اماں‘ مچھر کاٹتے ہیں!

صبح سویرے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک عجیب و غریب جواں سال گداگر نظر آیا‘ جس کی جنس واضح نہیں تھی۔ اس کا سر‘ اس کے جسم کی نسبت بہت چھوٹا تھا‘ اور اس نے ایک چوغا پہن رکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے کچھ ایسی حرکات کیں‘ جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دیوانی یا دیوانہ ہے۔ یہ بچپن کا واقعہ ہے۔ ہوش سنبھالنے پر پتہ چلا کہ وہ ''دولے شاہ کا چوہا‘‘ تھا‘ جن کا مزار ہمارے گاؤں سے ستّر میل مغرب میں گجرات‘ پنجاب میں ہے۔ جن والدین کے ہاں فاترالعقل بچے پیدا ہوتے ہیں‘ انہیں درگاہ پر ''چڑھاوا چڑھا‘‘ دیا جاتا ہے اور وہاں بڑی عمر کے فقیر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں‘ اور بڑے ہونے پر ان سے بھیک منگواتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس روز ایسا کوئی درویش اس کی پشت پر تھا‘ اور اپنے ڈیرے پر بیٹھا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اس کے تار ہلا رہا تھا۔
جب سے زیکا وائرس پھیلا ہے‘ اور اس نے جنوبی امریکہ سے شمالی امریکہ کا رخ کیا ہے‘ شاہ دولے کی درگاہ‘ ملیریا اور ڈینگی ذہن میں آنے لگے ہیں۔ ایسے بخار مچھر کے کاٹے سے فروغ پاتے ہیں‘ اور ایک سے دوسرے فرد کو لگتے ہیں۔ جنوبی امریکہ یا وہاں کا سفر کرنے والی امریکی عورتیں جب چھوٹے سر والے بچے پیدا کرتی ہیں‘ تو ان کو شاہ دولے کی قبر دکھائی نہیں دیتی۔ وہ نوزائدہ کو سینے سے لگا لیتی ہیں۔ وائرس مچھر پھیلاتا ہے‘ جس سے اب تک سینکڑوں بچے جاں بحق ہو چکے ہیں‘ اور ہزاروں ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ پْرہجوم‘ مفلسی کے مارے ہوئے وسطی اور جنوبی امریکہ کے شہر‘ جہاں راہوں میں کوڑا کرکٹ پڑا ہے اور خالی ڈبے‘ خالی بوتلیں اور پرانے ٹائر بکثرت ہیں‘ جو بیماریوں کے لئے نہایت موزوں ثابت ہوتے ہیں۔ جن گھروں میں پلمنگ نہیں وہ بارش کا پانی ایسے کنستروں میں ذخیرہ کرتے ہیں‘ جو مچھروں کے انڈے دینے کی جگہیں بنتے ہیں۔ رہائشی مکان ایئرکنڈیشنر‘ مچھر دانیوں اور کھڑکیوں کی جالیوں سے محروم ہیں جو زیکا وائرس کو اس خطے میں محدود کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی چونکہ جوہڑ یا دوسری گندی جگہیں عام ہیں‘ جہاں مچھر انڈے دیتے ہیں‘ جو بہت تیزی سے پلتے بڑھتے ہیں‘ اس لئے وہاں ایک مہم بٹوارے سے پہلے شروع ہوئی تھی جو تقسیم کے بعد ایک محکمے کی شکل اختیار کر گئی اور اب ڈینگی کے خلاف ایک مہم جاری ہے جو کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہی۔
کوئی ایک صدی پہلے امریکی فوج کے فزیشن والٹر ریڈ نے‘ جن کے نام پر واشنگٹن میں سب سے بڑا فوجی ہسپتال قائم ہے‘ دوسروں کی امداد سے یہ ثابت کیا کہ زرد بخار مچھر کے پھیلانے سے پھیلتا ہے۔ اسی وقت سے انسان نے اس چھوٹے سے بُھنگے کے خلاف ایک عالمی جنگ شروع کر رکھی ہے‘ اور ریو ڈی جنرو سے کراچی تک ندی نالے صاف کئے جا رہے ہیں‘ جوہڑوں کی صفائی کی گئی ہے‘ گھر گھر مچھر کی پناہ گاہیں ڈھائی گئی ہیں‘ اور براعظموں میں ہزاروں ٹن کیڑے مار دوائیں چھڑکی گئی ہیں‘ مگر یہ مخلوق قابو میں نہیں آئی۔ مچھر میں دوبارہ جی اْٹھنے اور ماحول کے مطابق ڈھل جانے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ اگر یہ کوشش نہ ہوتی تو نہر پانامہ کی تکمیل ناممکن تھی۔ ہولناک وبائیں شاید اب بھی لاہور تک مار کر رہی ہوتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ کاہل ہو گئے‘ سیاسی عزم کم ہوا اور صفائی کے بجٹ محدود ہوئے۔ کیمیاوی ساز و سامان اپنی تاثیر کھو بیٹھا‘ جبکہ دشمن نے اپنے اندر مزاحمت کو نشوونما دی۔ اب زیکا کا دور دورہ ہے اور انسان اور حیوان میں ایک اور معرکہ رونما ہوا چاہتا ہے۔ مچھر سے پھیلنے والا وائرس امریکہ کے سمندروں‘ میدانوں اور پہاڑوں کو پھلانگتے ہوئے اب پاکستان تک جا پہنچا ہے‘ اور تقریباً ہر گھر سے بچے راتوں کو اُٹھ کر پکارتے ہیں: ''اماں مچھر سونے نہیں دیتے‘‘۔ گرمیوں میں عام لوگ کھلے آسمان تلے سوتے ہیں‘ اور چارپائی پر مچھر دانی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے‘ اس لئے وہاں زرد بخار‘ ڈینگی اور چیکو گنیا جیسے امراض تیزی سے پھیلتے ہیں۔
ملک ایک بار پھر وسیع پیمانے پر چھڑکاؤ‘ عوامی تعلیم کی تجدید اور شہریوں کی اجتماعی نگہداشت کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ کچھ نئے حربوں پر غور کر رہے ہیں مثلاً جینیاتی طور پر بدلا ہوا مچھر‘ جو انڈے تو دیتا ہے مگر ان سے پیدا ہونے والے بچے بلوغت کو پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ان آزمائش طلب ہتھیاروں کی جانچ پڑتال پر زور دے رہا ہے۔ پاکستان کے کچھ حصوں میں گرمی زوروں پر ہے جو انسان کو نہیں مچھر کو راس آتی ہے۔ میجر ریڈ نے امریکہ سے پینسٹھ میل جنوب میں واقع کیوبا کی گرمیوں میں اپنے تجربات شروع کئے تھے۔ اس نے زرد بخار پر اپنے تجربے کی ضرورت کے مدنظر ایک ایسی عمارت کا انتخاب کیا‘ جس کو ایک پارٹیشن کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک تاریک‘ غلیظ اور بدبودار تھا‘ اور دوسرا روشن اور صاف ستھرا۔ تجربے کے لئے رضا کار بھرتی کئے گئے‘ جنہیں ایک سو ڈالر یومیہ‘ جو اس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی‘ پیش کیا گیا۔ غلیظ حصے کے لوگ زرد بخار میں مبتلا ہو گئے‘ اور صاف حصے کے افراد بھلے چنگے رہے۔ اس پر ریڈ نے ایک کیوبن سائنسدان کے اس خیال سے اتفاق کیا کہ زرد بخار مچھر کے کاٹے سے پھیلتا ہے۔ اس سائنسی تحقیق کے نتیجے میں جو مہم شروع کی گئی‘ اس کی بدولت1853ء میں نیو آرلینز اور 1878ء میں مس سپی کے کچھ حصوں سے زرد بخار اور ملیریا کا خاتمہ ہوا۔ 1880ء کے عشرے میں فرانس نے پانامہ نہر کھودنے کی ناکام کوشش کی تو ہزاروں مزدور مارے گئے۔ ایسا ہی ایک تجربہ مسز لنکن کو ہوا‘ جب ابراہیم لنکن صدر چنے گئے اور وہ الی نائے سے واشنگٹن منتقل ہوئے‘ تو اسے ایک دلدلی شہر پایا۔ مسز لنکن نے اپنی ایک سہیلی کو لکھا کہ واشنگٹن مچھروں کی یلغار میں ہے‘ اور رات کو سونا دوبھر ہو رہا ہے۔ گویا اس وقت تک امریکہ بھی تیسری دنیا میں شامل تھا۔
اب مچھر ایک سیاسی مسئلہ تھا۔ 1912ء میں نیو جرسی کے ڈیموکریٹک گورنر وڈ رو ولسن‘ جو بعد میں ملک کے صدر بھی ہوئے‘ مخالفین کے اس طعنے پر کہ وہ ''مچھروں کے معاملے میں کمزور واقع ہوئے ہیں‘‘ مچھر پر کنٹرول کا پہلا ڈسٹرکٹ (علاقہ) قائم کیا‘ اور عوام کا خون چوسنے والے کیڑے کو قابو کرنا حکومت کی ذمہ داری ٹھہرا۔ بڑی کساد بازاری کے زمانے میں‘ جب سرکاری محکمے ڈیم بنا رہے تھے‘ نہریں کھود رہے تھے اور ذخائر بنا رہے تھے‘ انجنیئروں نے مچھر کے انڈے کو پانی سے الگ کرنا سیکھ لیا تھا‘ مگر 1940ء کے عشرے میں جب ڈی ڈی ٹی سے لدے ہوئے دھند خیز ٹرک اور فصلوں پر چھڑکاؤ کرنے والے ہوائی جہازوں کا استعمال عام ہوا تو وبائی امراض کے خاتمے کی دستی مہمیں ماند پڑ گئیں۔ پھر ریچل کارسن کی کتاب ''Silent Spring‘‘ شائع ہوئی‘ جس نے کیڑے مار دواؤں کا تصور ہی بدل ڈالا۔ اس کتاب نے یہ علم عام کیا کہ کیڑے مار دوائیں پرند و چرند کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ ڈی ڈی ٹی پر پابندی لگی اور دوسری کیڑے مار دواؤں کا استعمال محدود ہوا۔ اب ان آرگینک کھانے والے انسان آرگینک اور نان جی ایم او کی طرف لوٹ رہے ہیں‘ تو پیسٹی سائڈ کی اہمیت اور کم ہو گئی ہے۔ مچھروں کی افزائش نسل کے معاملے میں کسی نہ کسی طور ہم رجعت قہقہری کے سفر میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں