ابو زبیدہ کی رہائی کا امکان

یہ پرویز مشرف کا دور اقتدار تھا جب فیصل آباد میں زین العابدین محمد حسین عرف ابو زبیدہ پکڑا گیا‘ اور سی آئی اے کے حوالے کیا گیا۔ جنرل مشرف اپنی کتاب In the Line of Fire میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی کو شک ہے کہ پاکستان نے دہشت پسندوں کو پکڑنے میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا تو اسے امریکہ کی فہرست حوالگی پر نظر ڈالنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ واشنگٹن نے اسلام آباد کو کتنے ڈالر اس مد میں ادا کیے۔
فلسطینی والدین کی اولاد یہ سعودی شہری (اب عمر 45 سال) امریکہ سے رہائی کی اپیل کر رہا تھا‘ اور گوانتانامو بے (کیوبا) کی امریکی جیل سے یہ اپیل سی سی کیمرے کے ذریعے پنٹاگان (واشنگٹن) میں جمع ہونے والے اخبار نویس براہ راست سن رہے تھے اور پہلی بار ابو زبیدہ کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بظاہر گوانتانامو کے قیدیوں کے برعکس صاف ستھرا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھ خوبصورتی سے تراشی گئی تھیں۔ اس کی قمیض بے داغ تھی اور وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ ایک میز پر بیٹھا تھا؛ تاہم ایک آئی پیچ اس کی گردن سے لٹک رہا تھا۔ یہ بائیں آنکھ کو ڈھانپنے کے لئے تھا جو حراست میں آنے کے بعد ضائع ہو گئی تھی۔
القاعدہ کے مبینہ سہولت کار‘ جسے کبھی کسی جرم کا قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا‘ مارچ 2007ء میں گرفتاری کے بعد تھائی لینڈ کی ایک خفیہ امریکی جیل میں ڈالا گیا‘ جہاں اس سے اقبال جرم کرانے کے لیے تشدد کیا گیا‘ جس میں 83 بار کی واٹر بورڈنگ شامل ہے۔ امریکی حکومت اس کارروائی کو‘ جس میں زیر حراست فرد کے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ کر اوپر پانی بہایا جاتا ہے اور یوں اسے ڈوبنے کا احساس دلایا جاتا ہے‘ خلاف قانون قرار دے چکی ہے۔
ابو زبیدہ کو ایک ریویو بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا تھا‘ جس میں امریکی فوجی وکلا نے ملزم کی رہائی کے حق میں اور اس کے خلاف دلائل دیے۔ بارک اوباما نے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد رسوائی اور اخراجات کے حوالے سے گوانتانامو بے فوجی قید خانہ ختم کر نے کا حکم دیا تھا‘ مگر ریپبلکن رکاوٹوں اور قانونی موشگافیوں کے باعث اب تک ایسا نہیں ہوا؛ البتہ ان کے ایگزیکٹو آرڈر پر قیدی دوست ملکوں میں منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سولہ قیدی متحدہ عرب امارات اور چار دوسرے ملکوں کے حوالے کیے گئے۔ اب اکسٹھ قیدی گٹمو میں بند ہیں‘ جن میں چار پاکستانی ہیں۔ ڈیموکریٹ اکثریت کے دور میں کانگرس نے نائن الیون کے سانحے کی روک تھام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔ اس حوالے سے قائم کمیٹی کی رپورٹ میں بھی ابو زبیدہ کا ذکر ہے۔ کمیٹی کہتی ہے کہ کس طرح ابو زبیدہ نے کراچی کے بعض ہوٹلوں کو‘ جن میں مغربی لوگ بالعموم ٹھہرا کرتے تھے‘ بم سے اڑانے کے منصوبے بے نقاب کیے اور کس طرح سی آئی اے نے انہیں ناکام بنایا۔ یہ رپورٹ‘ جو ڈیموکریٹوں نے لکھی‘ ترک و انتخاب (Cherry picking ) کا شاہکار سمجھی گئی ہے۔
ابو زبیدہ ان تین میں سے واحد آدمی ہے‘ جسے سی آئی اے ''واٹر بورڈ‘‘ کرنے کا اعتراف کرتی ہے مگر دس منٹ کی اس کارروائی میں جو مقامی صحافیوں نے محکمہ دفاع کی سکرین پر دیکھی‘ اس ایذا دہی کا ذکر نہیں۔ اوباما کے عہد میں ایسی ''سماعتیں‘‘ عام دیکھی گئی ہیں‘ جو ری پبلکن کانگرس سے مایوس ہو کر گٹمو کے قیدیوں کی رہائی کے لئے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا اختیار استعمال کر رہے ہیں۔ 2003ء میں قیدیوں کی انتہائی تعداد684 تھی۔ ابو زبیدہ سی آئی اے کے تشدد کا گہرا علم رکھتے ہیں اور ادارے کے لئے بہت بڑا قانونی خطرہ بن سکتے ہیں‘ مگر وکلا میں سے ایک کا کہنا ہے کہ یہ ایک مختصر رسم تھی جو ہم نے ادا کر دی۔ ابو زبیدہ کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ اس نشریے کو صحافیوں کے علاوہ انسانی حقوق کے پاسداروں نے بھی آرلنگٹن ورجینیا کے ایک بند کمرے میں دیکھا۔ چھوٹی سی تیکنیکی دشواری کے بعد انہیں ٹی وی سکرین پر ایک سفید کمرہ اور ایک چمکیلی میز دکھائی دی۔ ابو زبیدہ کی دائیں جانب ان کے وکلا فوجی وردی میں تھے اور بائیں طرف ان کا مترجم جو بلا آستین‘ بلا ٹائی ایک گھریلو شرٹ میں ملبوس تھا۔ ابو زبیدہ کاغذات پر نگاہ ڈالنے کے لیے بار بار چشمہ بدلتے دکھائی دیے۔
ان کاغذات کے مطابق ابو زبیدہ کو جنگی جہاز کول پر بم باری کے علاوہ کینیا اور تنزانیہ کے سفارت خانوں کو اڑانے کی کوشش اور9/11 کے واقعات کا پیشگی علم تھا۔ اس نے اسرائیل اور بیرونی دنیا میں اس کے مفادات پر بم باری کے منصوبوں میں بھی حصہ لیا۔ اس نے خالد شیخ محمد کو‘ جو کراچی میں گرفتار ہوا‘ القاعدہ کے کارندے بھیجے جو امریکہ کے اندر ایک ریڈیولوجیکل ڈیوائس(Radiological device) چلانے اور افغانستان میں اتحادی فوجوں پر بم برسانے کے منصوبوں پر گفت و شنید کرنا چاہتے تھے۔ مگر 2006ٗ میں گٹمو آنے کے بعد اس نے حکام کے ساتھ بے پناہ تعاون کیا‘ اور دوسرے قیدیوں کی مشکلات ان تک پہنچانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔
تب ایک شخص نے‘ جو بظاہر ابو زبیدہ کی طرف سے بول رہا تھا‘ یہ بیان پڑھ کر سنایا: ''اس نے اپنے کنبے میں واپس جانے اور حراست کے دوران آنے والے زخموں کے اندمال سے شفایاب ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس کے پاس کچھ پیسہ ہے‘ جس سے وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتا ہے اور ایک پُرامن زندگی کرنے کی امید کر سکتا ہے‘‘۔
ماہرینِ نفسیات جیمز مائکل اور بروس جیسن نے رائے دی ہے کہ سی آئی اے کی ایذا دہی میں ابو زبیدہ ایک ''انسانی گنی پگ‘‘ (تجربہ گاہ) تھا۔ ابتدا میں یہ سمجھا گیا کہ اس کے پاس القاعدہ اور اس کے منصوبوں کے بارے میں کچھ معلومات ہیں‘ اس لئے واٹر بورڈنگ کے علاوہ اسے برہنہ رکھا گیا‘ سونے نہیں دیا گیا اور ایک صندوق میں زبردستی داخل کیا گیا جو مردوں کو دفن کرنے والے ''کافن‘‘ سے ذرا بڑا تھا۔انسانی حقوق کی ایک نمائندہ وہاں موجود تھیں۔ کیٹ کوسگروو بولیں: کاش انہوں نے اس تشدد کا ذکر کیا ہوتا جو ابو زبیدہ پر روا رکھا گیا‘‘۔ تشدد نے اس کی نظر بندی میں ایک اہم کردار ادا کیا کہ آج ہم اس کے نام سے واقف ہیں۔ فرد جرم کے بغیر اتنی دیر اسے حراست میں رکھنا ایک مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریویو بورڈ کا یہ عمل ضروری سمجھا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں