عمران خان جب الیکشن مہم میں زخمی ہو کر اپنے ہی شوکت خانم ہسپتال میں پہنچے تھے تو میں چند دن بعد ان کی عیادت کے لیے پہنچا۔خان صاحب سے الوداع ہوتے ہوئے عرض کی تھی ، صوبہ خیبر پختون خواکو مثالی حکومت کا نمونہ بنا دیجیے، آئندہ پورے ملک کی حکومت آپ کے ہاتھوں میں ہو گی۔ رمضان سے قبل مجھے ما لا کنڈ ایجنسی،بٹ خیلہ، دیر کے دیہات اور سوات میں جانے کا موقع ملا۔ میں نے شہریوں اور دیہاتیوں سے ایک ہی سوال کیا کہ صوبے میں امن و امان اور کرپشن وغیرہ کی کیا صورت حال ہے؟ تو مجھے ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملا، کہ صوبے میں امن و امان کی حالت بہتر ہے۔ ڈاکے اور چوریاں کروانے والے با اثر لوگوں کو نتھ ڈالی گئی ہے۔ پولیس کے لیے سخت پیغام ہے لہٰذا کرپشن میں بہت کمی ہوئی ہے۔ قبضہ گروپ کو بھی کارنر کر دیا گیا ہے۔ ان اچھے اقدامات پر میر ااگلا سوال یہ تھا: اس کا مطلب ہوا آئندہ بھی خان صاحب کو ووٹ ملیں گے؟جواب ہاں میں تھا۔اس عوامی رائے کے ساتھ ساتھ لوگ کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل بھی چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلدیاتی انتخابات محترم خان صاحب نہیں کروا سکے۔ ایک ٹی وی ٹاک میں انہوں نے بلدیاتی نظام کی افادیت پر بہت کچھ فرمایا تھا مگر اس حوالے سے وہ فی الحال مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی کھڑے ہیں ،تا ہم، جو اچھے اقدامات کیے ہیں ان سے بھی وہ پورے پاکستان کو آگاہ نہیں کرسکے۔ اسلام آباد میں صحافیوں اور سیاستدانوں کی ایک تقریب میں پی ٹی آئی کے اہم اور دانشورلیڈر اسد عمر صاحب سے میں نے یہی عرض کی کہ آپ کے لوگ اپنے جلسوں میں اگر شائستہ زبان استعمال کر لیتے اور اپنی کارکردگی سے لوگوں کو آگاہ کرتے تو کیا ہی خوب ہوتا۔ عمر صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا مگر اس حوالے سے ابھی تک کوئی کارکردگی سامنے نہیں آسکی۔
اس حقیقت میں تو اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ حالیہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔ان کے متنازعہ ہونے میں ابھی مزید اضافہ ہو گا۔ خان صاحب یقینا حقائق لے کر بیٹھے ہیں، جب وہ ان کا انکشاف کریں کے تو تنازعہ بڑھے گا۔ میاں نواز شریف صاحب کے لیے ڈیڑھ سال کی مدت اچھی خاصی مدت تھی۔ انہوں نے اگر کوئی کارکردگی دکھائی ہوتی تو پاکستان کے لوگ جو پچھلی پانچ سالہ حکومت اور اس سے پہلے والوں کے ہاتھوںستائے ہوئے تھے، اس دھاندلی پرکان نہ دھرتے اور سمجھتے کہ جب حکومت دیانتداری سے ہمارے مسائل حل کر رہی ہے تو ہم مہم جوئی کا حصہ کیوں بنیں ؟مگر بد قسمتی سے مسلم لیگ ن ایسا نہیں کر سکی۔
اس وقت چودہ اگست کو سامنے دیکھ کر وزیر اعظم اور ان کے وزرا ء ترقی اور خوشحالی کے بے جان اور پھوکے فائر کر رہے ہیں جو عوام کے سروں سے کئی گز اوپر سے گزر جاتے ہیں ،اس لیے کہ زمینی حقائق کے ساتھ ان بیانات کا کوئی تعلق نہیں۔ میاں نواز شریف اگر اپنے خیرخواہ ہیںاور کوئی خیر خواہ مشیر بھی ان کو مل گیاتو وہ خطاب جو انہوں نے چودہ اگست کو کرنے کا پروگرام بنایا ہے ، تاریخ کا دھارا بدلنے والابھی ہو سکتاہے ۔مثال کے طور پرــــ۔۔۔۔!
''میرے عزیز ہموطنو! میں جب سے برسراقتدار آیا ہوں، میں نے آپ سے کوئی خطاب نہیں کیا۔ میں اس پر معذرت خواہ ہوں ۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں غلطیاں ہی دہراتا رہااور روایتی جمود کا شکار رہا۔میں اس پر بھی معافی مانگتا ہوں۔ آج میں نے بعض انقلابی اور جمہوری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ آغاز اپنی ذات سے کرنے لگا ہوں۔ میں نے اپنی بیٹی مریم کو جو 100ارب روپے دے کر ایک ادارہ قائم کر کے اس کا سربراہ بنا دیا تھا۔ اس ادارے کو سرے سے ختم کررہا ہوں ۔ میاں شہباز شریف کا بیٹا حمزہ شہباز صرف ایک ایم این اے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے گا۔ اسحاق ڈار صاحب چونکہ میرے رشتہ دار ہیں اس لیے میں ان کو بھی ہٹا رہا ہوں اور نیا وزیر خزانہ صلاحیت کی بنیاد پر بنا رہا ہوں اور اس تاثر کو ختم کررہا ہوں کہ میں نے اپنے خاندان کی حکومت بنا ڈالی ہے۔ اسی طرح خواجہ سعد رفیق کو بھی میں نے کہہ دیا ہے کہ سلمان رفیق تمہارا بھائی ہے، تم دونوں میںسے ایک کو مستعفی ہونا ہوگا۔ جب میں خود اپنے خاندان کی اجارہ داری ختم کررہا ہوں تو اپنے ساتھیوں میں بھی اس کو باقی نہیں رہنے دوں گا۔ہاں! البتہ میرے بھائی میاں شہباز شریف ایک لائق فائق مانے ہوئے سیاستدان اور منتظم ہیں تو میرٹ کی بنیاد پر وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔
عزیز ہم وطنو! سوئٹزر لینڈ جیسا ملک بھی دنیا بھر کے عوامی پریشر کو برداشت نہیں کر سکا، اس لیے کہ دنیا بھر کے لٹیرے حکمران اور سیاستدان عوام کا لوٹا ہوا مال ان کے بینکوں میں جمع کراتے ہیں اور عوام بھوک سے مرتے ہیں ،چنانچہ اس ملک کی پارلیمنٹ2010ء میں یہ قانون بنا چکی ہے کہ ہم لوٹی ہوئی یہ رقم متعلقہ ملک کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ہمارا وہاں دو سو ارب ڈالر موجود ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے اس پیسے کو واپس لانے کی بات کی اور پھر مدت بھی بتلادی کہ چار سال لگ جائیں گے۔ میں آپ سے اس بات کی معافی مانگتا ہوں کہ ہمیں برسراقتدار آتے ہی مذکورہ رقم کو حاصل کرنے کی درخواست دینا چاہیے تھی،مگر ہم نے ڈیڑھ سال ضائع کر دیا۔ اب ہم یہ درخواست دے چکے ہیں اور اب چار سال نہیں لگیں گے ،محض چار مہینوں میں دو سو ارب ڈالر ہمیں واپس مل جائے گا۔یہ آپ کا پیسہ ہے ۔ اس میں سے 100ارب ڈالرقرضے کی ادائیگی میں دے دیا جائے گایوں اورہمارا وطن عزیز قرضے کی سودی لعنت سے پاک ہو جائے گا، باقی سو ارب ڈالر سے ہم اپنے ملک میں منصوبے بنائیں گے اور آپ جلد ہی ملک بھر میں خوشحالی کا دور دورہ دیکھیں گے۔
بجلی کے سلسلہ میں ہم نے جو وعدے کیے تھے ، ان کو عملی جامہ پہنانے کا جو صحیح ٹریک تھا ،اسے ہم نے اختیار نہیں کیا ۔ میں اس کی معافی مانگتا ہوں اور اس ضمن میں اقدامات کا اعلان کرتا ہوں۔ میری حکومت نے آتے ہی بجلی کی کمپنیوں کو جو پانچ ارب روپے گردشی قرضوں کے نام پر دیے ،وہ سراسر غلط تھے۔ اب اتنے ہی گردشی قرضے مزید چڑھ گئے ہیں ۔ملک میں بجلی کی کوئی کمی نہیں یہ صرف اور صرف ہم حکمرانوں کے خود سے کیے ہوئے معاہدے ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کو دکھوں اور پریشانیوں سے دو چار کر دیا ہے۔مثال کے طور پر اگر ایک تھرمل پاور ایک ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو ہم نے یہ ملک اور عوام دشمن معاہدہ کیا کہ وہ دس واٹ بھی بنائے گا تو ہم پیسے ہزار میگاواٹ کے دیں گے ، کیونکہ ان کمپنیوں کو ڈیزل دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔اب بدیانتی یہ کہ ڈیزل کم دو تاکہ پیسے کمپنیوں کو پورے ملیں۔اس رقم میں پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ بہرحال! میں آج سے ان ملک دشمن معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ پاور پلانٹ حکومت پاکستان کے تھے ،جو اونے پونے داموںبیچے گئے ۔اب یہ حکومت کی ملکیت میں ہیں۔ لہٰذا اب بجلی کی کوئی کمی نہیں ہے،جو کمی ہے اسے ہم ہائیڈل منصوبوں سے پورا کریں گے۔
عزیز ہم وطنو! ہم نے ایک نیا بل تیار کر لیا ہے۔ یہ اسمبلی میں فورا ًپیش ہوگا۔ اغواء برائے تاوان کے مجرموں، ڈاکوئوں ،قتل کے مجرموں اور دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث مجرموں کو سر عام لٹکایا جائے گا۔ عدل کے نظام کو تیز اور رشوت و سفارش سے پاک کرنے کا بھی اعلان کرتا ہوں ۔مجھے صرف چار مہینوں کا وقت دیجیے۔ میں مذکورہ اقدامات کر کے آپ سے پھر مخاطب ہوں گا اور اگر میں اپنے بیان کیے ہوئے اقدامات پر عمل نہ کر سکا تو اگلے مڈ ٹرم الیکشن کا اعلان کر دوں گا۔ اسلام زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد۔‘‘