمد پڑھی جاتی ہے ۔عید کی نماز میں تکبیروں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور سینٹ فرانسس کے دن پر ایک نظم گائی جاتی ہے جس میں جانداروں پر پروردگار کی رحمت کا ذکر ہو تا ہے۔قربانی کی کوئی نہ کوئی شکل تینوں بڑے مذاہب میں رائج ہے۔ یوم کپر کے موقع پر یہودی دن رات کا روزہ رکھتے ہیں اور معبد میں بیٹھ کر اپنے گناہوں پر غور کرتے ہیں ۔عید الا ضحی پر مسلمان قربانی کے گوشت کا ایک تہائی غریبوں کے لئے وقف کرتے ہیں ۔دار النور میں مسلم ایسوسی ایشن آف ورجینیا کے صدر رفیع الدین احمد نے قربانی کے لئے علاقے کے دو گروسری سٹوروں کے ناموں کا‘ جو غریبوں کے لئے قربانی کا گوشت قبول کریں گے‘ اعلان کرتے ہوئے تلقین کی کہ وہ جانوروں کے وہ حصے ناداروں کو مت دیں جنہیں وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔ بارہویں صدی کے سینٹ فرانسس کی پیروی کرنے والوں نے قربانی کے لئے مسیحیت کی ایک شکل اختیار کی ہے۔ وہ اسیسی میں اس جھونپڑی کی زیارت کو جاتے ہیں جس میں فرانسس نے اپنی دولت کو لات مار کر رہائش منظور کی تھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں