وزیر اعظم کی صحت

نواز شریف کے حامی چاہتے ہیں کہ وہ چوتھی مدت کے لئے وزیر اعظم بنیں مگر2018 ء میں اگر وہ الیکشن لڑیں گے تو ان کی عمر68 سال ہوگی اور جب وہ ٹرم پوری کریںگے تو وہ 73 سال کے ہو گئے ہوںگے جبکہ حال ہی میں لندن کے ایک اسپتال ان کے چار بائی پاس ہوئے۔ یہ پانچ برسوں میں ان کا دوسرا اوپن ہارٹ آ پریشن تھا۔اپوزیشن شخصیات صحت‘ پاناما پیپرز اور دوسری وجوہ کی بنا پر وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان میں وکلا برادری کے لوگ بھی شامل ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا‘جو جنرل پرویز مشرف کے خلاف ججوں کی بحالی کی تحریک میں نواز شریف کے ممنون احسان تھے، کہنا ہے کہ ایک اورآئینی بحران سے بچنے کے لئے نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
ڈیموکریٹک پارٹی نے آٹھ نومبر کے صدارتی الیکشن کے لئے ہیلری راڈم کلنٹن کو اپنا امیدوار بنایا ہے جبکہ ان کی عمر68 سال ہے اور وہ نمونیا میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ الیکشن جیت گئیں تو پہلی صدارتی مدت پوری کرنے تک وہ 72سال کی ہوجائیںگی اور اگر انہوں نے دوسری اور آخری مدت کے لئے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں تو ان کی عمر 76 سال ہوگی۔ ان کے مد مقابل ڈونلڈ ٹرمپ 70سال کے ہو چکے ہیں مگر انہوں نے ایک ٹیلی وژن ٹاک شو میں اپنی صحت کا ریکارڈ پیش کر دیا ہے۔ ٹاک شو کے میزبان ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا وزن کم سے کم 25 کلو کم کریں۔ سابق صدر بل کلنٹن ایک اور ٹیلی وژن شو میں بتاتے ہیں کہ ہیلری پہلے بھی بے ہوش ہوتی رہی ہے۔ یہ واقعات اس مباحثے کے بعد رونما ہوئے جس میں یہ سوال زیر بحث تھا کہ دونوں میں سے کون کمانڈر انچیف اچھا ثابت ہوگا؟ امریکی آئین کے تحت ملک کا صدر ہی مسلح افواج کا سپاہ سالار ہے۔ ٹرمپ بولے: ''میں نہیں کہتا تھا کہ خاتون صحت کے مسائل سے دو چار ہے‘‘۔ اس مباحثے میں سابق وزیر خارجہ نے دعویٰ کہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کا مشکل فیصلہ انہوں نے کیا تھا۔
امریکہ میں صدرکا الیکشن ایک فرشتے کے انتخاب سے کم نہیں۔ پہلے ساری جماعتوں کے امیدواروں میں مباحثہ ہوتا ہے جس کی بنا پر یہ پارٹیاں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں۔پھر بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے امیدوار چنتی ہیں جیسا کہ ڈیموکریٹس نے ہیلری کلنٹن اور ریپبلکن پارٹی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کیا ہے اور ان سے صحت اور مالی معاملات کے بارے میں سوال کئے جاتے ہیں۔الیکشن تک تین مباحثے اور ہوںگے جن میں سے ایک خارجہ پالیسی کے لئے وقف ہوگا۔پا کستان میں ایسا کوئی مباحثہ نہیں ہوتا۔کہنے کو وہاں پارلیمنٹ سپریم ہے اور جس کو چاہے وزیر اعظم بنا سکتی ہے اگرچہ وہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر ہی کو اس منصب پر فائز کرتی ہے۔ وزیر اعظم سال میں دو تین دفعہ ایوان میں جاتے ہیں اور امریکی صدر ایک بار درشن دیتے ہیں مگر اس عدم دلچسپی کے اسباب ان کے اپنے ہوتے ہیں۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے پاکستان میں وزیر اعظم اور صدر کے منصب کی مدت پانچ پانچ سال ہے۔ اس مدت کو کم کرنے کے لئے کچھ بحث و تمحیص بھی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں آصف علی زرداری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو صدارت کی پنج سالہ ٹرم پوری کرنے والے پہلے سیاستدان تھے اور جنہیں یہ مدت پوری کرنے میں خاصی دشواریاں پیش آئی تھیں۔امریکہ میں صدارتی نظام ہے جس میں سر براہ حکومت ( انتظامیہ) اور سربراہ مملکت کو یکجا کر دیا گیا ہے اور اس میںکمانڈر انچیف کا عہدہ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ پارلیمانی نظام میں اس منصب کو سپریم کمانڈر کہا جاتا ہے اور صدر‘ وزیر اعظم کے مشورے سے آرمی چیف کا تقررکرتے ہیں۔ وزیر اعظم جتنی وزارتیں چاہیں اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ وزیر اعظم شریف پر اکثر یہ نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ انہوں نے وزارت خارجہ کیوں اپنے پاس رکھی ہے؟
چیف ایگزیکٹو یا اس عہدے کی امیدوارکو لاحق ہونے والی بیماری کو بالعموم چھپایا جاتا ہے جیسا کہ نیو یارک شہر میں نائن الیون کی مرکزی تقریب میں ہوا۔ اس میں قریبی ساتھیوں کا اپنا مفاد بھی شامل ہوتا ہے۔ مباحثے میں ہیلری کلنٹن کو خطاب کرنا تھا مگر وہ اٹھ کر چلی گئیں اور لڑ کھڑاتے ہوئے کسی کے سہارے اپنی وین میں سوار ہوتے دیکھی گئیں۔ان پر نمونیے کا حملہ ہوا تھا مگر ان کے معاونین نے کئی گھنٹے تک اپنی امیدوار کی بیماری کو پو شیدہ رکھا۔اگلے دن ان کی ڈاکٹر نے ان کی صحت کا بلیٹن جاری کیا ۔ مسز کلنٹن نے مختصر سے وقفے کے بعد اپنی انتخابی مہم دوبارہ شروع کر دی ہے۔ ای میل سے پہلے ان کی ایک ہی غلطی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ بطور سینیٹر انہوں نے جارج بش کو عراق سے جنگ کا اختیار دیا تھا۔
منصب کی پہلی مدت میں ڈوائٹ آئزن ہاور پاکستان کے دورے پر گئے اور کراچی میں صدر محمد ایوب خا ن سے ملے۔ وہ بھلے چنگے لگتے تھے مگر دوسری مدت کے دوران سابق جنرل ایک بوڑھے آدمی کی طرح دکھائی دیے۔ دراصل 1955ء میں انہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا جو اسپتال میں طویل قیام کا متقاضی تھا۔ بعد میں انہیں فالج (سٹروک) ہوا اور وہ چل بسے۔ ان کے مقابلے میں جانشین جان کینیڈی جوان دکھائی دیتے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آئزن ہاور اتنے بوڑھے بھی نہیں تھے۔ جب پہلی بار وہ چنے گئے ان کی عمر62 سال تھی اور کینیڈی ایسے جوان نہیں تھے۔انہیں کئی پوشیدہ بیماریاں لاحق تھیں جن میں ایڈیسن شامل تھی مگر ان کے معاونین نے اسے عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا۔
امریکی صدارت کی تاریخ بیماری اور معذوری سے پُر ہے۔مثلاً 1919ء میں ووڈرو ولسن ایک سٹروک سے معذور ہو گئے تھے مگر لوگ مہینوں تک اس معذوری سے بے خبر رہے اور جب گرورکلیو لینڈ کو1893 ء میں ایک سرطان زدہ رسولی نکلوانے کے لئے منہ کی جراحت درکار ہوئی تو انہوں نے خفیہ طور پر اپنا آپر یشن کرایا۔اس مقصد کے لئے ایک دوست کی تفریحی کشتی مانگی گئی اور جب وہ لانگ آئی لینڈ ساؤنڈ( نیو یارک) میں داخل ہوئی تو ان کا آپریشن ہوا۔جان ہنکلی جونیئر35 سال کی قید کاٹ کر اسی مہینے رہا ہوا ہے۔اس نے اپنی فلمی محبوبہ کو خوش کرنے کے لئے 1981ء میں صدر رو نلڈ ریگن پر قاتلانہ حملہ کیا تھا جس میں وہ بچ نکلے تھے مگر زندگی کے آخری دور میں شبہ تھا کہ ان کو الز ہائمر (بھُول چُوک) کی بیماری ہے مگر تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔آخر 93سال کی عمر پا کر اسی مرض سے ان کی رحلت ہوئی۔ہیلری اور ڈونلڈ تاریخ کی معمر ترین جوڑی ہوگی۔ اگر ہیلری کو فتح نصیب ہوتی ہے تو ریگن کے بعد وہ منصب صدارت سنبھالنے والی دوسری معمر ترین فرد ہوں گی اور ٹرمپ ان سب سے زیا دہ عمر کے ہو گئے ہونگے ۔امریکہ نے عمر کے سوال پر قابو پالیا ہے مگر صحت کا سوال باقی ہے۔ نواز شریف اگر اگلے الیکشن میں کھڑے ہوئے توکون نانے دادے دائم المریض کی حمایت کو نکلے گا؟ انہوں نے اپنی پارٹی میں نمبر دو نہیں بننے دیا۔ امریکہ میں بھی ایسا کوئی انتظام نہیں مگر یہاں ایک ایسا نظام موجود ہے جس میں کوئی بھی سیاست کے کوچے میں قدم رکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ مالدار ہو اوردولت مندوں سے چندہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔پا کستان میں تو الیکشن پہلے ہی پلے سے لڑا جاتا ہے۔البتہ گھر کے اندر ضمنی انتخابات اور باہر نیو یارک میں شریف کی کار گزاری کو سراہا جائے گا۔بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اگلے ہفتے روس اور امریکہ کا دورہ کرنے پر مجبور ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں