پشاور چرچ میں دھماکہ ہوا۔ سب سے دل فگاربات یہ تھی کہ مسیحی برادری کی 34 خواتین اور کتنے ہی بچے دم توڑ گئے۔ مظلوموں کے ہاتھوں میں بچوں کے فیڈر پکڑے ہوئے دیکھا تو میں ٹی وی سکرین یہ نظریں جمائے ہوئے اپنے آنسوئوں پہ ضبط نہ کرسکا، اور پھر جب ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری قبول کرنے کااعلان کیا تو زبان سے بے ساختہ نکلا، اگر آج میرے حضورؐ موجود ہوتے تو کیا کہتے ؟ میرے حضورؐ نے فرمایا تھا ،یہودیوں کو ہفتہ کا دن دیا گیا، مسیحیوں کو اتوار کا دن دیاگیا اور ہمیں جمعہ کا دن دیا گیا۔ نجران سے جب مسیحی وفد مدینہ منورہ میں آیا تھا اور اتوار کا دن آیا تو وفد کے لوگوں نے کہا کہ ہم عبادت کہاں کریں ؟ تب میرے حضور ؐ نے فرمایا تھا میری مسجد میں عبادت کرلو۔ امام ابن کثیر نے یہ بات اپنی تاریخ کی کتاب ’’ البدایہ والنھایہ‘‘میں تحریر کی ہے۔میں سوچوں میں گم تھا ۔میرے حضورؐ آج کیا کہتے۔یہی فرماتے کہ مسیحی میری مسجد میں محفوظ ہیں ،میرے مدینے میں محفوظ ہیں ،مگر پشاور میں محفوظ نہیں۔ اپنے گرجے میں محفوظ نہیں۔ میرا کلمہ پڑھنے والو ! یہ ذمہ داری قبول کرکے کیا کیا ؟ اسلام کا معنی سلامتی دینے والا ہے۔ جو اس دین کو لائے وہ ’’ رحمتہ اللعالمین‘‘ ہیں۔ انہوں نے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال نہ فرمایا۔ ذمی کہا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جان ، مال ، اولاد اور آبرو کی حفاظت کا ذمہ حضور ؐ کا کلمہ پڑھنے والوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کو جب ایک ذمی فیروز نامی شخص نے دوران نماز خنجر مارے تو حضرت عمر ؓ نے زخموں سے چُور ہونے کی حالت میں فرمایا ! مسلمانو ! میں تمہیں تمہارے نبی ؐ کا ذمہ یاد دلاتا ہوں۔ اس کا لحاظ کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یعنی میری شہادت کی صورت میں کسی ذمی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ سوچتا رہا کہ حضور ؐ آج موجود ہوتے اور اپنی وصیت کی توہین کا یہ انداز ملاحظہ فرماتے تو کیا کہتے ؟ جی ہاں ! جب حضرت عمر ؓ جیسی شہادت کا کوئی واقعہ بھی نہ تھا پھر بھی ذمی لوگ پشاور میں خاک و خون میں تڑپا دیے گئے۔ اس بے سبب قتل عام پر میرے حضور ؐ کیا فرماتے ؟ پاکستان نائن الیون کے بعد آج تک بدستور حالت جنگ میں ہے۔ ڈرون طیاروں نے غیر اعلانیہ حالت جنگ بپا کررکھی ہے۔ اب اگر کوئی اپنی مرضی سے جنگ کے لیے کھڑا ہونا چاہتا ہے، خود ہی مفتی بن جانا چاہتا ہے اور خود ہی قاضی بن کرفیصلہ کرلیتا ہے کہ اس نے جنگ کرنا ہے تو یوں وہ اپنا ایک گروپ بناتا ہے اور جنگ شروع کردیتا ہے ۔ یہ اپنی جگہ محل نظر ہے کہ وہ جہاد کررہا ہے یا فساد کررہا ہے ؟ جی ہاں ! کوئی اپنے آپ یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ جہاد ہی کررہا ہے اور وہ اس پر اصرار کرتا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ جہاد کے ضابطے حضور ؐ سے اخذ کرے گا یا یہ ضابطے بھی خود ہی بنائے گا؟ اگر یہ شخص ضابطے بھی خود ہی بنائے گا تو اس کا یہ عمل شریعت پر عمل نہیں بلکہ شریعت سازی کا عمل ہے۔ جنگ کے دوران حضور ؐ کی شریعت یعنی طریق کار ہم دیکھتے ہیں تو احد کا غزوہ ہمارے سامنے ہے۔ حضور ؐ نے اپنی تلوار لہرائی اور فرمایا کون اس کا حق ادا کرے گا؟ اور پھر یہ تلوار حضورؐ نے حضرت ابودجانہ ؓکے سپرد کردی۔ وہ مکہ کے قریش کی جنگی صفیں چیرتے ہوئے آخر پر پہنچے تو ایک شخص پر تلوار سونتی جو اپنے لوگوں کو جنگ پر ابھار رہا تھا۔دیکھا تو یہ ایک عورت تھی…قریش کی فوجوں کے سپریم کمانڈر ابوسفیان کی بیوی ہندہ ۔حضرت زبیر ؓ نے پوچھا، ابودجانہ ؓ! آپ نے اس عورت کو قتل کیوں نہ کیا کہ وہ تو لڑائی کے میدان میں تھی۔ اس پر ابودجانہ ؓنے کہا ، بے شک ایسا ہی ہے مگر میں نے دیکھا کہ وہ عورت مشکل گھڑی میں مدد کے لیے اپنے لوگوں کو بلارہی ہے۔ کوئی اس کی مدد کو نہ آیا تو میں نے حضورؐ کی تلوار سے ایسی عورت کو قتل کرنا سخت ناپسند کیا کہ جو بے بس تھی۔ یہ ہے حضورؐ کی تلوار کا وقار۔ اس کا نام ہے بہادری۔ اسے کہتے ہیں جانبازی کہ حضورؐ کے جانباز نے حضورؐ کی تلوار کو بٹہ نہیں لگنے دیا۔ حضورؐ کے جانثار نے جنگ کے میدان میں بھی لاچار عورت کے سر پر سونتے وار کو روک لیا… میں سوچ رہا تھا کہ میرے پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار دنیا کے سامنے کس قدر پشیمان اور پریشان ہیں ۔وہ کیا بتلائیں کہ ہمارے دیس میں خودکش حملوں کی صورت میں اسلام کے نام لیوا عبادت خانے میں عورتوں کو مار دیتے ہیں، لاچار اور بے بس فیڈر پیتے بچوں کو اڑا دیتے ہیں… میں تو سوچتے سوچتے بے سمجھ سا ہوگیا کہ آج اگر یہ منظر حضرت ابو دجانہ ؓدیکھتے تو کیا کہتے۔حضرت زبیرؓ دیکھتے تو کیا کہتے اور ان دلاوروں کے سردار حضرت محمد کریم ؐ آج موجود ہوتے تو کیا فرماتے ؟ ایک اور واقعہ ہے ۔یہ بھی جنگ ہی کا ہے ۔حضرت اسامہؓ جو حضور ؐ کی گود میں کھیل کر جوان ہوئے۔ حضرت حسن ؓ کے ہم عمر تھے ۔ جنگ کے دوران دشمن نے ان پر حملہ کیا اور انہوں نے ڈھال آگے کرکے اپنے آپ کو بچا لیا۔ اب جب حضرت اسامہؓ کے نرغے میں دشمن آیا تو اس نے حضورؐ کا کلمہ پڑھ لیا۔ حضرت اسامہ ؓ نے اس کے باوجود اپنے دشمن کو قتل کردیا۔ واپس یہ قافلہ مدینہ آیا تو ایک صحابی جو مذکورہ واقعہ کا عینی شاہد تھا اس نے حضورؐ کے سامنے ذکر کیا۔ حضور ؐ نے اسامہؓ کو بلالیا اور پوچھا کہ تو نے کلمہ گو کو کیوں قتل کیا؟ اسامہ ؓ نے جواب دیا، اے اللہ کے رسول ؐ! اس نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا۔ حضور ؐ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ آواز بلند ہوگئی۔فرمایا، تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ دکھلاوے اور ڈر کے مارے پڑھ رہا ہے یا سچا پڑھ رہا ہے ؟ کیا جواب دے گا اپنے رب کو جب قیامت کے دن وہ کلمہ پڑھتے آئے گا؟ حضرت اسامہ ؓ کہتے ہیں،میں حضورؐ کے غصے اور وعید کو سن کر اس قدر ڈرا کہ سوچنے لگ گیا، کاش! میں مسلمان نہ ہوتا ،میں آج اسلام قبول کرتا ،تاکہ ایک مسلمان کے قتل سے بچ پاتا۔قارئین کرام ! میں سوچتا ہوں کہ جنہیں حضورؐ کی زبان مبارک سے جنت کی خوشخبری ملی تھی وہ تو اس قدر ڈرتے تھے۔مگر آج کے کلمہ گو جانثار جانیں لیتے ہوئے ڈرتے ہی نہیں ہیں۔آج میرے حضورؐ ہوتے تو ایسے نڈر اور بے باک و بے خوف لوگوں کو دیکھ کر کیا کہتے ؟ الغرض ! میں پاکستان کو حالت جنگ میں دیکھوں تو تب بھی کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ مسلمان مسجد میں ، رب کی بارگاہ میں کیوں قتل ہوتا ہے؟ سڑک اور مارکیٹ میں کیوں مارا جاتا ہے؟ جنازے کے دوران کیوں مارا جاتا ہے۔ذمی شخص وہ مسیحی ہو یا کوئی اور اپنے چرچ میں کیوں مارا جاتا ہے؟ جبکہ پاکستان میں پرامن لوگوں کو مارنا تو درندگی کی بھی توہین نظر آتی ہے۔ سٹیٹ کے حکمران اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتے؟ پس پردہ ہاتھوں کو ننگا کیوں نہیں کرتے؟غیر ملکی قوتیں اور ایجنسیاں ہیں تو انہیں سامنے کیوں نہیں لاتے؟ اگر سامنے لانا مناسب نہیں سمجھتے تو کم از کم انہیں لگام کیوں نہیں دیتے؟اگر وہ ایسے منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کی سکت نہیں رکھتے تو وہ حکمرانی کے گھوڑے کا شہ سوار کیوں بنے ہیں؟ عوام کا یہ ہے وہ سوال جو حکمرانوں کے ذمے ہے۔ دیکھنا ،جواب کو ترستی آنکھیں کہیں پتھرا نہ جائیں؟ حکمرانو! تم بھی سوچو کہ تمہاری لمبی تسلیوں اور عمل سے عاری بے جان بیانات کو آج میرے حضور ؐ دیکھتے تو تمہیں کیا کہتے؟