سنار کی کٹھالی

ر پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کرکے اسلام کو صدارتی انتخاب کا موضوع بنا دیا ہے‘ اور آرلینڈو‘ فلوریڈا میں رات گئے ہم جنسوں کی ایک کلب میں گولی چلنے کے سانحے کے بعد مساجد کی نگرانی کا کہہ کر انہوں نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ہے۔ نہ صرف سرکردہ ڈیموکریٹ‘ جن میں صدر اوباما اور امیدوار ہلری راڈم کلنٹن بھی شامل ہیں‘ پابندی اور نگرانی کو امریکی اقدار کے منافی کہہ رہے ہیں بلکہ ایوان نمائندگان کے رپبلکن سپیکر پال رائن اور دوسرے راہنما بھی ایسے اقدامات کی مذمت کر رہے ہیں۔
پاکستان کی طرح‘ امریکی اکثریت نے اس خیال کو رد کر دیا ہے کہ مساجد اور مدرسے دہشت گردی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ میں اسلامک سنٹر اور ان سے وابستہ سنڈے سکول‘ نوآبادیاتی دور سے چلے آرہے ہیں‘ اور اب ان کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ امریکہ میں اوّلین مساجد سیاہ فام غلاموں نے قائم کیں۔ جوب بن سالومن‘ جو مویشیوں کے ایک ریوڑ کا رکھوالا اور دین کا عالم تھا‘ 1730ء کے لگ بھگ صلوٰۃ کے لئے ایک قریبی جنگل کا رخ کیا کرتا تھا‘ اور ایک سفید فام لڑکا اس کے رکوع و سجود کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ اسلامک سنٹر یا مسجد وہ جگہ ہے جہاں مسلمان‘ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ ایمان والوں نے مصر‘ انڈونیشیا‘ پاکستان اور مسلم اکثریت کے دوسرے ملکوں میں بڑی بڑی سجدہ گاہیں تعمیر کی ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں وسطی مغرب میں ایسی مساجد بکثرت تھیں جو مسجد کے طرز تعمیر کے مطابق بنیں۔ کچھ عرصے کے بعد ہوائی اور الاسکا جیسی دور افتادہ امریکی ریاستوں میں بھی مساجد کا ظہور ہوا‘ اور یوں وہ خلا پُر ہو گیا جو کرہ ارض پر اذان کے الفاظ مسلسل گونجنے میں محسوس کیا جا رہا تھا۔
ہنری فورڈ نے ڈیٹرائٹ‘ مشی گن میں موٹر سازی کا پہلا کارخانہ لگایا اور ہزاروں عرب امریکیوں کو ملازم رکھا‘ تو آس پاس کئی مسجدیں معرض وجود میں آئیں۔ ان میں علیجا محمد کی مسجد بھی تھی‘ جو ایک کاریگر نے بنوائی تھی۔ وہ ایک سیاہ فام تھے اور انہوں نے کالوں کی کشش کے لئے ''نیشن آف اسلام‘‘ کے نام سے ایک دیسی تنظیم قائم کی تھی‘ جو آج بھی لوئی فراخان کی قیا دت میں چل رہی ہے۔ ملک شہباز (مالکم ایکس) محمد علی کلے اور بانی کے فرزند وارث دین محمد اس تنظیم سے وابستہ رہے۔
امریکہ کی آبادی کا تقریباً 0.6 فیصد‘ یعنی 2.595 ملین‘ خود کو مسلمان کہتا ہے۔ انیس میں سے پندرہ ہائی جیکر سعودی عرب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ امریکی زبان اور کلچر سے زیادہ واقف نہیں تھے مگر 9/11 کا مطلب خوب سمجھتے تھے۔ یہ وہ فون نمبر ہے جو سکول جانے والے ہر بچے کو شروع سے یاد کرایا جاتا ہے‘ اور وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اس نمبر پر فون کرنا ہے۔
تھنک ٹینک پیو اور گیلپ کے مطابق کوئی چالیس فیصد مسلم امریکی کہتے ہیں کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک بار مسجد جاتے ہیں۔ یہ تقریباً وہی تعداد ہے جس میں کرسچیئن چرچ جاتے ہیں۔ مسلمان جمعہ کے دن ایسا کرتے ہیں اور مسیحی اتوار کو‘ تمام مسلمانوں کے ایک تہائی کا کہنا ہے کہ وہ کبھی مسجد نہیں جاتے‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی شمالی امریکہ یا یورپ میں حملہ ہوتا ہے تو امریکی مساجد میں نمازیوں کی حاضری بڑھ جاتی ہے۔ امی گریشن کے محکمے کا بیان ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں مسلم اکثریت کے ملکوں سے تین لاکھ سے زیادہ تارکین وطن اس ملک میں داخل ہوئے۔ پا کستان میں رمضان‘ عید اور جمعہ کے اجتماعات میں عورتیں نظر نہیں آتیں‘ مگر امریکہ میں دینی اجتماعات میں خواتین بکثرت دکھائی دیتی ہیں اور منتظمین ان کے لئے الگ جگہ مختص کرتے ہیں۔ امریکہ اکثر اپنے معاشرے کو (سنار کی) کٹھالی کہتا ہے اور اسے اپنا مقصود ٹھہراتا ہے‘ مگر سنار کی کٹھالی (melting pot) اگر کوئی ہے تو وہ صرف مسجد ہے‘ جہاں مسلمان اپنے نسلی‘ لسانی اور طبقاتی امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر گھل مل جاتے ہیں۔ 'نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز‘۔
ایک غلط فہمی یہ ہے کہ مساجد اس ملک میں شرعی قوانین نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ عربی میں شریعت خدا کی راہ پر چلنا ہے‘ اور نظریاتی طور پر یہ انسان کے ہر فعل پر حاوی ہے۔ امریکہ میں بیشتر مساجد اسلامی قانون کی تعلیم نہیں دیتیں۔ خطبات جمعہ میں رمضان کی برکتیں‘ تزکیہ نفس یا تقویٰ جیسے غیر متنازع موضوعات پر لیکچر ہوتے ہیں‘ اور جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے‘ دینی راہنما اس کی مذمت میں پہل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی قانون میں قرآن پاک اور حدیث شریف شامل ہیں۔ وہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہیں مگر جدید زندگی پر ان کے اطلاق میں خلا بھی آتے ہیں‘ جنہیں فرمانِ الٰہی کے مطابق مفتی پْر کرتے ہیں۔ آج دنیائے اسلام میں لاکھوں فتوے گردش کر رہے ہیں مگر ان پر عمل کرنے والے خال خال ہیں‘ اور اس میں مفتی اور عوام الناس‘ دونوں قصوروار ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں ایک مفتی نے فتویٰ دیا کہ اگر کوئی عورت‘ کارگاہ کی انچارج ہو تو وہ اپنا دودھ‘ ماتحت مزدوروں کو پلا ئے‘ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان میں کوئی جنسی رشتہ نہیں ہے۔ اگر مساجد نے اپنے حاضرین پر شریعت مسلط کرنے کی کوشش کی تو ان میں زیادہ تر گھر بیٹھیں گے‘ اسی طرح جیسے کرسچین لوگ‘ چرچ سے دور رہیں گے‘ اگر پادری نے صرف سینٹ آگسٹائن‘ کینن لا اور گریک گرامر پر وعظ کرنے پر اکتفا کیا۔ مساجد وحی الٰہی اور اسوہ رسولﷺ کے مطالعے اور اساطیر کے معمولات زندگی پر لاگو ہونے تک محدود رکھتی ہیں۔
گو تقریباً ہر نمازی کو ٹرانسپورٹ کی سہو لت میسر ہے مگر ان میں سے بیشتر اس مسجد کا رخ کرتے ہیں جو ان کے گھر یا جائے کار سے نزدیک ہو‘ اور نماز کا دورانیہ کم ہو۔ اس لحاظ سے بیشتر مساجد نسلی اور مسلکی امتیازات کی حامل نہیں۔ ہر جگہ خطبہ انگریزی زبان میں ہوتا ہے۔ اس سے بھی مساجد کے اس کردار کو تقویت ملتی ہے۔ ایک حالیہ گیلپ پول سے ظاہر ہوا کہ تمام امریکی مسلمانوں میں 34 فیصد افریقی امریکی (سیاہ فام) ہیں‘ اس طرح وہ سب سے بڑا نسلی گروپ بنتے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ دوسرے نمبر پر کون ہے؟ جنوبی ایشیا یعنی پاکستان‘ ہندوستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوئے لوگ یا عرب‘ یہاں یورپی اور دوسرے گورے مسلمان بھی ہیں۔ ہسپینک‘ الجزائر‘ سوڈان‘ خلیجی ممالک‘ وسطی ایشیا اور چین سے تعلق رکھنے والے تارکین بھی ہیں۔ اس لئے مساجد اقوام متحدہ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ گویا امریکی مسلمان سب سے زیادہ نسلی تنوع رکھنے والا مذہبی گروپ بنتے ہیں۔ گو نسلی اعتبار سے گھل مل جانے والی سجدہ گاہیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں مگر بعض مساجد یک نسلی ہیں اسی طرح جیسا کہ کچھ ریستوران‘ علاقائی پکوان پیش کرتے ہیں۔ مثلاً مشرق وسطیٰ‘ پا کستانی‘ چینی وغیرہ۔
بیشتر مساجد گھریلو دہشت کاری کی تربیت نہیں دیتیں۔ متعصب لوگ ندال حسن‘ انور العولاقی‘ رضوان فاروق اور عمر متین وغیرہ کی مثال دیتے ہیں مگر وہ مسجدوں اور مدرسوں کے پڑھے ہوئے نہیں‘ امریکی نظام تعلیم کا حصہ تھے۔ اگر مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ میں اضافہ ہوتا رہا تو اندیشہ ہے کہ جواں سال لوگ‘ امن اور سلامتی کی اس راہ سے بھٹک جائیں گے جو ان کے آبا نے انہیں مسجد میں سکھائی‘ اور جو اسلام کی اصل راہ ہے۔ ان مساجد کے ذریعے امریکی مسلمان اس اجتماعیت کو سینے سے لگا رہے ہیں جو امریکی تجربے کا ایک نشان ہے۔ گھل مل کر رہنے بسنے کی نقیب کے طور پر مساجد کا استقبال ہونا چاہئے نہ کہ انہیں دہشت گردی کی آماجگاہیں سمجھ کر ان سے ڈرا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں