کسی بھی معاملے میں ہم جب تک آخری حد
کراس نہیں کرتے، اور پھر اس پر بھرپور
احتجاج نہیں کرتے، نہ تو ہمارا کوئی متعلقہ ادارہ
حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی قانون جنبش
دکھلاتا ہے۔ یہ طرز عمل بوسیدہ اور مریل
معاشروں کا طرز عمل ہے اور ہم اس کا ایک عرصہ
سے شکار ہیں۔ جس نے بھی اپنا حق لینا ہے یا
مطالبہ منوانا ہے تو اسے اپنے مقتول کی میت کو
گورنر ہائوس کے سامنے رکھ کر سینہ کوبی کرنا
پڑتی ہے ،تب جا کر قانون انگڑائی لیتا ہے
اللہ نے اپنے پیارے رسول ﷺ کو چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ حضرت فاطمہ ؓ سب سے چھوٹی تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ بتلاتی ہیں کہ حضورﷺ کے مبارک چہرے کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت حضرت فاطمہ ؓ کو حاصل تھی۔ بڑی تینوں بہنوں کی تو شادیاں ہو گئیں۔ یوں حضور ﷺ کے ساتھ گھر میں سب سے زیادہ وقت اور عرصہ حضرت فاطمہؓ نے ہی گزارا۔ ہر اہم موقع پر حضورؐ کی مدد اور تعاون میںحضرت فاطمہ ؓ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ بیت اللہ شریف میں ابو جہل نے حضور ﷺ کی کمر مبارک پر اونٹ کی او جھڑی ر کھوا دی، جب آپﷺ سجدہ میں تھے ۔اس اوجھڑی کو ہٹا کر اپنے بابا کی کمر مبارک صاف کرتے ہوئے حضرت فاطمہؓ نظر آتی ہیں۔ احد میں جب حضور ؐ کے سر مبارک سے خون بہنا نہ رکتا تھا تو کپڑے کو جلا کر اس کی راکھ زخم مبارک پر رکھ کر خون بند کرتے اور مرہم پٹی کرتے حضرت فاطمہؓ ہی دکھائی دیتی ہیں۔
جب اللہ کے رسولؐ نے حضرت علی ؓ کی شادی کی تو حضرت علیؓ کا گھر ذرا فاصلے پر تھا۔حضورؐ نے خواہش کا اظہار فرمایا کہ ان کی لخت جگر کا گھر ان کے ساتھ ہوچنانچہ حضرت حارثہ بن نعمان ؓ نے اپنا گھر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یوں حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ حضورﷺ کے پڑوسی بن کر رہنے لگے۔ حضرت فاطمہؓ کا یہ گھر اب روضہء رسولﷺ کا حصہ ہے۔
میں نے تاریخ ابن شبّہ میں پڑھا کہ دونوں کی شادی کے بعد حضور ﷺ متواتر چالیس دن دروازے پر تشریف لاتے۔ تہجد کے وقت بیدار کرتے اور آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے۔ ایسا اس لیے کرتے تاکہ اللہ کے ساتھ تعلق میں فرق نہ آئے۔ حضرت فاطمہ ؓ کی والدہ حضرت خدیجہؓ مکہ کی مالدار ترین خاتون تھیں۔ حضرت فاطمہؓ ناز و نعم میں پلی تھیں، مگر مکہ میں اپنے رسول باباﷺ کے ساتھ بھی تکالیف برداشت کیں۔ بھوک اور تنگی کے دن کاٹے اور مدینہ میں جن سے شادی ہوئی وہ زہد اور فقر کے امام تھے۔ حضرت فاطمہؓ شاہ عرب کی بیٹی ہو کر بھی گھر میں چکی پر آٹا پیستی تھیں۔ گھر کے کام کاج کرتی تھیں۔ بتول انہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ دنیا سے بس جو تعلق تھا وہ تن بدن کے رشتے کو قائم رکھنے کے لیے تھا۔ اس دنیا سے کٹ کر اصل تعلق اللہ سے جڑ کر رہنے کا تھا۔ ان کے بابا رسول گرامی ﷺ کے بارے میں مکہ کے دشمنوں کا بھی یہ خراج تحسین تھا کہ حضرت محمدﷺ عرب کی کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر شرم و حیاء والے ہیں اور حضرت فاطمہؓ بھی اسی طرح بے پناہ شرم و حیاء والی تھیں۔ اسی لیے تو اللہ کے رسولﷺ نے واضح کر دیا کہ دنیا میں چار ہی کامل ترین عورتیں ہیں۔ حضرت عمران کی بیٹی مریمؑ، فرعون کی بیوی آسیہؑ، خویلد کی بیٹی خدیجہؓ اور حضرت محمد کریم ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ ۔ جس طرح حضرت فاطمہؓ کے ابا جان خاتم الانبیاء ہیں ، اسی طرح کامل ترین چار خواتین میں سے آخری کامل ترین خاتون حضرت فاطمہؓ ہیں۔
وہ کامل ترین آخری خاتون حضرت فاطمہؓ جب اپنے بابا رسول گرامیﷺ کے چھ ماہ بعد اس دنیا سے تشریف لے جانے لگی تھیں تو ان کے ابا جان کے فرمان کے مطابق سوائے حضرت مریم ؑکے جنت کی تمام عورتوں کی سردار کو فکر اس بات کا تھا کہ عورت کی میت پر ایک کپڑا ڈال دیا جاتا ہے جس سے جسم کے اعضاء کا ابھار دکھلائی دیتا ہے۔ کیسے ممکن ہو کہ فاطمہ بتولؓ کا جنازہ اس سے محفوظ ہو جائے۔ جنت کے جوانوں کے سردار ننھے حسن ؓاور حسین ؓکی اماں جان نے یہ تذکرہ کیا حضرت ابو بکرؓ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے ،انہوںنے کیا کیاکہ درخت کی چار ٹہنیاں لیں۔ انہیں چارپائی کے چار کناروں پر قدرے خم دے کر باندھ دیا اور ان پر چادر ڈال دی۔ اب یہ ایک طرح سے ہودج یا ہماری زبان میں ڈولی بن گئی۔ حضرت فاطمہ بتول اور زہراء ؓ نے یہ منظر دیکھا تو بڑا خوش ہوئیں۔ ساتھ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کا پردہ اسی طرح رکھے جس طرح آپ نے میرے پردے کا انداز اپنایا اور ساتھ ہی اس طرح کرنے کی وصیت فرما دی۔ الحمد للہ! اس کے باوجود اس قدر احتیاط کہ جنازہ بھی رات کو جائے ۔
اللہ کی قسم ! قلم لکھتے ہوئے کانپتا ہے کہ ہماری عقیدتوں اور محبتوں کا کس طرح سے جنازہ نکالا گیا اور بد تہذیبی کی حدوں کو کس قدر پھلانگا گیا کہ جب ایک میڈیا گروپ کے نیوز چینل نے حضرت فاطمہؓ کا پاکیزہ نام لیا اور پیش ایسی خاتون کو کیا جس نے انڈیا میں انتہائی متنازعہ کردار ادا کیا۔ اپنے برہنہ جسم پر سکیورٹی کے ایک ادارے کا نام لکھ کر اہل بھارت کو خوش کیا۔حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی شادی کے بول دہرا کر مشابہت کا یوں رنگ جمایا گیا کہ جب حضرت فاطمہؓ کا مقدس نام آیا تو بد نام اداکارہ کا چہرہ دکھلایا اور جب حضرت علیؓ جیسی پاکیزہ شخصیت کا نام آیا تو اداکارہ کے شوہر کا چہرہ دکھلایا۔ اس توہین آمیز بد تہذیبی اور انتہا درجے کی بد ذوقی نے اہل پاکستان کو آگ بگولہ کر دیا، سراپا احتجاج بنا دیا اور مذکورہ چینل کو بند کرنے کے لیے یک آواز کر دیا۔
مذکورہ چینل کا طرز عمل گزشتہ ایک عرصہ سے کچھ ایسا چل رہا ہے کہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو پیش کرنے کے لیے نیم برہنہ ماڈلز کو رول دیا جا رہا ہے۔ اسلام جو فحاشی اوربے حیائی سے روکتا ہے جب اسی کو ایسے لوگوں سے پیش کروایا جائے جو بدنام ہوں، تو بتلائیے اس سے بڑھ کر بد ذوقی کیا ہوگی۔ اس بد ذوقی کو نہ حکومت نے روکا، نہ پیمرا نے ٹوکا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بات حضرت زہراء ؓ تک آگئی۔ میں سمجھتا ہوں ہم اہل پاکستان اس قدر بد قسمت ہیں کہ کسی بھی معاملے میں ہم جب تک آخری حد کراس نہیں کرتے، اور پھر اس پر بھرپور احتجاج نہیں کرتے، نہ تو ہمارا کوئی متعلقہ ادارہ حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی قانون جنبش دکھلاتا ہے۔ یہ طرز عمل بوسیدہ اور مریل معاشروں کا طرز عمل ہے اور ہم اس کا ایک عرصہ سے شکار ہیں۔ جس نے بھی اپنا حق لینا ہے یا مطالبہ منوانا ہے تو اسے اپنے مقتول کی میت کو گورنر ہائوس کے سامنے رکھ کر سینہ کوبی کرنا پڑتی ہے ،تب جا کر قانون انگڑائی لیتا ہے۔
جی ہاں! سوئی ہوئی انتظامیہ نے جمائی لیتے ہوئے انگڑائی لی، یقین دہانی کرائی اور پھر جوں جوں وقت گزرا، توں توں معاملہ ٹھنڈا ہوا اور لمبی تان کر قانون پھر سو گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ شہباز شریف پچھلے دور حکومت میں اور اب بھی جب ان کی حکومت سارے پاکستان میں ہے یہی کہتے دکھلائی دیتے ہیں ، میں خونی انقلاب دیکھ رہاہوں۔ افسوس کی بات ہے کہ انہیں خون نظر بھی آرہا ہے مگر طرز حکمرانی میں کوئی تبدیلی نہیں۔ وہی پرانا اور روایتی انداز ہے جو چلا جا رہا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں اہل پاکستان کا خون نظر آتا ہے اور اپنا جہاز دکھلائی دیتا ہے تو دبئی اور انگلینڈ میں لینڈ کرتا دکھلائی دیتا ہے ؟ میں کہتا ہوں لیڈر وہ ہے کہ اس کو جو نظر آئے ، اخلاص دل کے ساتھ اس کا مداوا کرے۔ آئیے! بسم اللہ کریں۔ حضرت فاطمہ بتولؓ کی حرمت کے تحفظ سے آغاز کریں اور بڑھتے چلے جائیں، کوئی وجہ نہیں کہ ہم کامیاب نہ ہوں۔ ان شاء اللہ ۔