علی امین کا معاملہ

جس روز مفتی منیب الرحمن صاحب نے انگلستان کے پاکستانیوں کو اپنے بچوں کو داعش کے اثرات سے بچانے کی تلقین کی اور نام نہاد خلافت کے جنگجوئوں پر ترک طیاروں کی اوّلین بمباری کی خبریں واشنگٹن پہنچیں‘ میرے ایک جواں سال ہمسائے کو آئی ایس آئی ایس کی امداد کرنے کی بنا پر گیارہ سال چار ماہ قید کی سزا ہوئی۔ میں علی امین کے کنبے سے واقف نہیں ہوں۔ وہ دو سال کا تھا جب اپنی ماں کے ساتھ سوڈان سے امریکہ آیا تھا۔ یہ تارکین وطن کا ملک ہے مگر یہاں معاشرتی میل جول مذہب نہیں زبان کی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ علی کی والدہ نے دوسری شادی کی اور وہ صحت کے مسائل سے دوچار رہا۔ سترہ سالہ ملزم کو لمبی قید کی سزا کا سن کر اس کا وکیل بولا: ''میں نے آج تک ایسی کم عمری اور بے گناہ ریکارڈ کے ساتھ کسی کو طویل عرصے کے لئے جیل جاتے نہیں دیکھا۔ اس کا قد پانچ فٹ دس انچ اور وزن 105 پونڈ ہے‘ نہ جانے وہ بالغ قیدیوں کے ساتھ کیونکر نبھاہ کرے گا؟‘‘ مگر ملزم نے ایک وفاقی جج کے فیصلے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا‘ بجز اس کے ''میں نے اپنے فیصلے کئے اور میں ان کے نتائج بھگتنے کو پوری طرح تیار ہوں‘‘۔ تاہم جذبات سے خالی بھاری بھرکم آواز میں اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے کسی سے ہمدردی کے لئے نہیں کہا اور نہ اس کی توقع کی؛ البتہ میں تفتیش کاروں سے وسیع تعاون کرتا رہا ہوں۔ سرکاری وکیل بولا: سزا سے مجرموں کو یہ سنجیدہ پیغام ملا ہو گا کہ اس قسم کے جرائم کمیونٹی کے لئے نقصان دہ ہیں اور ان سے سختی سے نپٹا جائے گا۔ استغاثہ نے پندرہ سال قید بامشقت تجویز کی تھی۔ جج نے کہا کہ استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ملزم نے اپنے اٹھارہ سالہ دوست رضا نک نڑاد کے علاوہ کسی کو شام بھجوایا تھا۔
فریقین کے بقول یہ کیس اس بات کا سنسنی خیز ثبوت ہے کہ داعش‘ انٹرنیٹ کے ذریعے امریکی نوجوانوں تک رسائی کی اہلیت رکھتی ہے۔ امریکی حکومت اب تک کوئی ساٹھ افراد پر ''اسلامی ریا ست‘‘ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر چکی ہے۔ امین کا معاملہ اس سلسلے کی ایک پریشان کن مثال ہے‘ اور کئی لحاظ سے المناک بھی۔ حکام نے کہا کہ انہیں اسلامی ریاست کے حواریوں کے ساتھ علی کی خط و کتابت کی اطلاع فروری 2014ء میں ملی تھی۔ اس کی ماں نے لکھا کہ کنبے نے ایک مذہبی رہنما کی ہدایت پر قانون نافذ کرنے والوں سے رابطہ کیا۔ گو پولیس علی کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی تھی‘ لیکن اس نے اسلامی ریاست کے بیرون ملک حامیوں کے ذریعے رضا سے تعلقات استوار کئے اور اسے شام تک سفر کرنے میں امداد فراہم کی۔ سرکاری وکیل نے جج سے استدعا کی کہ ملزم کو سزا دیتے وقت اس کے ساتھی کے انجام کو بھی ملحوظ رکھا جائے جو ممکن ہے کہ داعش میں اپنے ساتھیوں سمیت لڑتے ہوئے مارا جائے۔ اس نے کہا کہ علی امین گو چھوٹا ہے مگر وہ بلا کا ذہین ہے اور ٹوئٹر پر اس کے پیروکاروں کی تعداد چار ہزار ہے۔ ''وہ انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں تھا‘ انتہا پسند ہو چکا تھا‘‘۔
سرکاری ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی امین کو Crohn کی بیماری تھی اور بعض اوقات وہ جماعت میں دوسرے طلبا کی موجودگی میں قے کر دیتا تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت قریب تھا اور تیرہ سال کی عمر تک اس کے ساتھ سوتا تھا‘ مگر جب اس کی والدہ نے دوبارہ شادی کی تو وہ اپنے رشتے داروں سے کٹ گیا۔ اسے ایک شناخت کی تلاش تھی جو داعش نے مہیا کی‘ جو انٹرنیٹ پر مشرقِ وسطیٰ پر مغربی مظالم کا رونا روتی ہے۔ امین نے داعش سے آن لائن اپنے دین کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ جب اس کے والدین نے اس کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھا جو داعش کے پرانے حامی جان پڑتے تھے۔
رضا نک نڑاد بھی امریکی تھا اور اس کی جڑیں بھی سوڈان میں تھیں۔ دونوں کنبے سوڈانی خانہ جنگی کے دوران فرار ہو ئے تھے اور رضا اور امین نے شمالی ورجینیا میں پرورش پائی تھی۔ رضا کے خلاف بھی‘ جو اب شام کے اندر باور کیا جاتا ہے‘ بیرون ملک لوگوں کو قتل یا زخمی کرنے کا مقدمہ ہے اور دہشت گردوں اور اسلامی ریاست کی امداد کی سازش کی فرد جرم ہے۔ رضا کے خاندان کے افراد نے اس کے خلاف الزامات پر تبصرے کی درخواستوں کو رد کر دیا یا انہیں در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ امین نے رضا کے رشتے داروں کے بارے میں بطور خاص کہا: ''میں ان سے معافی کی کبھی امید نہیں کر سکتا‘‘۔
برصغیر میں خلافت کے بارے میں اب تک ذہنی خلفشار پایا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ قریب ہوا تو ترکوں کے سپہ سالار کمال اتاترک نے‘ جو خلافت عثمانیہ کے پاسدار تھے‘ اس سلطنت کو ختم کرکے جدید ترکیہ کی بنیاد رکھی۔ اس پر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا: 
اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
ان کے برعکس پنجاب کی عورتیں اپنے گیتوں میں ''غازی مصطفیٰ پاشا کمال‘‘ کے گن گاتی تھیں اور ان کی ''بلائیں‘‘ دور کرنے کی دعائیں مانگتی تھیں۔ خلیفہ عبدالحمید نے اپنا تخت و اقتدار خطرے میں پا کر ایک افغان دانشور جلال الدین کو ہندوستانی لیڈروں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے استنبول سے روانہ کیا تھا۔ گاندھی جی نے جلال الدین افغانی کمیشن کو انگریزوں کو دبانے اور ''اتحاد بین المسلمین‘‘ کا حربہ جان کر اس کا خیر مقدم کیا‘ مگر محمد علی جناح نے اسے ''بچگانہ‘‘ کہہ کر رد کر دیا۔ چند ماہ قبل ایک پاکستانی لیڈر نے ملک کی سر زمیں پر داعش کے وجود سے انکار کیا۔ اسے شاید ڈیورنڈ لائن کی فکر تھی‘ جو شام اور عراق کی سرحدوں کی طرح خلافت کی زد میں آ سکتی ہے۔ دنیائے اسلام کو معلوم ہونا چاہیے کہ داعش ہو یا طالبان‘ بوکو حرام ہو یا الشباب‘ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں‘ جو اس کی قومی سرحدوں کو مٹا کر ایک نظریہ کا تسلط چاہتی ہیں۔ طالبان نے افغانستان میں اپنے اقتدار کے زمانے میں ایک بودھ زیارت گاہ کو مسمار کیا اور داعش نے شام میں پہلی صدی عیسوی کے ایک ٹمپل کو گرا کر اس نظریے کا پرچار کیا۔ دونوں آثار قدیمہ کو موہن جودڑو کی مانند یونیسکو کا تحفظ حاصل تھا اور وہ ان ملکوں کی آمدنی کا ایک وسیلہ تھے۔
گزشتہ جون میں پرنس ولیم کاؤنٹی کے بارہویں پاس طالب علم علی نے تسلیم کیا کہ آئی ایس آئی ایس کے حامی ٹوئٹر اکاؤنٹ @ amreekiwitness کے پیچھے خفیہ آواز اسی کی تھی اور یہ کہ اس نے شام میں دہشت پسند گروہ میں شامل ہونے میں اپنے دوست کی امداد کی تھی۔ وکیل صفائی نے کہا: اگر وہ ایک جرم کا مرتکب قرار نہ دیا جاتا تو آج امریکہ کی ایک مؤقر درس گاہ میں انجینئرنگ کی تعلیم پا رہا ہوتا۔ گرفتاری سے ایک ہی ہفتہ پہلے اسے ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی میں داخلے کی اطلاع دی گئی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں