قیامت کے آثار

ایک عشرہ پہلے کی بات ہے۔ میں سنگاپور سے جکارتہ جا رہا تھا۔ صبح دس بجے کا وقت تھا۔ سارے مسافر ہوائی جہاز میں لد چکے تھے۔ ان میں سے بیشتر انڈین نسل کے لوگ تھے جو سو سال پہلے اس خطے میں آباد ہوئے تھے۔ وہ اپنی زبان بھول چکے تھے مگر بڑی عمر کے مسافروں کا لباس ان کی اصلیت کی جانب اشارہ کرتا تھا۔کئی ناشتے میں مصروف تھے۔ ان کی پسندیدہ چیزیں کھانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں طیارے کی کھڑکی سے باہر گھور رہا تھا‘ جہاں دھند کی ایک بھوری چادر تنی تھی جو سورج کی روشنی کو ڈھانپ رہی تھی۔ میں نے ایک ہم سفر سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے میرے سوال کو اہمیت نہیں دی۔ پھر استفسار کیا تو اس نے بتایا: یہ جنگل کی آگ کا دھواں ہے، جو کاشتکار ان دنوں لگاتے ہیں اور آئندہ سال فصل اچھی ہونے کی امید کرتے ہیں‘ گو انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔
اب انٹرنیٹ پر یہ خبر آئی ہے کہ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ''سنوا‘‘ بھی یہی سوال پوچھ رہی ہے۔ یہ پریوں کا دیس ہے یا قربِ قیامت؟ سنوا خود ہی جواب دیتی ہے: ''یقیناً یہ قیامت کی نشانیاں ہیں‘‘۔ سنوا نے یہ خبر شین یانگ سے دی ہے‘ جو شمال مشرقی چین کا ایک مشہور شہر ہے اور آبادی کے لحاظ سے بیجنگ اور شنگھائی کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ یہاں تھرمامیٹر سے لے کر ہوائی جہازوں تک بہت سی اشیا بنتی اور ساری دنیا میں فروخت ہوتی ہیں۔ چین نے دو سال قبل ملک میں آلودگی ناپنے کا نظام رائج کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ شرح‘ بدترین ہے۔ چینیوں نے دیکھا کہ زہریلے دھوئیں کا حجم ایک ہزار مائکروگرام فی کیوبک میٹر ہے۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ چوبیس گھنٹے میں آلودگی کی اوسط پچیس ہونی چاہیے۔ سنوا‘ یہ اوسط چودہ سو بتاتی ہے اور شہر میں امریکی قونصل خانہ اسے حد سے زیادہ قرار دیتا ہے۔ یہ دھوئیں سے آلودہ کہر ہے۔
اگرچہ ایشیا اور افریقہ میں آلودگی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی اور زیادہ دھیان ''ترقی‘‘ یا ''وکاس‘‘ پر رہتا ہے مگر چینی لیڈر اس مسئلے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں صدر ژی جن پنگ‘ وائٹ ہاؤس میں مہمان تھے‘ جب انہوں نے سنا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں آلودگی کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے‘ تو وہ واشنگٹن کا دورہ مختصر کرکے وطن روانہ ہو گئے۔ شاید پاکستان میں بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے تھر کے کوئلے سے چلنے والے منصوبے کا '' پْراسرار‘‘ التوا اسی تشویش کا نتیجہ ہو۔ امریکہ نے تو کینیڈا سے ایک پائپ لائن کا دیرینہ منصوبہ اسی بنا پر منسوخ کیا ہے۔ یہاں تبدیلی آب و ہوا کی لابی صنعتوں سے زیا دہ مضبوط ہو رہی ہے۔ آلودگی پھیلانے والے صفِ اول کے تین ملک امریکہ‘ چین اور بھارت ہیں۔
چین میں ہر سال سولہ لاکھ افراد آلودگی سے مر جاتے ہیں۔ تنامن چوک کے بعد چین میں سوشلزم کا ایک نیا تجربہ شروع ہوا اور لیڈروں نے ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں کو جوتے پہنا دیے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں پر ''ایک بچہ‘‘ کا ضابطہ بھی ختم کر دیا گیا‘ اور اب وہ دو بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ تین عشرے بعد‘ یہ فیصلہ افرادی قوت کی کمی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ درمیانہ طبقہ بھی ابھرا ہے اور ارب پتی بھی۔ چین کے عوام کو ابھی ذرائع ابلاغ تک پوری رسائی تو حاصل نہیں ہوئی مگر ان کو سوشل میڈیا مل گیا ہے اور وہ اسے اپنی رائے کے اظہار کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان اور آلودگی کی حدود مقرر کرنے میں اپنی حکومت کے بخل پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
ستمبر میں جب صدر ژی امریکہ کے دورے پر آئے تو صدر اوباما سے ان کی گفتگو کا بڑا موضوع صنعتی آلودگی ہی تھا۔ کچھ عرصہ بعد پیرس میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اسی موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی۔ امریکہ اور چین‘ گرین ہاؤس گیسز (آلودگی) زیادہ پھیلاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دبیز صنعتی کہر کا کوئی بین الاقوامی معاہدہ ان کی تائید و حمایت کے بغیر مؤثر نہ ہو گا۔ گزشتہ نومبر‘ بیجنگ میں مسٹر ژی اور مسٹر اوباما نے ایک تاریخی سمجھوتے کا اعلان کیا‘ جس میں پہلی بار 2030ء تک دھوئیں کے اخراج کی حدود مقرر کی گئی تھیں۔
چینی لیڈر کہتے ہیں کہ وہ آلودگی کی عالمی تشویش میں برابر کے شریک ہیں، اور بار بار یہ عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ ہوا کی آلودگی کے خلاف جنگ کریں گے۔ ایک سال پہلے جب چین نے دنیا کے لیڈروں کو آلودگی پر ایک کانفرنس(سمٹ) کے لیے بیجنگ مدعو کیا‘ تو مسٹر ژی نے انہیں بتایا تھا کہ وہ ہر روز آلودگی چیک کرتے ہیں ''ان دنوں صبح اٹھنے کے بعد جو پہلا کام کرتا ہوں‘ وہ بیجنگ کی آلودگی کی پڑتال ہے اور یہ امید کرتا ہوں کہ شہر میں دھند کم ہو گی اور یہ مہمان جو دور دراز کے ملکوں سے آئے ہیں زیادہ آرام محسوس کریں گے‘‘۔ چند سال پہلے پاکستان میں بھی مجھے ایسی ہی تلخ صورت حال کا سامنا ہوا۔ میری منزل لاہور تھی مگر میں نے اپنے آپ کو کراچی کے ہوائی اڈے پر پایا۔ پتہ چلا کہ لاہور میں دھند بہت زیادہ تھی اس لئے جہاز کا رخ اس طرف کرنا پڑا۔
پا کستان میں بھی حالات بدلے ہیں۔ عوام کی ضروریات پر کسی منتخب یا نیم منتخب ڈکٹیٹر کی کمیشن خوری کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ ''عشرۂ ترقی‘‘ کے ساتھ کچھ کانٹے بھی تھے جو رفتہ رفتہ الگ کر دیے گئے۔ اب نجی شعبے میں ٹیلی وژن ہے‘ جو عوام کے مسائل اور حکومتوں کی کوتاہ نظری کو اجاگر کرتا ہے۔ سیاستدان اب تک کالا باغ ڈیم کے فٹ بال سے کھیل رہے ہیں‘ اور سکڑ کر صوبائی حدود میں آ گئے ہیں۔ عوام کو، خواہ وہ کسی صوبے کے باشندے ہیں، گھر کے لیے سستی بجلی چاہیے‘ باورچی خانے کے لئے گیس کی ضرورت ہے‘ موٹر سائیکل کے لیے پٹرول درکار ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے گھر اور جاب چاہیے اس لیے ''ترقی‘‘ اس کا خواب نہیں ہے۔ حکومتوں کو بھی اپنے ترقیاتی منصوبے بناتے وقت ان ترجیحات کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ انہیں ماحولیات پر بھی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ کراچی کی آبادی بڑھ کر دو سے تین کروڑ ہو، شہر کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہو گا۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تحت پاکستان اور باقی دنیا کو چین سے ملا دیا جائے گا اور اس دوران گوادر غرق ہو جائے گا۔ ممبئی میں بال ٹھاکرے کی ذہنیت کے ظہور کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا شہر بھی ڈوب سکتا ہے۔ حکومتیں بھی‘ عوام کو ان فکر مندیوں سے آگاہ رکھنے کی پابند ہیں۔
لندن سے خبر آئی ہے کہ وہاں بینک سائیڈ پاور سٹیش 34 سال چپ رہنے کے بعد پھر سے چالو ہو گیا‘ مگر وہ بجلی گھر جو نصف صدی تک برٹش گیس سے چلتا رہا اور شہر میں آلودگی پھیلاتا رہا، اب ''ترقی‘‘ کا مظہر ہے‘ اور دھوپ (سولر پینل) سے چلتا ہے مگر حکومت جو صارفین کو مالی امداد (سب سڈی) دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی قابل تجدید توانائی سے منہ موڑ رہی ہے۔ اس کی ترجیحات میں روزگار اور رہائش ہیں۔ دھوپ اور ہوا‘ فاسل فیول (کوئلہ) کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگے ہیں اور برطانیہ اس کا عادی ہو چکا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے تھر کے کوئلے کا استعمال ہمیں بھی سوچنے کا موقع دے رہا ہے۔ انگلستان جیسا ترقی یافتہ علاقہ اگر دھوپ اور ہوا پر خاطر خواہ مالی امداد دینے کے قابل نہیں تو پاکستان جیسا ترقی پذیر خطہ اسے کیونکر برداشت کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہی دنوں جب پیرس میں گلوبل وارمنگ سمٹ ہو گی تو برطانیہ وہاں کیا منہ دکھائے گا؟ وہ تو اس معاملے میں دنیا کی راہنمائی کرتا رہا ہے۔ حکومتوں کے فیصلے‘ جن میں بے لوث انداز میں خوب پر خوب تر کو فوقیت دی جاتی ہے‘ ان کی دانش مندی اور دور اندیشی کا پتہ دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں