سی آئی اے بے نقاب ہو گئی

جس روز تحریک انصاف والوں نے شکایت کی کہ وہ پُرامن احتجاج کے لیے فیصل آباد گئے تھے لیکن ان کا ایک کارکن نواز شریف کے ایک رضا کار کی گولی کا نشانہ بن گیا ہے، اسی دن واشنگٹن میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق ایک فلسطینی ابو زبیدہ اسی شہر میں گرفتار ہوا تھا‘ 28مارچ 2002ء کو‘ حکمران اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف تھے۔ اپنے اقتدار کی سوانح عمریIn The Line Of Fire میں وہ لکھتے ہیں: اگر کسی کو شک ہے کہ پاکستان دہشت کاروں کو پکڑنے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کر رہا ہے تو اسے سی آئی اے سے پوچھنا چاہیے کہ ہم نے کتنے دہشت گرد پکڑ پکڑ کر اس کے حوالے کیے ہیں اور مقررہ انعام پایا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زیادہ تر لوگ‘ جن پر امریکہ کو دہشت کار ہونے کا شبہ تھا‘ 2002-2003ء میں پکڑے گئے اور ان میں دو پاکستانیوں سمیت وہ سات عربی بھی شامل تھے‘ جو اس رپورٹ کا بڑا موضوع ہیں۔
تفتیش کے دوران انہیں Waterboarding اور Rectal Rehydration کی اذیت دی گئی‘ جو بقول صدر اوباما امریکی قدروں کے منافی تھی۔ صدر بش نے نائن الیون کی تباہ کاریوں کے بعد ان سخت تفتیشی حربوں کی اجازت دی تھی۔ بارک اوباما نے انہیں منسوخ کر دیا۔ کچھ ری پبلکن عناصر اس رپورٹ کو سیاسی درجہ دیتے ہیں اور اسے ڈیموکریٹک پارٹی کو بڑھاوا دینے کی ایک کوشش کہتے ہیں‘ مگر سرکردہ ری پبلکن جان مکین‘ جو صدر ہوتے ہوتے رہ گئے، اصرار کرتے ہیں کہ ایسے حربوں کے نتائج منفی ہوتے ہیں۔
ابو زبیدہ‘ جس کا پورا نام زین العابدین محمد حسین ہے‘ افغانستان، تھائی لینڈ، پولینڈ، مراکش اور لتھوینیا میں سی آئی اے کی پوشیدہ جیلوں میں بھی بند رہا ہے۔ سینئر القاعدہ معاون سمجھا جاتا ہے۔ اسے جو اذیتیں دی گئیں‘ ان میں واٹر بورڈنگ یعنی زیر تفتیش آدمی کا سانس بند کر دینا اور اسے ڈوبنے کا احساس دلانا اور ری ہائیڈریشن یا جسم میں ہوا بھرنا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ اسے نیند سے محروم رکھا گیا، سخت سردی میں برہنہ کیا گیا اور قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ایک مرحلے پر تو واٹر بورڈنگ نے ابو زبیدہ کو مار ہی ڈالا تھا‘ جب اس کے منہ سے بلبلے ہی نکل رہے تھے۔ اکتوبر 2002ء میں صدر بش کو اطلاع دی گئی کہ ابو زبیدہ اب بھی خطرے کا باعث ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں تفتیش میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا اور اسے ابو احمدالکویتی کی شناخت کا وسیلہ قرار دیا گیا‘ جو با لآخر سی آئی اے کی ٹیم کو بن لادن کے مکان تک لے گیا۔ حکومتی دستاویز میں اس دعوے کا اعادہ کیا گیا ہے کہ جسمانی دباؤ کے حربے مددگار ثابت ہوئے۔ اس میں کہا گیا کہ دو نظر بندوں عمارالبلوچی اور حسن گل نے ایبٹ آباد میں بن لادن کے گھر کا پتہ دیا، صرف تفتیشی دباؤ سے گزر نے کے بعد۔ سینیٹ انٹیلی جنس چیف ڈائنا فائن سٹائن کہتی ہیں کہ ایجنسی نے رپورٹ کو دبانے پر چالیس ملین ڈالر صرف کیے مگر کانگرس کی چھ سالہ محنت رنگ لا کر رہی۔ کانگرس پر سینیٹر فائن سٹائن کی ڈیموکریٹک پارٹی کا کنٹرول ختم ہونے کو ہے۔
رمزی بن شباہ یمنی ہے۔ وہ کراچی میں پکڑا گیا تھا۔ وہ بھی یورپ اور افریقہ کی جیلوں میں وقت گزارنے کے بعد گوانتانامو بے میں قید ہے۔ چونکہ یہ جزیرہ کیوبا کی ملکیت ہے اور طویل پٹے پر امریکہ کے پاس ہے‘ اس لیے مقدمہ چلانے کے تقاضوں کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔ بارک اوباما نے صدر منتخب ہوتے ہی اس رسوا کن قید خانے کو بند کرنے کا حکم صادر کیا تھا‘ مگر تکنیکی وجوہ کی بنا پر وہ اسے بند نہیں کرا سکے ۔ ولید بن عطاش یمنی بھی پہلے کراچی میں زیر حراست تھا اور کئی قسم کی سزائیں کاٹ چکا ہے۔ اسے USS Cole اور نائن الیون کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ عربی شہری عبدالرحمن النشیری متحدہ عرب امارات میں گرفتار ہوا تھا۔ واٹر بورڈنگ، نقلی پھانسی، دباؤ کی حالت میں کھڑے رہنے اور دوسری اذیت ناک سزائیں کاٹ چکا ہے۔ ملائشیا کا شہری للی، بنکاک میں پکڑا گیا تھا اور جزیرے کی قید میں آنے سے پہلے وہ بہت سی اذیتیں سہہ چکا تھا۔ اسے جکارتہ کے ایک ہوٹل میں بم چلانے کی بنا پر حراست میں لیا گیا تھا۔
اب کچھ تذکرہ دو پاکستانی شہریوں کا جو گوانتانامو بے میں بند ہیں۔ خالد شیخ محمد یکم مارچ 2003 ء کو راولپنڈی سے پکڑا گیا اور ماجد خان‘ جو اس کا معاون سمجھا جاتا ہے‘ چار دن بعد کراچی میں گرفتار ہوا تھا۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ پر حملوں کا، جس میں تین ہزار افراد مارے گئے تھے، ماسٹر مائنڈ ہے‘ اس لیے اسے پھانسی دی جائے۔ امریکی حکومت مقدمہ چلائے بغیر کسی کو موت کے گھاٹ نہیں اتار سکتی۔ ایک دستاویز میں سی آئی اے کا کہنا ہے کہ خالد شیخ سے تفتیش کے دوران ہمیں جماعتہ الاسلامیہ کے حنبلی کا پتہ ملا جو جزیرہ بالی پر بمباری میں مطلوب تھا‘ مگر سینیٹ نے کہا کہ خالد سے حاصل ہونے والی معلومات کا حنبلی کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ سی آئی اے کے ایک ذیلی ادارے اور تھائی لینڈ کی خفیہ معلومات کے نتیجے میں پکڑا گیا تھا۔ خالد نے ''ڈرٹی بم‘‘ کے شبے میں پکڑے جانے والے لاطینو ہوزے پدیا کے دماغ کی ایک کل بھی ڈھیلی قرار دی تھی۔ رپورٹ پدیا اور اس کے مبینہ ساتھی کی شناخت کا وقت اور بتاتی ہے۔ پاکستانی حکام کو‘ جنہوں نے پدیا کو حراست میں لیا تھا، شبہ تھا کہ وہ القاعدہ کا رکن ہے۔ چند روز بعد ابو زبیدہ نے بیان کیا کہ دو آدمی‘ جو واشنگٹن ڈی سی میں ایک بم چلانے کی تیاریاں کر رہے ہیں‘ دراصل پاگل ہیں۔ اسی طرح ایجنسی نے کہا کہ تفتیشی پروگرام دہشت کی ''دوسری لہر‘‘ کی دریافت کا سبب بنا‘ جس کے لیے خالد، مغربی ساحل کو نشانہ بنانے کے لیے غیر عرب انتہا پسند بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، حسن گل نے عراق میں پکڑے جانے کے بعد یہ معلومات اس سے پہلے ہی امریکہ کے حوالے کر دی تھیں۔ نائب صدر ڈک چینی کے حکم پر ابو زبیدہ اور نشیری سے تفتیش کے جو وڈیو ٹیپ بنوائے گئے تھے‘ وہ ایجنسی کے ایک اہلکار ہوزے راڈ ریگز نے 2005 ء میں تلف کرائے اور صدر بش نے سی آئی اے کو ہدایت کی کہ سخت تفتیش جسے enhanced interrogation کا نام دیا گیا تھا، جاری رکھی جائے۔ اس پروگرام میں کام کرنے والے ایک افسر کو کئی دوسرے ملازمین کی طرح اس کی قانونی حیثیت پر شک تھا اور اس نے ایک بار کہا تھا کہ وہ ایک ایسی ریل گاڑی میں سوار ہے‘ جو تباہ ہونے کو ہے اور وہ جلد سے جلد اس ٹرین سے اتر جانا چاہتا ہے۔
امریکی سینیٹ کی رپورٹ کے مطابق 2002ء سے 2008ء تک نائن الیون کے سلسلے میں 119 آدمی نظر بند کئے گئے اور 39 کو سخت تفتیش کا نشانہ بنایا گیا۔ چھبیس کو غلط طور پر نظر بند کیا گیا۔ سی آئی اے نے بیس کو پاس رکھنے کا پہلے کبھی اعتراف نہیں کیا تھا۔ پانچ کو مقعد میں ہوا بھرنے کی اذیت دی گئی۔ تین کو ڈوبنے کا احساس دلایا گیا۔ ایک سو انیس کو ملک سے باہر پوشیدہ جیلوں میں رکھا گیا۔ سات آدمی‘ جنہیں غلط طور پر پکڑا گیا تھا‘ سخت تفتیش کا نشانہ بنے مگر ان سے ایجنسی کو کچھ نہ ملا۔ پندرہ اب بھی گوانتانامو بے میں قید ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں