’’سمجھ میں نہیں آ رہا‘‘

بحر کریبیا کے مقبوضہ علاقہ کیمن آئی لینڈز‘ جہاں وزیر اعظم نواز شریف کی اولاد‘ مروت قبیلے کے سردار سینیٹر سلیم سیف اللہ کے خاندان اور اپوزیشن شخصیات سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ پاکستانیوں کے ''آف شور‘‘ اکاؤنٹ بتائے جاتے ہیں۔ یہ بارک حسین اوباما کی صدارتی مہم کا بھی موضوع بن چکا ہے۔ صدر نے 2008ء میں وسطی امریکہ کے ''ٹیکس ہیون‘‘ پر نکتہ چینی کی تھی اور انہوں نے جزیرے کیمن کی ایک عمارت کا تذکرہ کیا تھا‘ جہاں بارہ سو سے زیادہ امریکی کاروبار رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے کہا تھا: ''وہ یا تو دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے یا ریکارڈ پر دنیا کا سب سے بڑا ٹیکس فراڈ‘‘۔
مقبوضہ جات‘ چھوٹے ملک اور کئی امریکی ریاستیں اس کاروبار کی قانونی اور غیر قانونی شکلوں میں مبتلا ہیں۔ عام خیال کے برعکس‘ ٹیکس بچانے کی ''جنتوں‘‘ کیمن آئی لینڈز‘ برٹش ورجن آئی لینڈز یا باہاماز وغیرہ میں ٹیکس کے قوانین‘ ڈلاویر‘ نواڈا‘ مونٹانا‘ ساؤتھ ڈکوٹا‘ وائی اومنگ اور نیو یارک کی امریکی ریاستوں سے‘ جو شیل (نقلی) کمپنیاں پیش کرتی ہیں‘ زیادہ نرم نہیں۔ واشنگٹن سے نیو یارک جائیں تو ڈلاویر برج پار کرتے ہی ریاستی دارالحکومت ولمنگٹن آتا ہے‘ جس کی ایک یک منزلہ عمارت‘ کارپوریشن ٹرسٹ کمپنی کا گھر ہے‘ جس نے ڈھائی لاکھ امریکی کاروباروں کو ''ایڈریس‘‘ (پتے) فراہم کیا ہے اور یوں دنیا کو ریاست ڈیلاویر کے کاروبار دوست قوانین کا راستہ دکھایا ہے۔ اسی لئے صدر اوباما نے پاناما پیپرز کے لیک ہونے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ بعض (امریکی) ریاستوں کے قوانین میں نقائص ہیں‘ جو بزنس کو ان کی طرف راغب کرتے ہیں‘ مگر ان کی حکومت نے پاناما اور دوسرے ملکوں کے ساتھ جو تجارتی معاہدے کئے وہ بھی بحث و تمحیص کا سبب بن رہے ہیں۔ صدر کے نکتہ چینوں نے کہا: حکومت 2011ء میں پاناما کے ساتھ معاہدہ کرنے کی عجلت میں ان مالی انتظامات کو تلپٹ کرنے میں ناکام رہی‘ جن کا انکشاف لیک ہونے والی دستاویزات میں کیا گیا ہے۔ لیکس 2016ء کی انتخابی مہم میں بھی در آئی ہیں۔ آزاد سینیٹر برنی سینڈرز نے‘ جو ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے لئے لڑ رہے ہیں‘ پاناما پیپرز کے مندرجات پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ان کی مدمقابل ہلیری راڈم کلنٹن الیکشن میں کھڑے ہونے کی اہل نہیں کیونکہ وہ ملک کی تجارتی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔
بہت سی ریاستوں میں شیل کمپنیاں رجسٹر کرانے والے اپنی شناخت دینے یعنی کوئی ڈرائیونگ لائسنس یا پاسپورٹ پیش کرنے اور خدمات مہیا کرنے والے (لا فرمیں) ان کی شناخت کی جانچ پڑتال کرنے کی قانونی طور پر پابند نہیں۔ جو کمپنی کے مالک بنتے ہیں جیسا کہ حسین نواز نے اپنی بہن مریم کے لئے Beneficial owner کی اصطلاح استعمال کی‘ وہ اس کمپنی کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بھی سوال کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ مالک کو شاید اپنا نام‘ پتہ اور فون نمبر چھوڑنے کے لئے کہا جائے لیکن ایک زائد فیس کے عوض خدمات مہیا کرنے والا اس کی جگہ اپنا ''نمائندہ‘‘ دے سکتا ہے‘ جو عوام کے لئے کمپنی کا چہرہ بنتا ہے۔ وہ فرد یا افراد برائے نام کمپنی کو کنٹرول کرتے ہیں‘ مگر حقیقت میں مالک کوئی اور ہوتا ہے جس کی شناخت پوشیدہ رہتی ہے۔ یہ وہ امریکی ماڈل ہے جو ''آف شور‘‘ کمپنیاں اپناتی ہیں۔ پاناما نے امریکہ کے ساتھ مالی شفافیت کے ایک عہدنامے پر‘ جو ٹیکس انفرمیشن ایکس چینج ایگریمنٹ کہلاتا ہے‘ دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم نے ٹیکس کے گوشوارے داخل کرنے کے بارے میں سخت قوانین وضع کئے ہیں‘ اور تقریباً ایک سو ملکوں کو منظوری کے لئے بھیجے ہیں۔ اب تک چند ایک نے انکار کیا ہے۔ ان میں امریکہ اور بحرین بھی شامل ہیں۔ امریکہ کا جواب ہے کہ یہ پروگرام چونکہ یورپ جیسا ہے‘ اس لئے اسے دستخط کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بجائے وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ دو طرفہ معاہدے چاہے گا۔ اس دوران امریکہ یورپ کو وہ ڈیٹا مہیا نہیں کر رہا‘ جو اس سے مانگا گیا ہے۔ اس طرح وہ ماحول پیدا نہیں ہو رہا‘ جس کی ترغیب مالی اداروں کو امریکہ لے آئے۔ ناکام ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی کے آف شور اکاؤنٹ گزشتہ انتخابی مہم کا ایک موضوع بنے تھے مگر وہ قانونی پائے گئے۔ اس ملک کو اپنے مفادات کی فکر ہے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ بنا ہوا ہے۔
پاناما سٹی کی صرف ایک لا فرم سے چوری ہونے والے بھاری ڈیٹا سے214,488 خفیہ کھاتوں کے وجود کا انکشاف ہوا ہے‘ جو 1977ء سے 2015ء تک کے عرصے پر محیط ہیں۔ دنیا میں ایسی فرمیں لاکھوں ہیں۔ صحا فیوں کی بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں امریکہ کے پتے بہت کم ہیں۔ وہ اب تک 211 امریکی پاسپورٹ دیکھ چکے ہیں‘ اور انہوں نے صرف 3,500 حصے داروں کا سراغ لگایا ہے۔ ان میں ہالی وڈ کے ایک شہنشاہ‘ ہایاٹ ہوٹل سلسلے کی ایک وارث اور کمپبل سوپ کے کاروبار کی بنیاد رکھنے والے خاندان کے ایک رشتے دار کا ذکر آتا ہے‘ جو اس امر پر اصرار کرتے ہیں کہ کھاتے قانون کے مطابق کھولے گئے تھے۔ امریکی سیاستدانوں کو معلوم ہے کہ اگر ان کی کسی مالی بے قاعدگی کا انکشاف ہوا تو اسے ان کی سیاست کا خاتمہ سمجھا جائے گا۔ وہ سوئٹزرلینڈ کو ترجیح دیں گے‘ جس کے ساتھ سرکاری گفتگو ابھی کسی نتیجہ تک نہیں پہنچی۔
اس انکشاف کی کئی وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ لا فرم کے مالکوں کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں کبھی نہیں رہے۔ ان کا زیادہ وقت جرمنی اور باقی یورپ میں گزرا ہے۔ انہوں نے کاروباری توجہ یورپ اور لاطینی امریکہ پر دی ہے اس لئے ان کے اکثر گاہک ان براعظموں سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور انہوں نے جان بوجھ کر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے عام معا فی کا اعلان اور معاوضے کے قوانین میں اصلاح اس کا سبب ہیں۔ 2014ء میں میونخ کے ایک اخبار سے رابطہ کرنے والے ''ذریعے‘‘ نے بھی معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا‘ بس اتنا کہا تھا کہ وہ دنیا کے کرپٹ لوگوں کو بے نقاب کرنا چاہتا ہے۔ چند روز بعد اس نے جو دستاویز مہیا کیں‘ ان کی مجموعی تعداد گیارہ کروڑ پندرہ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ایک امریکی ماہر کا بیان ہے کہ سات ٹریلین ڈالر سے زیادہ ٹیکس کی جنت میں پڑا ہے‘ جو دنیا کے اثاثوں کے آٹھ فیصد کے برابر ہے۔ 
تحقیقی تنظیم آئی سی آئی جے ایک امریکی صحافی چک لیوس نے 1997ء میں قائم کی تھی۔ اس کا صدر دفتر یہیں واشنگٹن میں ہے۔ مقصد ان مسائل پر توجہ دینا تھا جو قومی سرحدوں سے آگے تک جاتے ہیں۔ مثلاً بین الاقوامی جرائم‘ برسر اقتدار لوگوں کا محاسبہ اور کرپشن وغیرہ۔ اب اسے 65 ملکوں کے 190 تحقیقی رپورٹروں کا تعاون حاصل ہے‘ جن میں ایک پاکستانی اور ایک پاکستانی امریکن بھی شامل ہیں۔ پاناما پیپرز میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے دوستوں‘ چین کے صدر زی جن پنگ کے رشتے داروں‘ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد‘ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان ابن عبدالعزیز السعود اور دوسرے معروف لوگوں کے نام بھی ہیں‘ جنہوں نے مبینہ طور پر سمندر پار اپنا پیسہ چھپایا‘ اور منی لانڈرنگ روا رکھی۔ ان میں یوکرین کے صدر کا نام بھی تھا‘ جن کے وزیر اعظم مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان دونوں پر معیشت کی زبوں حالی‘ اصلاحات میں ناکامی اور قلعہ بند کرپشن کا الزام تھا۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم اس سے پہلے مستعفی ہو چکے ہیں‘ اور برطانوی وزیر اعظم نے باپ کے آف شور اکاؤنٹ سے فا ئدہ اٹھانے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے خلاف لندن میں احتجاجی مظاہرے ہو ئے ہیں۔ مالٹا اور کرغیزستان کے وزیر اعظم بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ آذربائیجان کے صدر زیر عتاب ہیں۔ پیرس میں اٹھائیس ملکوں کے ٹیکس ماہرین اس معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ اس لئے اسے پاکستان کا گھریلو مسئلہ قرار نہیں دینا چاہئے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ''چیک اپ‘‘ کے لئے لندن پہنچ کر کہا: ''سمجھ میں نہیں آ رہا کہ الزام کیا ہے مجھ پر؟‘‘ انہیں جوابی الزام تراشی کی بجائے یہ اہتمام کرنا چاہئے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات‘ سیاستدانوں کے علاوہ نوکر شاہی‘ فوج‘ ذرائع ابلاغ اور عدلیہ کے خلاف بھی ہو۔ سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں