عبد اللہ بن ابی نے اللہ کے رسول حضرت محمد نبی کریم ﷺکا کلمہ پڑھ رکھا تھا۔ وہ نماز بھی پڑھتا تھا اور جہاد میں حضورؐ کا ہمسفر بھی بن جایا کرتا تھا،مگر مخالفت کا بہانہ وہ تراش لیا کرتا اور ہر موقع پر حضورؐ کی مخالفت ضرور کیا کرتا تھا۔ یہ جہاد ہی کا سفر تھاجس میں اس نے مہاجرین اور انصار کو لڑانے کی کوشش کی۔ اپنے لوکل ہونے پر فخر کیا اور مہاجروں کے لیے ذلیل جیسے الفاظ سے استعمال کیے، مگر حضورؐ نے برداشت کیا۔ عبداللہ بن ابی نے جنگ احد میں جاتے ہوئے راستے سے اپنے لوگوں کو مسلمان لشکر سے الگ کر لیا اور بہانہ یہ تراشا کہ ہماری رائے تسلیم نہیں کی گئی اور مدینہ میں لڑنے کی بجائے لشکر احد کی جانب بھیج دیے لہٰذا ہم نہیں لڑیں گے۔ حضورؐ نے یہ طرز عمل بھی برداشت کر لیا۔ ان لوگوں نے ایک جنگ سے واپسی پر حضرت عائشہؓ پر تہمت لگادی‘ سرکار مدینہ کے گھر کو نشانہ بنا دیا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضورؐ نے اس کو بھی برداشت کر لیا۔اسی طرح یہ لوگ اقتدار کی حرص میں بیرونی اور اندرونی طاقتوں سے ساز باز بھی کرتے۔ حضورؐایسی سازشوں کا تدارک ضرور کرتے مگر طاقت استعمال نہیں کی، برداشت ہی کرتے رہے، حتی کہ جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا تو حضورؐ نے اپنا کرتہ مبارک بھی اسے پہنا دیا۔ جنازہ بھی پڑھا دیا اور قبر میں بھی لٹا دیا۔ یہ طرز عمل حوصلے اور برداشت سے بہت آگے بڑھ کر کمال رحمت و شفقت کا حامل طرز عمل تھا جو حضورؐ جیسی ذات گرامی ہی کر سکتی تھیں ۔ میں جب ایک ادنیٰ سیرت نگار ہونے کی حیثیت سے مندرجہ بالا طرزعمل کا تجزیہ کرتا ہوں توواضح یہی ہوتا ہے کہ مدینہ کے شریر لوگوں کا ہر برا طرز عمل اس لئے برداشت کیا گیا کہ ان لوگوں نے براہ راست ہتھیار اٹھا کر ریاست مدینہ کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا۔ سٹیٹ نے ان کو برداشت کیا اور حضورؐ نے انسانی تاریخ میں برداشت اور حوصلے کی نئی اور انمٹ تاریخ رقم فرمائی۔ اس کے برعکس جب لوگوں نے مدینہ میں اٹھائے گئے اپنے حلف کو توڑا اور سرکاری چراگاہ لو ٹنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کو شہید کیا اور جانور بھی لے گئے تو حضورؐ نے سٹیٹ کی اتھارٹی کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا۔مجرموں کو گرفتار کیا۔مخالف سمت سے ہاتھ پائوںکاٹ کرانہیں مرنے کے لیے تپتے ریگستان میں پھینک دیا... اسی طرح مدینے میں یہودی قبائل نے اتھارٹی کو چیلنج کیا۔ ہتھیار اٹھا کر لڑنے کا اعلان کیا تو حضورﷺ نے سب پر قابو پا کر کسی کو جلاوطن کر دیا اور کسی قبیلے کے تمام جنگجو افراد کو سرعام قتل کر دیا‘ یعنی جب سٹیٹ کی اتھارٹی کو چیلنج ہوا تو حضورﷺ نے یہاں برداشت کا لیول زیرو کر دیا... اور اس زیرو لیول میں رحمت اور شفقت ان شہریوں کے لیے کی ، جو مدینے میں پُرامن زندگی گزار رہے تھے۔
میں جب حضور نبی کریمؐ کا طرزِ حکمرانی دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ آپؐ نے بااختیار ہو کر بھی رائے عامہ کا بہت خیال رکھا۔ مثال کے طور پر جب عبداللہ بن ابی کے جرائم کی وجہ سے اس کے قتل کی تجویز آئی تو حضورؐ نے فرمایا: لوگ کیا کہیں گے محمد(ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا ہے؟ یعنی بے شک اس کے قتل کی گنجائش موجود ہے مگر رائے عامہ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح حضورؐ نے جب مکہ فتح کیا تو فرمایا کہ دل تو چاہتا ہے کہ کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر نئے سرے سے تعمیر کر دوں مگر نئے نئے مسلمان کہیں گے کہ محمد(ﷺ) سب کچھ ہی بدل رہے ہیں... یہاں بھی نومسلموں کی رائے کو ذہن میں رکھا کہ کہیں وہ آزمائش سے دوچار نہ ہو جائیں یعنی حکمران کا فرض ہے کہ وہ رائے عامہ کو اپنے سامنے رکھے۔ حضورﷺ نے تو آخرت کے معاملات میں بھی رائے عامہ کو یہ فرما کر اہمیت دے دی کہ جس شخص کو تم سارے لوگ نیک کہو وہ جنتی ہے اور جس کو تم لوگ برا کہو وہ جہنمی ہے کیونکہ تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔ میں سوچتا ہوں اللہ نے اپنے نبی کی پاک زبان سے اپنے الہامی جملوں کو نکلوا کر اپنے بندوں کو بتلا دیا کہ رائے عامہ کی کیا اہمیت ہے۔
پاکستان میں جگہ جگہ ہونے والے حملوں کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے والوں نے کبھی نہ سوچا کہ وہ جو کر رہے ہیں‘ رائے عامہ پر
اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ انہوں نے اپنی پہچان اسلامی بتلائی لیکن بچیوں کے سکولوں کو کھنڈرات بنانا شروع کر دیا۔ عورتوں اور بچیوں پر حملوں کی ذمہ داری کو قبول کیا‘ وہ کہ جنہیں حالتِ جنگ میں بھی حضورﷺ نے قتل کرنے سے منع کیا مگر یہاں غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ایک پُرامن ملک میں مارے جا رہے تھے۔ وہ سوال کرتے تھے‘ ہمارا جرم کیا ہے؟مگر جرم بتلانے والا کوئی موجود نہ تھا۔ مسجدوں میں نمازی مار دیے گئے۔ یہ کہاں کی اسلامی پہچان تھی؟ تاجر بھتے کی نذر ہو گئے‘ جو نہ دے سکے مار دیے گئے۔ گرجا کے اندر مسیحی مرد، عورتیں اور بچے مار دیے گئے۔ ذمیوں کے بارے میں حضورﷺ کا جو فرمان تھا وہ کہاں چلا گیا... ؟ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب رائے عامہ اپنے حکمرانوں کے خلاف ہو رہی تھی‘ اس لیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟
فوج اور حکومت نے پھر بھی مذاکرات کیے، مذاکرات کے دوران جب بڑے بڑے حملے ہوئے تو رائے عامہ مذاکرات کے بھی خلاف ہو گئی‘ لہٰذا اس موقع پر پاک فوج نے آپریشن شروع کر دیا... آپریشن شروع ہوتے ہی پنجاب حکومت نے لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو جس طرح خاک و خون میں تڑپا دیا اور گلو بٹ نے جو منظر دکھلایا اس سے رائے عامہ اب بہرحال یہ بن گئی ہے کہ سیاسی حکمران جھوٹ بولتے ہیں اور دہشت پسند لوگوں کو ٹائوٹ بنا کر من مانی حرکتیں کرتے ہیں۔ رائے عامہ اب بہرحال حکمرانوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
میاں شہباز صاحب جسے خونی انقلاب کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیںکہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اب یہ سب کو نظر آنے لگ گیا ہے ...اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک عزیز میں حکمران طبقوں کاجو 'سٹیٹس کو‘ ہے (میں اسیــــــ 'جامد مفاداتی‘ رویہ کہوں گا) اسے توڑنا ہو گا ملک کے بہی خواہوں کو مل بیٹھنا ہوگا۔صاف ستھری شہرت کے حامل اور قا بل لوگوں کو کچھ عرصہ کے لئے اس ملک کی عنان دینا ہو گی۔شفاف اور تیز ترین عمل کے ذریعے مجرموں کو سرعام سزائیں دینا ہوں گی۔ملک دشمنوں کے لیے حضورؐ والا رویہّ اور انداز اختیار کرنا ہوگا۔
یاد رہے! یہ کام دنیا کے لالچی لوگ اور مردار خور نہیں کرسکتے۔پاکیزہ بندے ڈھونڈے جائیں وہ ہمارے معاشرے میں ہر سو موجود ہیں...ان سے کام لیا جائے۔ صحتمند اختلاف کا کلچر اپنایا جائے۔ برداشت اور حوصلے کو رواج دیا جائے،وہی برداشت اور حوصلہ جس کا مظاہرہ ہمارے حضورؐ نے کیا...میں سمجھتا ہوں کہ فوج کے آپریشن کے بعد ملک میں ایک ایسے سول آپریشن کی بھی سخت ضرورت ہے۔بقول میاں شہباز شریف کے خونی انقلاب سے بچنے کے لیے ہمیں کوئی راستہ ڈھونڈنا ہوگا...اختیار کرنا ہوگا...دیر کرنا اب قابل برداشت نہیں ہے۔