’’ کفر کے امام؟‘‘

امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم زوروں پر ہے اور دونوں پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کی اہلیت پر حملے کر رہے ہیں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس اور کیلی فورنیا میں شوٹنگ کے بعد ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی تجویز پیش کرکے قدامت پسند غیر مسلموں کے بہت سے ووٹ سمیٹے تھے۔ اب ابوبکر بغدادی نے دو ڈیموکریٹوں کو نشانہ بنا کر اپنا وزن (؟) اس کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ شاید اسی نیت سے متاثر ہو کر صدر اوباما نے (بغداد کے بعد) عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کو واپس لینے کا عزم ظاہر کیا‘ اور عراق میں لڑنے والی امریکی فوج کی نفری 3870 سے بڑھا کر 4087 کر دی ہے۔ اس کے لئے سعودی سرمایہ درکار ہو گا اور اوباما نے ‘ اس اور دوسرے معاملات پر جو امریکہ اور سعودی عرب میں اختلاف کا سبب ہیں‘ بات کرنے کے لئے ریاض میں ہیں۔
داعش کے جریدے دابق نے اپنے پیروکاروں کو تلقین کی ہے کہ کانگرس میں کیتھ ایلی سن‘ ہلیری کلنٹن کی امدادی ہما محمود عابدین اور دوسرے مذہبی لیڈروں اور آئمہ مساجد کو قتل کر دیا جائے‘ جو مغرب میں کفر کی وکالت کرتے ہیں۔ ایلی سن گزشتہ سال مینی سوٹا سے ایوان نمائندگان کے رکن چنے گئے تھے۔ ریا ست انڈیانہ سے ان کے ہم مذہب آندرے کارسن‘ جو 2008ء سے اس ایوان کے ممبر چلے آ رہے ہیں‘ گردن زدنی نہیں سمجھے گئے‘ مگر عابدین کو اس لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے‘ جنہوں نے پچھلے برس لکھا تھا: ''آپ ایک پُرفخر امریکی‘ ایک پُرفخر مسلمان ہو سکتے ہیں اور اس عظیم ملک کی پُرفخر خدمت کر سکتے ہیں‘‘۔ اور مسز کلنٹن نے کہا تھا: اگر میرے ہاں (چیلسی کے علاوہ) ایک اور بیٹی ہوتی تو وہ ہما جیسی ہوتی۔ کانگرس کے دونوں ارکان‘ سیاہ فام ہیں یعنی ان کے آبائواجداد افریقہ سے غلام بنا کر لائے گئے تھے‘ اور ان 22 فیصد افراد میں شامل تھے جو مسلمان تھے۔
ہما عابدین 1976ء میں کالمزو مشی گن میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے متدین والدین کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمود عابدین 1928ء میں نئی دہلی میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کیا۔ کچھ وقت درسگاہ میں پڑھانے کے بعد امریکہ آ گئے اور درس و تدریس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کے اقلیتی امور دیکھتے رہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف پنسلوینیا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ہما کی والدہ صالحہ نے بھی‘ جن کا آبائی تعلق لاہور سے ہے‘ اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ باپ اس دنیا میں نہیں ہیں‘ مگر ماں اخوان المسلمین کی نسوانی شاخ کی بنیاد رکھنے کے علاوہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں عمرانیات پڑھاتی ہیں۔ ان کی وجہء شہرت عربی سے انگریزی میں وہ ترجمہ ہے‘ جو انہوں نے فاطمہ عمر نسیف کی کتاب 'حقوق اور فرائض‘ کا کیا اور جس میں اس خیال کی توثیق کی گئی کہ جہاد بالقتال ہر مسلمان عورت کی ذمہ داری ہے۔ اس ترجمے میں صالحہ نے ایسے خیالات کا اظہار کیا جو مغربی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ (بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا) ہما بھی جارج واشنگٹن یونیورسٹی واشنگٹن میں داخل ہونے سے پہلے سعودی عرب میں تھیں۔ بارہ سال سعودی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف مسلم مینارٹی افیئرز میں کام کیا۔ وائٹ ہاؤس کی شاگردی ( Internship) کے بعد وہ مسز کلنٹن کے ذاتی عملے میں شامل ہو گئیں‘ اور ان کے وزیر خارجہ بننے پر ان کے ساتھ پاکستان کے سفر بھی کئے۔ وہ نیو یارک سے سابق کانگرس مین انتھونی وائنر سے بیاہی ہوئی ہیں‘ اور ایک بچے کی ماں ہیں۔ گزشتہ سال جب ان کے شوہر نے بے راہ روی اختیار کی‘ تو وہ اپنی باس کی طرح ان سے چمٹی رہیں مگر وہ دوبارہ کانگرس کا رکن منتخب ہونے‘ یا سیاست میں مزید ترقی کرنے میں ان کی امداد سے قاصر رہیں۔
مغربی جمہوریت کی بنیاد اختلاف رائے پر ہے اور یہی اس کی مادی ترقی کا راز ہے۔ بغدادی خلافت کا حکم ہے کہ جو آپ سے اختلاف کرے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس نے پاکستان میں شیعہ اور سعودی عرب میں سنی کو نشانہ بنایا اور پھر ان دونوں کو کافر قرار دے کر یعنی اختلاف کرنے والوں کو گولیوں اور بموں سے بْھون دیا۔ داعش کے پروپیگنڈا جریدے دابق کے تازہ شمارے کے ایک مضمون کا عنوان ہے ''کفر کے اماموں کو مار ڈالو‘‘۔ عابدین اور ایلی سن تو کسی مسجد کے امام نہیں تھے۔ داعش نے یہ لفظ مبلغ کے لئے استعمال کیا ہے اور امریکہ اور یورپ میں رہنے والے بیشتر مبلغین کے نام شائع کئے ہیں۔ جارج بش کے آرمی چیف اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے افریقی امریکی وزیر خارجہ‘ کولن پاول سے جب پوچھا گیا کہ بارک حسین اوباما ملک کے صدر بن گئے ہیں اور وہ مسلمان ہیں تو انہوں نے کندھے جھٹک کر جواب دیا تھا: پھر کیا‘ ہمارا آئین تو اس کی ممانعت نہیں کرتا۔
پاکستان کے آئین میں قرارداد مقاصد کے علاوہ صاف طور سے لکھا ہوا ہے کہ مملکت کا سربراہ (صدر) ہونے کی بنیادی شرط اس کا مسلمان ہونا ہے۔ پھر داعش یا اس کی ذریات کے جانب سے مملکت خداداد کے شہریوں کا قتل عام کیوں؟ آبادی کے ایک حصے کو دوسرے سے اختلافات ہو سکتے ہیں‘ مثلاً داعش نے عراق اور شام کو تقسیم کرنے والا خط منسوخ کر دیا ہے۔ اس طرح افغانستان اور خیبر پختونخوا کے کئی لوگ سامراجی طاقتوں کی کھینچی ہوئی لکیر ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ تاریخ بھی کوئی چیز ہے۔ خونیں فہرست میں صدر اوباما کا نام بھی نہیں ہے‘ جو آئے دن داعش کو نیست و نابود کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔
ہما عابدین نے یہ الفاظ‘ ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کے سیاہ فام امیدوار نامور سرجن بن کارسن کے ایک بیان کے ردعمل میں ٹویٹ کئے تھے۔ ڈاکٹر نے یہ تاثر دیا تھا کہ وہ کسی مسلمان کے صدر ہونے کی بات نہیں کریں گے۔ وہ اب انتخابی مہم سے دست بردار ہو چکے ہیں اور کیتھ ایلی سن نے کہا تھا کہ وہ اسلام کے معاشرتی انصاف سے متاثر ہو کر اس مذہب کی جانب لوٹے تھے۔ داعش کی دھمکی کے جواب میں انہوں نے ایک طویل بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ لاکھوں مسلمان‘ داعش کی مسلط کردہ تباہی سے بھاگ رہے ہیں۔ وہ مغرب میں مسلم عوامی نمائندوں کو دھمکا رہی ہے۔ داعش‘ جھوٹوں‘ قاتلوں‘ ایذا دہندگان اور عصمت لوٹنے والوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ''یہ حقیقت کہ میں داعش کی ہٹ لسٹ پر ہوں ظاہر کرتی ہے کہ میں انصاف‘ تحمل اور زیادہ قریبی دنیا کے لئے لڑ رہا ہوں‘‘۔
داعش کے مضمون میں کہا گیا ہے: ''مغرب میں رہنے والے مسلمان یہ دعویٰ کیونکر کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جان‘ جاں آفرین کے سپرد کر دی ہے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنے رہیں‘ جب کفر کے امام‘ اپنے منبر سے اپنا زہر پھیلاتے رہیں۔ مغرب میں کفر کے اماموں کو مار ڈالو‘‘۔ وفاقی پولیس (ایف بی آئی) نے ایک رسمی بیان میں کہا: ہم امریکی شہریوں کو لاحق ہونے والے تمام خطرات کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور ان کے حل کے لئے اپنے ریاستی اور مقامی ساجھے داروں سے مل کر کام کرتے رہیں گے۔ عابدین اور ایلی سن مایوس نہ ہوں۔ دنیا کے اربوں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ اس کی ایک مثال نیو یارک کے پاکستانیوں نے قائم کی ہے جو پہلی بار امریکی سیاست میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور انہوں نے نیو یارک کے ابتدائی انتخابات سے قبل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلیری راڈم کلنٹن کے ا عزاز میں ایک فنڈ ریزنگ ڈنر کا اہتمام کیا۔ ہمسایہ ریاست میری لینڈ میں بھی ایسی ایک تقریب ہو رہی ہے جس میں ریپبلکن امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ کی توقیر کی جائے گی۔ تقریب کا اہتمام ''امیریکن مسلم فار ٹرمپ‘‘ نے کیا ہے۔ اس تنظیم کے بانی ایک پاکستانی ساجد تارڑ ہیں جن کا بیان ہے کہ ''مسٹر ٹرمپ نسل پرست نہیں ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں