تیسری دنیا کا ایک منظر

امریکہ نسلی کشیدگیوں کی لپیٹ میں ہے ۔ان کشیدگیوں کی جڑیں در اصل اس ملک کے قیام سے بھی پہلے اس زمانے میں چلی گئی ہیں جب انگریز آبادکار‘ انسانوں کو غلام بنا کر افریقہ سے یہاں لاتے تھے اور ان سے جانوروں کے کام لیتے تھے ۔غلاموں میں بڑی تعداد میں افریقی مسلمان بھی تھے‘ اس لئے احتجاج کی لہر پچھلے دنوں جب بالٹی مور پہنچی تو ''نیشن آف اسلام‘‘ کے خوش پوش رضاکار اس کی قیادت کررہے تھے مگر جیسا کہ اکثر مظاہروں کے دوران ہوتا ہے‘ جلد ہی یہ قیادت ان کے ہاتھ سے نکل کر بلوائیوں کے قبضے میں چلی گئی اور اگلے دن ملک کے پہلے سیاہ فام صدر کو کہنا پڑا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں لوہے کی سلاخیں ہوں وہ احتجاج کے لئے نہیں آئے تھے ۔
شہر کے مغربی حصے میں فریڈی گرے کے جنازے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے ۔ گرے کو دو ہفتہ پہلے گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کے زیر حراست اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔وہ سیاہ فام تھا اور منشیات بیچ کر گزارا کرتا تھا۔وہ اس دھندے میں اکیلا نہیں تھا۔اس بستی کے اکثر لوگ یہی دھندا کرتے ہیں ۔شہر کا یہ حصہ تیسری دنیا کا منظر پیش کرتا ہے ۔بعض مکان ویران پڑے ہیں اور ان کے مکین کہیں اور جا بسے ہیں ۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اور جگہ جگہ جوہڑ دکھائی دیتے ہیں۔بے روزگاری زوروں پر ہے اور ہائی سکول سے بھاگنے کے واقعات قومی سطح سے بڑھ کر ہیں۔مظاہرین کے ایک لیڈر نے ان سے کہا کہ جو ایک پتھر پھینکا جا تا ہے وہ فریڈی گرے کو انصاف دلانے میں حائل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود دو درجن سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے ۔کم و بیش ایک درجن زخمی ہوئے ۔پولیس کی بہت سی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ایک شاپنگ مال کے کئی سٹور لوٹ لئے گئے ۔ریاست میری لینڈ کے گورنر نے شہر میں ہنگامی حالت نافذ کی۔ نیشنل گارڈ (رینجر) طلب کئے گئے اور ایک فوجی افسر نے واضح کیا کہ شہر میں مارشل لا نہیں وہ پولیس کی امداد کو آئے ہیں اور میئر نے اعلان کیا کہ فسادیوں کا محاسبہ کیا جائے گا ۔ٹیلی وژن نے ایسے ''ذمہ دار‘‘ شہریوں کو نمایاں کیا جواپنے بچوں کو ہانک کر گھر لے جا رہے تھے یا شہر کی صفائی میں حصہ لے رہے تھے ۔
امریکہ میں آبادی کے سب سے بڑے نسلی گروپ (ہسپانوی‘ سترہ اعشاریہ ایک فیصد) کے بعد افریقی امریکی ہیں جو ملک کی مجموعی آبادی (بتیس کروڑ پچاس لاکھ) کا تیرہ اعشاریہ دو فیصد ہے مگر تاریخی وجوہ کی بنا پر انہیں ہر ادارے میں اپنے حصے سے زیادہ نمائندگی حا صل ہے پھر بھی جرائم‘ منشیات اور بے روزگاری میں وہ صف اول کے شہری ہیں اور باقی بیشتر آباد کار اکثریت میں ضم ہو چکے ہیں البتہ ہمارے جیسے ایشیا ئی امریکی الگ دکھائی دیتے ہیں اور بعض اوقات پولیس کے تعصب کا نشانہ بنتے ہیں ۔گزشتہ دو برسوں میں پولیس گردی کے جو واقعات رونما ہوئے ان میں ایک بھارتی دادا سریش بھائی پٹیل بھی زد میں ہیں جو اپنے بچوں اور ان کی اولادسے ملنے کے لئے امریکہ آئے تھے مگر واپس لوٹنے سے پہلے الا بامہ پولیس کے ہتھے چڑھ گئے ۔
بالٹی مور میں نظم و نسق کی صورت حال کے ذمہ دار تو بہر حال کالے امریکی سمجھے جائیں گے مگر اس صورت حال سے نبٹنے کی ذمہ داری کالے اور گورے امریکیوں کی ایک ملی جلی ٹیم کے سر آئی۔ گورنر‘ جنہوں نے شہر میں ہنگامی حالت نافذ کی‘ گورے ہیں اور ہنگامی حالات سے عہدہ برا ہونے والے سب سے بڑے وفاقی افسر بھی ان کے ہم نسل ہیں مگر با قی سب‘ جن میں شہر کی خاتون مئیر‘ میری لینڈ کی سرکاری وکیل اور پولیس چیف شامل ہیں‘ کالے ہیں ۔ وہ سب شر پسندعناصر کی مذمت کرتے رہے۔ شہریوں کوپانچ رات کرفیو کے ساتھ نبھاہ کرنا پڑا۔ زیادہ تر نو عمر لوگ متاثر ہوئے ۔اگرچہ لوگ پولیس کے رویے کے شاکی ہیں مگر معاشرے میں امن قائم کرنے اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے بھی انہی کی جانب تکتے ہیں ۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بعد یہ پہلا ملک گیر احتجاج ہے ۔1968ء میں شہری حقوق کے راہنما کا سانحہ گو جنوب کے شہرممفس( ٹینی سی )میں رونما ہوا تھا مگر اس پر سیاہ فاموں کے مظاہرے نو سو میل دور قومی دارالحکومت تک پھیل گئے تھے اور چار سال بعد جب میں واشنگٹن ( ڈی سی ) پہنچا تو چودھویں سٹریٹ کو سلگتے ہوئے پایا ۔یہ رہائشی کاروباری کوریڈور اب تک ادھ موا پڑا ہے ۔گرے کا مبینہ قتل‘ بالٹی مور میں ہوا مگر وہ پولیس کے مظالم کا ایک حصہ ہے جس کی صدائے بازگشت نیو یارک سمیت سارے ملک میں سنائی دے رہی ہے اور جس میں سفید فام بھی‘ جواپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور سمجھے جاتے ہیں‘ شامل ہو گئے ہیں۔جیسا کہ امریکہ آنے والے پاکستانی جانتے ہیں‘ بالٹی مور‘ ڈی سی سے صرف چالیس میل دور ہے اور اس کے بڑے ہوائی اڈے کے نام میں واشنگٹن کا نا م شامل ہے ۔یہ شہر واشنگٹن سے بھی پرانا ہے اور اس کی بندرگاہ میں اکثر پاکستانی جہاز لنگر انداز نظر آتے ہیں ۔ایک عرصے تک ہم ایک لالہ جی سے گروسری خریدتے رہے جو آدھا دن بالٹی مور میں اور باقی آدھا‘ واشنگٹن کے علاقے میں ''ہٹی‘‘ کرتے تھے۔
اگر ہم فریڈی گرے کی ہلاکت سے دو سال پیچھے جائیں تو گورے اور کالے کے نزاع کے ایک درجن سے زیادہ واقعات ملیں گے جن میں سفید فام پولیس‘ رنگدار نسل کے لوگوں سے بھڑ گئی تھی۔ بیشتر لوگ مارے گئے اور کچھ سڑک پر تڑپتے رہے۔ جولائی 2014ء میں یہ واقعہ نیو یارک شہرمیں رونما ہوا۔ایرک گارنر کو غیر قانونی طور پر سگرٹ بیچنے پر گرفتار کیا گیا تھا مگر ایک پرائیویٹ ویڈیو ٹیپ نے پولیس کو ایک نہتے شہری سے ہا تھا پائی کرتے دکھا یا اور اس کی موت پولیس کے ایک داؤ سے ہوئی۔ گرے سے پہلے نیو یارک‘ گارنر کی ہلاکت پر احتجاج میں مبتلا تھا۔ اگرچہ گارنر کی موت کو ایک قتل قرار دیا گیا تھا مگر ایک گرینڈ جیوری نے گورے پولیس افسر کو‘ جو اس قتل میں ملوث تھا‘ عدالت کے کٹہرے میں نہ لانے کا فیصلہ کیا جس پر احتجاج فساد میں بدل گیا ۔یہی صورت حال فرگوسن‘ مزوری میں تھی جہاں ایک گورے پولیس افسر ڈیرن ولسن کی گولی سے ایک کالا لڑکا مائیکل براؤن مارا گیا اور دس دن اس پر فساد ہو تا رہا ۔
پچیس سال کا ایک شخص ایزل فورڈ‘ جو ذہنی مریض تھا‘ اگست میں دو پولیس والوں کی گولی کا نشانہ بنا جب کہ وہ نہتا تھا۔ یہ واقعہ لاس اینجلس یا مغربی ساحل سے تعلق رکھتا ہے اور اگلے مہینے کلیولینڈ اوہایو کا ایک بارہ سال کا بچہ پولیس کی گولی سے ہلاک ہوا۔ جس آدمی نے پولیس کو لڑکے کے قابل اعتراض رویے کی اطلاع دی اس نے کہا تھا کہ لڑکے کے ہاتھ میں ''غالباً ایک نقلی پستول‘‘ ہے ۔اس سال سات اپریل کو پولیس افسر مایئکل سلیگر نے ایک پچاس سالہ شخص والٹر سکاٹ کو مار ڈالا اور کئی دن ریاست ساؤتھ کیرولائنا کے ساحلی شہر چارلسٹن میں دنگا فساد ہوتا رہا۔ سکاٹ نہتا تھا اور ویڈیو میں پولیس سے بھا گتا ہوا محسوس ہو تا تھا ۔سلیگر کو قتل کے مقدمے کا سا منا ہے ۔بزرگ پٹیل کو‘ جنہیں اب تک احمد آباد میں ہو نا چاہیے تھا‘ ہسپتال میں پڑے ہیں۔ان کے کنبے کا بیان ہے کہ الا بامہ پولیس نے مسٹر پٹیل کو زد و کوب کے بعد سڑک پر چھوڑ دیا اور وہ اسے نیم مفلوج حالت میں اسپتال لے گئے ۔ایف بی آئی ( وفاقی پولیس) تفتیش کر رہی ہے اور اس نے ایک پولیس افسر کو حراست میں لے لیا ہے ۔ایک ویڈیو میں‘ جو مقامی پولیس نے جاری کیا‘ پولیس افسر مسٹر پٹیل کولاتیں اور گھونسے مارتے ہیں اور وہ امداد کی دہائی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ گھر کی طرف پیدل چل رہے تھے جب پولیس نے ان سے پوچھ گچھ کی کوشش کی تھی۔وہ انگریزی نہیں جانتے تھے۔ افسر لیری منسن نے صحت جرم سے انکار کیا ہے ۔اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی عنقریب شروع ہو گی۔ بیشتر واقعات سے ظاہر ہوا کہ وڈیو ٹیپ خواہ وہ پولیس نے جاری کی ہو‘ پولیس گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہوئی ہے اور بعض بستیاں پولیس افسروں کی وردی میں کیمرے بھی نصب کر رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں