بھارت میں مسلمانوں کی تعداد‘ جسے ہندو بھی تسلیم کرتے ہیں‘ بیس کروڑ ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 25کروڑ ہے۔ یہ 25کروڑ مسلمان بھارت میں کس حال سے دوچار ہیں۔ یہ حال مسلمانوں کا بتلایا ہوا نہیں ہے، مسلمانوں کی کسی تنظیم کا رونا اور واویلا نہیں ہے، یہ واویلا یورپ کی تنظیم کا ہے، جس کا نام ''ہیومن رائٹس واچ‘‘ ہے۔ اس کی رپورٹ 77صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے بھارت کا اخبار ''ٹائمز آف انڈیا‘‘ بھی شائع کر چکا ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ اس ظلم پر جو بھارت میں مسلمانوں پر ہو رہا ہے، آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے؛ تاہم اس نمکین رپورٹ میں سے ہم 77الفاظ بھی شائع نہیں کر رہے۔ صرف چند الفاظ شائع کر رہے ہیں۔ جی ہاں! صرف 31الفاظ، ذرا ملاحظہ کریں!
''بھارت کے سکولوں میں مسلمان طالب علموں کو کلاسوں میں انتہائی پچھلی نشستوں پر بٹھایا جاتا ہے، انہیں ملیچھ (ناپاک) سمجھا جاتا ہے، لیٹرینوں کی صفائی کا کام ان سے لیا جاتا ہے۔‘‘
قارئین کرام! میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان بچوں کو‘ جو ایسے حالات میں بھی آگے بڑھتے ہیں‘ نمایاں پوزیشنیں لیتے ہیں‘ محنت اور ذہانت کے ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ جی ہاں! پھر کیا ہوتا ہے، اگلے منظر کو دیکھنے کے لیے بھارت کی اپنی تنظیم کی رپورٹ ملاحظہ ہو، اس کا نام ''نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن‘‘ ہے، یعنی بھارت میں رہنے والے لوگوں کے حقوق کا خیال کرنے والا ادارہ... یہ ادارہ یا کمیشن کہتا ہے:
''بھارت میں گزشتہ تین برسوں کے دوران 400کے قریب ایسے طالب علموں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیا گیا ہے جو پوزیشن ہولڈر تھے۔ یہ طالب علم ڈاکٹر بن رہے تھے، انجینئر بن رہے تھے اور ایٹمی ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کے لیے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔‘‘
قارئین کرام! حالیہ بھارتی الیکشن مہم میں مسلمان طالب علموں کے ساتھ مزید یہ سلوک کیا گیا کہ دہشت گرد ہندو تنظیموں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ''پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائیں۔ انہوں نے نعرے نہیں لگائے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے غنڈوں اور شیوسینا، ہندو پریشد وغیرہ جیسے دہشت پسند گروہوں کے بدمعاشوں نے ان طالب علموں کو بھارت کے مختلف صوبوں میں اتنا مارا کہ ہڈیاں توڑ ڈالیں۔ بعض کے بازو اور ٹانگیں توڑ کر انہیں اپاہج اور معذور کر دیا۔ تعلیمی کیریئر ان کا تباہ و برباد کر دیا۔
12مئی 2014ء کی تازہ خبر بڑی ہی ہولناک ہے کہ ایک اٹھارہ سالہ مسلمان طالب علم جو مظفر نگر کا باسی ہے‘ وہاں مارکیٹ میں ایک دکان پر موبائل خریدنے گیا۔ قیمت کے تعین پر ہندو دکاندار بھڑک اٹھا اور طالب علم کو مارنا شروع کر دیا۔ اس طالب علم کا نام اویس ہے، مارکیٹ کے ہندو تاجروں نے اویس کو اس قدر مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اس حالت میں بھی انہیں کوئی رحم نہ آیا چنانچہ اویس کو سڑک پر گھسیٹنا شروع کر دیا اور پھر اسے گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اس طالب علم کی لاش کو جب اس کے والد عبدالصمد قریشی نے دیکھا، مقتول کی والدہ نے دیکھا تو ان کا رونا، دہائیاں اور غم و کرب دیکھا نہ جاتا تھا۔
اے پاکستانیو! یہ ہے بھارت جہاں معصوم طالب علم بچوں کے ساتھ اس طرح کے ظلم کیے جاتے ہیں... اگر آپ ان رپورٹوں کی باقی تفصیلات ملاحظہ کریں تو حیران رہ جائیں کہ کس طرح پولیس مقابلوں میں مسلمانوں کی نئی طالب علم نسل کو حیلوں بہانوں سے قتل کیا جا رہا ہے یا جعلی مقدموں میں پھنسا کر سالہا سال کے لئے جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ دنیا خاموش ہے۔
الیکشن کی حالیہ مہم کے دوران پورے بھارت میں نعرے لگے ہیں کہ اے مسلمانو! ہندو بن کر بھارت میں رہنا ہو گا، مسلمان رہنا ہے تو پاکستان جا کر رہو، اس پر حیدرآباد دکن کے مسلمان رہنما اکبر الدین اویسی نے مسلمانوں کے جلسے سے خطاب کیا اور کہا کہ ہم بھارت سے جائیں گے تو لال قلعہ، آگرہ، تاج محل اور حیدرآباد ساتھ لے کر جائیں گے... جی ہاں! اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم بھارت کے 25کروڑ مسلمان پاکستان میں کہاں جائیں گے، ہم بھارت میں ہی تم سے الگ ہو جائیں گے۔
میں سمجھتا ہوں وقت آ گیا ہے، ہماری پاکستان کی حکومت بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ لے کر یو این میں جائے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ دنیا کے ساتوں براعظموں میں کہیں بھی اتنی بڑی اقلیت موجود نہیں جتنی تعداد میں بھارت میں موجود ہے۔ 25 کروڑ کو اقلیت کہنا خود اقلیت کے لفظ کی توہین ہے۔ اتنی بڑی تعداد اپنی جگہ پر خود ایک بڑی اکثریت ہے‘ لہٰذا اسے بھارت میں الگ ملک دیا جائے، ان کا خطہ علیحدہ کیا جائے، بھارت کے ہندو خود انہیں اپنے سے علیحدہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں، لہٰذا ہندوئوں کی بات مان کر بھارتی مسلمانوں کو ایک اور پاکستان دے دیا جائے۔ یہ مطالبہ اب دنیا کے پلیٹ فارم پر نمایاں ہو جانا چاہئے اور ''لیاقت نہرو معاہدے‘‘ کے مطابق اہل پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں۔ بھارتی مسلمانوں کی مدد کریں تاکہ اک نیا پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے... ہاں ہاں! اک نیا پاکستان، اک نیا قائداعظم... لہٰذا بھارت کے مسلمانوں کو ابھی سے اپنا علاقہ بھی متعین کرنا چاہیے اور اپنا قائد بھی بنا لینا چاہیے... اور اگر سن ہجری کے اعتبار سے دیکھیں تو 70سال پہلے والا نعرہ بھارت کے درودیوار کو اپنی گونج سے پھر آوازِ بازگشت بناتا ہوا نظر آنے کو ہے!
لے کے رہیں گے نیا پاکستان
پھر بٹ کے رہے گا ہندوستان