"AHC" (space) message & send to 7575

غزہ سے غزوہ کی نوید

1967ء میں اسرائیل اور عربوں کے درمیان جب جنگ ہوئی تو عالم عرب میں سے بڑا اور طاقتور ملک مصر تھا۔ اس کا صدر جمال عبدالناصر تھا۔ اس نے عرب قوم پرستی کا نعرہ لگا رکھا تھا۔ قوم پرستی میں وہ اس قدر گہرائی میں گرا کہ اس نے مصری قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اے فرعون کے بیٹو! اسرائیل اور موسیٰؑ کے بیٹو! (یہودیوں) پر ٹوٹ پڑو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مصر کے تمام جہاز ایئر پورٹوں پر کھڑے کھڑے آناً فاناًاسرائیل نے تباہ کر ڈالے۔ آج بھی قاہرہ کے ہوائی اڈے پر یہ تباہ شدہ فائٹر اور مسافر طیارے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مصر سے صحرائے سینا کا کچھ علاقہ اور ''غزہ‘‘ بھی چھین لیا۔ اسرائیل نے اسی غزہ میں فلسطینیوں کو القدس وغیرہ سے دھکیل کر یہاں محصور کر دیا۔ یہ بیالیس کلو میٹر لمبا ہے اور تیرہ چودہ کلو میٹر چوڑا ہے۔ اسرائیل نے اس علاقے کی سمندری حدود کی بھی ناکہ بندی کر رکھی ہے جبکہ خشکی کے علاقے میں کنکریٹ کی مضبوط دیوار بنا کر اسے ایک جیل کی شکل دے دی ہے۔
حالیہ جنگ میں اسرائیل نے بمباری کر کے جس طرح شہری آبادی کو تباہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، مہینہ ہو چکا، لگا تار ساٹھ ہزار، بموں کے حملوں سے عورتوں اور بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا ہے، ہر بم سے ایسے دھاتی کیل ہزاروں کی تعداد میں نکل کر انسانی جسموں میں پیوست ہوتے ہیں کہ جنہوں نے کنکریٹ میں بھی سوراخ کر دیئے وہاں معصوم بچوں کے نازک جسموں کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ پھر ہسپتالوں پر حملے، مساجد اور یو این کی پناہ گاہیں بھی یہودی درندگی کا شکار ہوئیں۔ جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑ گئیں۔ امریکہ نے اسلحہ کی سپلائی جاری رکھ کر دہشت گردی کی انتہا کر ڈالی۔ سارے یورپ کا حکمران طبقہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا انسانی المیوں کو دیکھتا ہے اور کمال دلیل دیتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ عرب دنیا جو اسرائیل کے اردگرد ہے خاموش ہے۔ مصرنے اپنی طرف کھلنے والا رفح کراسنگ کا راستہ پہلے ہی بند کیا ہوا ہے۔ وہاں کا موجودہ حکمران جمال عبدالناصر کا کردار دہرا رہا ہے۔ شام، لبنان، عراق میں کلمہ پڑھنے والے آپس کی لڑائیوں میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ غزہ کا کسی کو ہوش نہیں۔
میں سلام پیش کرتا ہوں کہ غزہ کی جیل میں بند، بے یارومددگار حماس کے عام لوگوں نے صبر اور ثبات کی حد کر دی ہے تو جوان شیروں نے اسرائیل کو بے بس کر دیا ہے۔ اللہ کے ان شیروں نے غزہ سے کوئی تین ہزار کے لگ بھگ سرنگیں نکالی ہیں۔ یہ سرنگیں اسرائیل میں جا نکلتی ہیں۔ صحرائے سینا میں جا نکلتی ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیں، بے وسیلہ لوگوں نے کتنی محنت اور جانفشانی سے یہ سرنگیں نکالی ہوں گی۔ حماس کے ترجمان کے مطابق مجاہدین نے گویا یہ سرنگیں اپنے ناخنوں سے کھودی ہیں۔ یعنی انسانی محنت اور جدوجہد بے مثال ہے۔ حالیہ جنگ میں فلسطینی گوریلے ان سرنگوں سے ہو کر اسرائیلی علاقوں میں نمودار ہوئے اور فوجیوں کی چیک پوسٹوں اور چھائونیوں پر حملہ آور ہوئے، اسرائیلی فوجی قتل کئے اور خود لڑتے لڑے شہید ہو گئے۔
اسرائیل نے ٹینکوں اور جنگی گاڑیوں کے ساتھ غزہ پر چڑھائی کی متعدد بار کوشش کی اور حماس کے جنگجوئوں نے بے مثال قربانیاں دے کر فوج کی پیش قدمی کو روکا۔ ساتھ ساتھ راکٹ بھی فائر کئے۔ یہ راکٹ حماس کے فائر بریگیڈ نے بنائے ہیں جس کا نام القسام بریگیڈ ہے۔ یہ راکٹ اسرائیل میں ہر جگہ مار کر رہے ہیں، اگرچہ امریکہ کے دیئے ہوئے اینٹی میزائل سسٹم سے یہ ناکارہ بنا دیئے گئے تاہم اسرائیلیوں کی نیندیں انہوں نے حرام کر رکھی ہیں۔ پورے اسرائیل میں رات دن بجتے سائرن اور الارم نے بزدل اسرائیلیوں کو احتجاج پر مجبور کر دیا ہے جو وہ اپنی حکومت کے خلاف کر رہے ہیں۔
حماس کے گوریلوں کی جدوجہد کے نتیجے میں اب تک حماس کی رپورٹ کے مطابق ایک سودس یہودی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ستر کا اعتراف اسرائیل بھی کر چکا ہے۔ کس قدر فرق ہے کہ اتنے ظلم کے باوجود حماس کے لوگوں نے عام یہودیوں کو نہیں مارا۔ دوسری جانب سرنگوں کے اندر حماس کی قیادت اور ان کے کمانڈر محفوظ ہیں، یوں اسرائیل ابھی تک نہ تو سرنگیں تباہ کر سکا اور نہ حماس کی طاقت اور ان کی قیادت کو نقصان پہنچا سکا۔ تین سو کے قریب سرنگیں تباہ کرنے کا اسرائیلی دعویٰ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل کا جو ہدف تھا اسے نشانہ بنانے میں ناکام رہا۔ ہاں البتہ! عورتیں، بچے، عام لوگ، مکانات، مساجد اور سکول وغیرہ اس نے تباہ کر دیئے لیکن اس تباہی کی قیمت اسے یوں ادا کرنا پڑ رہی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے عام لوگ بھی مظاہروں کے ذریعے اپنے حکمرانوں پر برس رہے ہیں، پریشر ڈال رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔
اسرائیل کی سول آبادی بھی اس قدر انسانیت دشمن ثابت ہوئی ہے کہ غزہ سے قریب ایک بلند پہاڑ جو اسرائیل میں ہے وہاں یہ یہودی لوگ اپنے بچوں اور عورتوں کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لے جاتے ہیں اور جب اسرائیلی طیارے بمباری کرتے ہیں تو یہ خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں یعنی یہ آتش بازی کا منظر خیال کر کے مسلمان بچوں کے مرنے کا نظارہ کرتے ہیں۔ ان کے اخبارات انگریزی اور عبرانی دیکھیں تو وہ مذاق اڑاتے ہیں کہ تم جنت میں اپنے نبی محمدﷺ کے پاس پہنچ رہے ہو۔ ہم تم سب کو وہیں پہنچائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورتوں اور بچوں پر بمباری کے جرم میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ساتھ وہاں کی سول آبادی بھی شامل ہے۔ یوں اس پر اسرائیل کے باسیوں کا انسانیت کش اور انتہائی بھیانک چہرہ ایک نئے انداز سے سامنے آیا ہے۔
اسرائیل کے جو فوجی مارے جا چکے ہیں اور مارے جا رہے ہیں اس سے اسرائیلی لوگ انتہائی پریشان ہیں۔ اس فوجی جانی نقصان اور اصل مقاصد حاصل نہ کر سکنے کی بنا پر اسرائیل اور امریکہ و یورپ کے دانشوران حالیہ اسرائیل غزہ جنگ کو اسرائیل کی ناکامی سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یوں اس پہلو سے غزہ کے جیل خانے میں بند تھوڑی سی چند لاکھ آبادی کے لوگوں نے مزاحمت اور قربانیوں کی وہ عظیم تاریخ رقم کر دی ہے کہ جو آنے والے وقت میں اسرائیل کی شکست کا پیغام ثابت ہو گا کہ جب غزہ کے مظلوم لوگوں کے ساتھ مسلمان بھی اسی طرح عملی طور پر مددگار بن جائیں گے جس طرح کہ آج امریکہ اور یورپ اسرائیل کے مددگار بنے ہوئے ہیں۔ تو پھر منظر کیسا ہو گا؟ یہ ہے غزہ سے ابھرنے والی وہ عظیم مزاحمتی سوچ اور نتیجہ جس نے اسرائیل اور اس کے ہمنوائوں کو پریشان کیا ہے۔ اللہ کرے اس پریشانی کا عملی رنگ اور مظاہرہ مظلوموں کے دیکھنے کو ملے۔ یقین یہی ہے کہ اس کا وقت آخرکار آ کر رہے گا۔ (ان شاء اللہ) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں