کمان سے نکلا ہوا تیر

وزیر دفاع نے شمالی کوریا کو انتباہ کیا ہے کہ اگر اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر اپنا ایٹمی میزائل چلایا تو اسے مار گرایا جائے گا۔ کم سنگ ان نے یکم جنوری کو کہا تھا کہ نیوکلیائی صلاحیتوں سے مالا مال ان کا ملک اب آزمائش کی غرض سے ایک بین البراعظمی میزائل ICBM چلانے والا ہے۔ کوریا کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے اگلے روز بیان دیا کہ ان کا ''سپریم لیڈر‘‘ جب چاہے گا جہاں سے چاہے گا اور جہاں چاہے گا میزائل داغا جائے گا اور دفاع کے انچارج ایش کارٹر نے جواب دیا کہ کورین میزائل امریکی علاقے کے نزدیک یا اس کے اتحادیوں اور دوستوں کے قریب داغا گیا تو اسے نشانہ بنایا جائے گا۔ شمالی کوریا کے قریب ترین امریکی علاقہ کم و بیش نو ہزار کلومیٹر دور ہے اور امریکہ کو فکر ہے کہ جواں سال کم جنوبی کوریا یا جاپان پر حملہ نہ کر دے۔ اس صورت میں ایک عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے جو ایٹمی تصادم میں بدل جائے گی۔ کم بحیرہ جنوبی چین اور جنوبی کوریا کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اسے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کے لئے دھکیل رہا ہے۔ امریکہ کے صدر کو ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لئے حکم جاری کرنا ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ‘ روس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے اس کے تمام ہمدردوں سے نرم برتاؤ کے خواہش مند ہیں۔ وہ سب سے کاروباری انداز میں نبٹنا چاہتے ہیں۔
جب سے (1970ئ) جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کا عالمی معاہدہ( NPT )نافذ ہوا ہے تین ملک بھارت‘ پاکستان اور شمالی کوریا اس کے فریق نہیں ہیں۔ دوسرے فلیش پوائنٹ حلب‘ فلسطین اور کشمیر ہیں۔ در اصل ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد اب ایشیا کی ایک اور باری ہے۔ پاکستان کی ملازمت سے فارغ ہوتے ہی جنرل راحیل شریف‘ سعودی عرب گئے اور ان کے عمرہ کرنے کے بعد اس خیالی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کی بات ہونے لگی‘ جسے دو سال پہلے سعودی شہزادوں نے یمن کی لڑائی کے حوالے سے ترتیب دینے کی کاوش شر وع کی تھی اور جس میں بارہ ملک شامل ہو چکے ہیں اور 27 گومگو کی حالت میں ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان‘ عرب و عجم کے دیرینہ نزاع میں مصالحت کار نہیں فریق ہو گا۔ ابھرتے ہوئے ایران کی مخالفت‘ امریکہ نے بھی کی تھی جو بالآخر ایک سمجھوتے پر منتج ہوئی جس سے دنیا کو دس سال کے لئے پانچ ملکی ''نیوکلیئر کلب‘‘ میں ایک اضافے سے نجات مل گئی۔ کیا اس کی سربراہی ایک پاکستانی کے لیے مناسب ہو گی؟ اس اتحاد کے پوشیدہ اغراض غالباً ٹرمپ کو راس آئیں مگر یہ شاید ان کو پسند نہ آئے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور محاذ کا سبب بنیں‘ ہرچند انہوں نے ایران سے معاہدے کا معاملہ پھر سے اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر یہ ان کی ترجیح نہیں۔ مسلمانوں میں‘ جو پہلے ہی فرقہ وارانہ قتل و غارت میں مبتلا ہیں‘ ایک اور انتشار کی لہریں دکھائی دے رہی ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشا اور اس کے ہمسائے ملائشیا نے اتحاد میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے مگر ترکیہ جو نیٹو کا رکن ہونے کے ناتے کلب کا ایٹمی اسلحے میں حصے دار ہے اس اتحاد میں شامل ہے جس کا خیر مقدم امریکہ بھی کر چکا ہے۔
اس وقت دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کا اندازہ 10144 ہے جو کرہ ارض کو بار بار صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ ان میں تقریباً 80 اسرائیل کی ملکیت ہیں جو مصلحتاً اس ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا‘ مبادا عرب ملکوں میں ایٹمی اسلحہ جمع کرنے کی دوڑ شروع ہو جائے۔ امریکہ کے پاس 7100 اور روس کے ہاتھ میں 7300 ہتھیار ہیں۔ گویا نوے فیصد روس اور امریکہ کی ملکیت ہیں۔ ان میں سے دس ہزار حاضر ڈیوٹی پر اور باقی این پی ٹی جیسے بین الا قوامی معاہدوں کی رو سے ناکارہ بنائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی الیکشن میں روس کی مداخلت کو رد کر دیا جس کی اطلاع جاسوسی اداروں نے ان تک پہنچائی تھی۔ پاکستان نے کروز میزائل کا ایک اور تجربہ کرکے قوم کو مبارک باد دی ہے۔ بابر تھری کا یہ تجربہ ایک ایسی قوم کے لئے واقعی مبارک کا مستحق ہے جو مدمقابل سے بہت چھوٹی ہے۔ پاکستان نے یہ صلاحیت بنگلہ دیش کی لڑائی کے بعد پیدا کی اور 1970ء سے ہندوستان اور پاکستان میں عدم محاربت ہے۔ ہندوستان کے پاس 110 اور پاکستان کے پاس 140 ایٹم بم بتائے جاتے ہیں مگر دونوں کو معلوم ہے کہ لاہور اور امرتسر اور کراچی اور ممبئی گنجان آباد اور تقریباً متصل شہری علاقے ہیں۔ ہر چند کہ ہندوستان اور پاکستان سے ایک دوسرے کے خلاف ایٹم بم برسانے کی فرقہ وارانہ آوازیں گاہے ماہے سنائی دیتی ہیں۔
شمالی کوریا کے کنٹرول میں صرف آٹھ بم سمجھے جاتے ہیں مگر وہ واشنگٹن کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پاکستان‘ جوہری اثاثوں کے عالمی تقاضوں کی پیروی کرتا ہے۔ میزائل بم کو نشانے تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستانی کروز گو ایک سے دوسرے بر اعظم تک مار نہیں کر سکتے مگر وہ سمندر اور فضا سے چلائے جا سکتے ہیں اور دشمن کا صفایا کر سکتے ہیں۔ شمالی کوریا شروع میں پاکستان کی طرح این پی ٹی کا رکن تھا لیکن دس جنوری 2003ء کو علیحدہ ہو گیا تھا۔ پاکستان اور شمالی کوریا کی علیحدگی کا ایک سبب امریکی قانون تھا۔ امریکہ نے شمالی کوریا کی یورینیم افزودہ کرنے کا ایک خفیہ پروگرام چلانے کی پاداش میں 1994ء کے ایک قانون کی رو سے اس کی توانائی کی امداد بند کر دی تھی۔ پاکستان نے 1970ء کے عشرے میں علیحدگی اختیار کی جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملتان میں یہ اعلان کیا کہ ہم نیوکلیائی ہتھیار بنائیں گے خواہ ہمیں گھاس ہی کھانی پڑے۔ اگرچہ جنوبی کوریا کے ایک صنعتی وفد نے چوہدری محمد علی کے دور میں پاکستان سے پہلے پنج سالہ منصوبے کی ایک نقل حاصل کی اور اس کی بنا پر اشیا سازی بالخصوص الیکٹرانکس میں بڑی ترقی کی مگر شمالی کوریا کی‘ جو سرد جنگ کی پیداوار تھا‘ کہانی پاکستان سے ملتی جلتی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ منیر احمد خان‘ جو پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے چیئرمین تھے اسلام آباد (یا کراچی) سے لاہور آئے۔ گارڈینیا میں ایک پریس کانفرنس کی اور ''منڈیاں‘‘ کو اطلاع دی کہ پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ ان کا اشارہ واشنگٹن کی جانب تھا۔ روس اور چین کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ عالمی سلامتی کے امور میں وہ بعض اوقات امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں۔ پاکستان پر ''پریسلر امینڈمنٹ‘‘ کا دباؤ ڈالا گیا۔ شمالی کوریا دس سال سے اقوام متحدہ کی تعزیروں کی زد میں ہے اور نو ستمبر کو جب اس نے اپنا پانچواں اور سب سے بڑا دھماکہ کیا تو یہ تعزیریں اور سخت کر دی گئیں اور پھر یہ انتباہ جاری کیا گیا مگر دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک ہوسِ ملک گیری باقی ہے پاکستان‘ شمالی کوریا‘ مصر اور برازیل وغیرہ سے ایٹمی ترقی کے تجربات کی خبریں آتی رہیں گی۔ ایٹمی ہتھیار توازن برقرار رکھنے کے لیے ہیں ایک دوسرے کو ڈرانے کے لئے نہیں۔ اس سلسلے میں ان دس ریٹائرڈ ماہرین کا بیان یاد رکھنے کے قابل ہے جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دیا اور جس میں انہیں جوہری اسلحہ کے استعمال کے ناقابل کہا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کاریگر ڈیمو کریٹ ہوں مگروہ سچ کہتے ہیں۔ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آ سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں