بھارت کے وزیراعظم جناب مودی نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرلیا۔ انہی دنوں میں ڈاکٹر وید پرتاپ پاکستان کا دورہ کر گئے۔وہ بھارت کی خارجہ امور کونسل کے چیئرمین ہیں۔معروف صحافی ہیں اور بی جے پی میں ہندتوا پالیسی کے ماہر اور استاد مانے جاتے ہیں۔پاکستان کے ایک بڑے اخبار روزنامہ ''دنیا‘‘ میںان کا کالم بھی شائع ہوتا ہے۔وہ خود لکھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر انہوں نے میاں محمد نواز شریف سمیت حکمرانوں ،اپوزیشن راہنمائوں ،سابق جرنیلوں ، صحافیوں اور دانشوروں سے ملاقات کی اور ان کی آرا حاصل کیں۔بعد میں دنیا کو معلوم ہوا کہ وہ جماعت الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید سے بھی ملاقات کر گئے ہیں۔ اس ساری مشق سے یہ ثابت ہوا کہ بھارت کے وزیر اعظم اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر کے مسئلے پر اپنی جائزہ رپورٹ مرتب کر رہی ہے ۔اس کے بعد اسے فیصلہ کرنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے سے کس طرح نمٹا جائے کیونکہ وہ اس متنازع مسئلے سے نکلے بغیرعلاقے کی معاشی طاقت نہیں بن سکتا۔
بھارت اور بیرون ملک بعض ملٹی نیشنل کمپنیوں نے جو اربوں روپیہ بی جے پی کو جتوانے کے لیے خرچ کیا ہے، اس میں سر فہرست یہ بات ہے کہ بھارت متنازعہ مسائل سے نکل کر پُر امن ملک بننے کی راہ پر چلے۔یہ پُر امن راہ کشمیر کے مسئلے کو حل کیے بغیر ممکن نہیں،لہٰذا بی جے پی سب سے ملاقاتیں کر کے جائزہ رپورٹس مرتب کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ادھردنیا کی پانچ ترقی پذیر معاشی
طاقتوں ، نے ''برکس‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنارکھی ہے اور انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے متوازی ایک فنڈ قائم کرلیا ہے۔ اس تنظیم میں چین، روس ،بھارت ،برازیل اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ بھارت کو اس تنظیم کے فنڈ کا صدر بنایا گیا ہے۔ہیڈ کوارٹر شنگھائی میں ہے۔ تمام ملکوں کے سربراہ ''فورٹا لیزا‘‘ میں اکٹھے ہوئے اور ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر اکٹھے چلنے کا عزم کیا ہے۔برکس کے فنڈکے صدر کی حیثیت سے بھی بھارت اب معاشی ترقی کے لیے امن کا زیادہ دلدادہ بنتا نظر آرہاہے۔
برکس کے پانچ ملکوں میں سے تین روس، چین اور بھارت کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں بھارت سے گئے ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ مہاتما گاندھی کا تعلق بھی جنوبی افریقہ سے ہی تھا ۔ یوں بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین ایک گہرا تعلق ہے۔ پانچواں ملک برازیل ہے جوبراعظم جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے اورمعاشی اعتبار سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔یہ پانچوں ملک امریکہ اور یورپ کے مقابلے پر ایک عرصہ سے ہیں مگر ان میں بھارت کاکردار ایسا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ سے بھی مفاد لیتاہے اور اپنے مذکورہ گروپ سے بھی فوائد حاصل کرتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بھارت کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے کشمیر کے مسئلے میں بھارت کا ساتھ دیتے ہیں اور جب بھارت ان سے ذرا دور ہونے لگتا ہے اوران سے دفاعی سازو سامان خریدنے سے کنی کتراتا ہے تو امریکہ اور یورپی یونین اپنے اداروں میں کشمیر کے مسئلے کو زندہ کر لیتے ہیںاور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی مزاحمتی قوتوں سے ڈراتے ہیںاور بھارت کا پیسہ حاصل کرنے کے لیے اسے خوفزدہ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھارت گو مگو کی حالت میں ہے ،لہٰذا اس بار جناب نریند رمودی اس گو مگو اور تذبذب سے نکلنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر کیسے؟
ان کے لیے دو راستے ہیں ،ایک یہ ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کریںاور وہاں کشمیری پنڈتوں کے نام سے ہندوئو ں کو آباد کریں ،ظلم اور سختی میں اضافہ کریں ، آٹھ لاکھ فوج کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہوئے بے پناہ پیسہ خرچ کریں۔ یوں بد امنی عروج پر ہوگی ،معاشی اہداف کوسوں دور ہوں گے اور مودی سرکار اس دلدل میں دھنستی چلی جائے گی۔ جب یہاں سے آٹھ لاکھ فوج نکل جائے گی اور کشمیر کا مسئلہ نہ رہے گا تو بھارت معاشی 'جن‘ بننے کی شاہراہ پر دوڑنا شروع کردے گا...مگر جناب مودی کو یہ بات پیش نظر رکھنا ہوگی کہ دن بدل چکے ہیں۔امریکہ کے افغانستان سے جانے میں صرف پانچ ماہ باقی رہ گئے ہیںاور بقول کلدیپ نائر بھارت نے تیزی سے قدم نہ اٹھائے، پاکستان کو اعتماد میں نہ لیا تو جنگجو اٹاری میں ہوں گے۔
یاد رہے! قوت کے استعمال کے فیصلے کرتے ہوئے طاقتیں نتیجے بھی مرتب کرلیتی ہیں لیکن نتیجہ کس نے دیکھا ہے؟ امریکہ بھی جب افغانستان میںآیا تو جائزہ رپورٹ کانتیجہ فتح تھی مگر آج جو اس کے برعکس نتیجہ آیا ہے اس کا اعلان خود امریکہ کے اداروں نے اس طرح کیا ہے کہ امریکہ نے جب افغانستان میں جنگ کا پروگرام بنایاتو ابتدائی خرچ کا اندازہ100ارب ڈالر یا قدرے زائد تھا ۔۔۔۔ یہ خرچہ اتنا تھا کہ بانٹا جاتا تو ہر امریکی گھرانے کو ایک لاکھ ڈالر سے قدرے کم ملتے یعنی تیس کروڑ کی امریکی آبادی کے ہر گھرانے کو ایک کروڑ روپیہ پاکستانی دیا جا سکتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلاہے کہ افغانستان اور عراق کی امریکی جنگ میں پندرہ لاکھ ساٹھ ہزار امریکی فوجی زخمی ہو چکے ہیں ۔دونوں ملکوں میں لڑنے والے کل فوجیوں میں سے پچاس فی صد کو پینٹاگان نے معذور تسلیم کر لیا ہے ۔مزید المیہ یہ ہے کہ ہر دوسرے فوجی نے معذور تسلیم کرانے کی درخواست دے رکھی ہے۔ ایک تہائی نفسیاتی اور ذہنی مریض ہیں۔ ایک سو چالیس ارب ڈالر زخمی فوجیوں کا سالانہ خرچہ ہے جوآئندہ چالیس پچاس سالوں تک امریکی معیشت کی جان نہیں چھوڑے گا۔ ان زخمیوں میں سات ہزار کے قریب فوجی وہ ہیں جن کی کھوپڑیاںچٹخ گئی ہیں۔جن کی پسلیاں، ریڑھ کی ہڈیاں متاثر ہیں۔
موجودہ علاقائی ٹرننگ پوائنٹ پر مستقبل کا ایک نقشہ تو بھارت کے لیے واضح اور متوقع ہے جبکہ دوسرا یہ ہے کہ جناب وزیراعظم مودی اپنی جائزہ رپورٹ پہ غور کرتے ہوئے یہ تاریخ ساز فیصلہ کریں کہ کشمیر کے لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت دے دیں۔نتیجے میں برصغیر پُر امن ہو جائے گا۔پاکستان کے ذریعے بھارت کے لیے وسط ایشیا کا دروازہ کھل جائے گا۔ گوادر کی بندرگاہ جسے چین بنا رہا ہے اور برکس میں بھارت چین کے ساتھ کھڑا ہے، بھارت اس سے فائدہ اٹھاسکے گا۔ آٹھ لاکھ فوج اس کی فارغ ہو جائے گی۔ امریکہ اور یورپی یونین کی بلیک میلنگ سے آزاد ہو جائے ،تو بھارت بھی ایک معاشی جن بن جائے گا ۔پاکستان بھی خوشحالی کی طرف سرپٹ دوڑنا شروع کر دے گا۔ نریندر مودی صاحب ،جن کا ماضی گجرات کے حوالے سے سخت داغدار ہے ، اپنی قوم میں اہنسا کے تیاگی بن جائیں گے۔ دوراہے پر کھڑے مودی صاحب کا انتظار ہو رہا ہے۔تاریخ منتظر ہے کہ وہ کس راہ پر چلتے ہیں۔ جلد ہی ایک راستے پرانہیں بہر حال قدم اٹھانا ہو گااور پھر نتیجہ تاریخ نکالے گی۔ہم سب زندہ رہے تو اسے ضرور دیکھیں گے (انشاء اللہ)