اللہ کریم کائنات کے خالق بھی ہیں اور حکمران بھی۔ ماضی، حال اور مستقبل کے زمانے ہم انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ کیلئے نہیں ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ بعض ایسے واقعات کو جو ہم انسانوں کے حوالے سے مستقبل میں ہونے والے ہیں، ان کا ذکر ماضی میں کر کے ہمیں بتلاتے ہیں کہ میرے علم میں یہ واقع ہو چکا... اس سب کے باوجود، اپنے بندوں پر اللہ کی حکمرانی کا جو انداز ہے وہ یہ ہے کہ بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ کا فرشتوں کو حکم ہے کہ اسے میرے بندے کے کھاتے میں بالکل نہ لکھنا جب تک کہ برائی کا ارتکاب نہ کر لے اور اگر ارتکاب کر لے تو ایک برائی کو ایک ہی لکھنا... اس کے برعکس اگر نیکی کا ارادہ کرے تو فوراً وہ نیکی لکھ لو اگرچہ وہ نیکی عمل میں ڈھلنے نہ پائے اور اگر نیکی کر لے تو اسے دس سے لے کر سات سو گنا تک لکھ لو۔ یہ ہے غیب کے جاننے والے رب کریم کی حکمرانی کا انداز جو ہمیں اللہ کے پیارے رسولﷺ نے بتلایا ہے۔
مدینہ منورہ میں اللہ کے رسولﷺ کی حکمرانی کا بھی یہی انداز تھا۔ شرارتیں یہود کی بھی تھیں اور منافقین کی بھی۔ حضورﷺ کو ان کے ارادوں کی خبریں بھی پہنچتی رہتی تھیں مگر حضورﷺ نے اس وقت تک کوئی اقدام نہیں کیا جب تک کہ مخالفین کی حرکتیں عمل میں ڈھل کر سامنے نہیں آ گئیں... اسی طرح حضرت عمرؓ جو اپنے وقت میں دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور حکمران بن گئے تھے، انہوں نے مدینے میں رہنے والے ایک فیروز نامی غیر مسلم کے بارے میں ایک فیصلہ کیا جو اسے ناگوار گزرا اور وہ بولا۔ میں اب ایسی ایک چکی
بنائوں گا جس کی گڑگڑاہٹ سارا جہان سنے گا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے صحابہؓ کے سامنے فرمایا کہ یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے گیا ہے... اب اتنا تو ضرور ہوا ہو گا کہ حضرت عمرؓ کی سکیورٹی قدرے بہتر کر لی گئی ہو۔ مگر یہ نہیں ہوا کہ اسے ایسی دھمکی پر گرفتار کر لیا گیا ہو کہ جو واضح نہ تھی اور عمل میں بھی نہ آئی تھی کہ اگر وہ قتل کی کوشش کرتا تو اس کی کوشش کو ناکام بنانا سکیورٹی کی ذمہ داری ہے، چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک غیر مسلم کے انسانی حق کو اپنی مومنانہ فراست کے مقابلے میں پامال نہیں کیا۔ اسے کہتے ہیں حکمرانی۔
ہم مزید آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہی شخص حملے کا وقت ایسا منتخب کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ وہ خنجر چھپائے فجر کی نماز میں حضرت عمرؓ پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ شدید زخمی ہیں، منہ میں پانی ڈالا گیا تو پیٹ سے نکل گیا۔ وار انتہائی کارگر تھا، صحیح بخاری میں ہے حضرت عمرؓ سے اس موقع پر صحابہؓ نے وصیت کی درخواست کی۔ فرمانے لگے، میں تمہیں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کے ضمن میں اللہ کے اس تحفظ کی وصیت کرتا ہوں جو ان کو دیا گیا ہے۔ اس میں کوتاہی نہ کرنا کیونکہ عملی طور پر یہ تحفظ تمہارے پیارے نبی حضرت محمد کریمﷺ کا دیا ہوا ہے۔ چنانچہ فیروز نامی غیر مسلم مجوسی کو قصاص میں قتل کیا گیا اور کسی دوسرے غیر مسلم کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ یہ ہے حکمرانی کا انداز جو بسترِ شہادت پر حضرت عمرؓ رقم فرما گئے۔
اب آتے ہیں ہم اپنے آج کے حکمرانوں کی جانب کہ موجودہ حالات میں ان کا طرز حکمرانی کیسا اور کونسا ہے؟ پاکستان اسلامی اور جمہوری ملک ہے، یہاں پرامن احتجاج کا حق ہر ایک کو حاصل ہے مگر اس حق کے استعمال سے پہلے ہی اپوزیشن کو روک دیا جائے تو یہ حق تلفی ہے۔ صرف اپوزیشن ہی کے حق کی نہیں‘ حکمرانی کے انداز نے پاکستان کے کروڑوں باسیوں کے حقوق کو بھی تاراج کر دیا۔ ہزاروں کنٹینرز جو اٹھائے گئے ہیں، کیا ان کے مالکان اور ڈرائیوروں سے اجازت لی گئی ہے؟ یقینا نہیں، کیونکہ وہ شور ڈال رہے ہیں کہ ان کنٹینروں میں ان کا اربوں کا مال ہے اور حکمران انہیں زبردستی اٹھا کر لے گئے ہیں۔ یوں تاجروں کا مال زبردستی اٹھا لینا، یہ اسلامیت ہے، جمہوریت ہے، بادشاہت ہے، آمریت ہے‘ الغرض! یہ کونسا طرز حکمرانی ہے؟ کیا حکمران بتلانا پسند فرمائیں گے؟
ان کنٹینروں کو آگ لگتی ہے، نقصان ہوتا ہے، ذمہ دار کون ہے؟ یہ نقصان سے بچ جاتے ہیں تو ان کا کرایہ کون دے گا۔ اتنے دنوں کا نقصان پورا کون کرے گا؟ یقینا کوئی نہیں کرے گا تو کنٹینرز کے مالکان کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے؟ پٹرول پمپ بند کئے گئے، موبائل بند کئے گئے، ٹرانسپورٹ بند، بیمار لوگ ایمبولینسوں میں فوت ہو گئے۔ لوگ کنٹینروں کے نیچے جانوروں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر نکلتے رہے، باراتیں پیدل چلتی رہیں، مرگ ہوتی رہی اور لوگ اپنے پیاروں کے جنازوں کو کندھا نہ دے سکے۔ اسلام آباد کے اردگرد گہری کھائیاں، یہ کون سا طرز حکمرانی ہے؟ جی ہاں! کیا یہ جمہوریت ہے؟ بادشاہ سمجھدار ہو تو اس کی بادشاہت کا شاہانہ انداز بھی ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ جو، احکم الحاکمین ہے، تقدیر بنانے والا ہے وہ بھی اپنے بندوں کے ردعمل کا انتظار فرماتے ہیں مگر ہمارے حکمران حضرات کی حکمرانی ایسی ہے کہ بس وہ بھانپتے ہیں اور اپنی انوکھی حکمرانی کے انداز دنیا کو دکھلانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اتنا تکلف گوارا نہیں فرماتے کہ احتجاج کرنے والوں کو وارننگ دی جائے کہ پرامن نہ رہے تو ہم احتجاج روک دیں گے اور یہ حکومت کا حق ہے... مگر کیا کیا جائے کہ حکومت نے اپنے اس حق کو بھی متنازعہ بنا لیا کہ جب سے ''گلو بٹ‘‘ سامنے آیا ہے۔ اب یہ گلو بٹ کا کردار حکمرانی کا کون سا انداز ہے؟ یقین جانئے! موجودہ حکمران ہی نہیں ماضی کے حکمرانوں کے ''گلو بٹوں‘‘ نے بھی کردار ادا کئے ہیں مگر اس وقت کیمرے یوں نہ تھے، لہٰذا اب کے گلو بٹ کیمروں کی آنکھ سے ننگے ہو کر سامنے آ گئے۔ سوچتا ہوں یہ حکمران اللہ سے تو ڈرتے نہیں، کیمروں سے ہی ڈر جائیں مگر یہ کیسا انداز حکمرانی ہے کہ ان کو کسی چیز کا ڈر نہیں ہے؟
راجہ ظفر الحق صاحب مسلم لیگ ن کے بڑے ہی باوقار اور نیک نام چیئرمین ہیں۔ میں 35سال قبل انہیں ان کی شرافت کی وجہ سے ان کے دفتر میں ملا تھا، حکمرانی سے متعلق انہیں اپنی تجویز دے کر واپس آ گیا تھا تب وہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات تھے اور جنرل صاحب کے کھلاڑی کپتان مشہور تھے۔ ان سے رہنمائی لینے کتنی ہی بار ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حالیہ بحرانی دنوں میں ان کے گھر بیٹھا تھا۔ عرض کی، آپ کا یہی پرانا مکان ہے، گیراج میں سادہ سیمنٹ کی مرمتوں کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔ ذرا حکمرانوں کو بھی سمجھا دیں کہ قوم کی فکر کر لیں... ان کی نشست کے اوپر دیوار پر قرآن کی آیت لکھی ہوئی تھی، اللہ فرماتے ہیں، جو شے اور کردار انسانیت کو فائدہ دے‘ اسے زمین میں ٹھہرائو ملتا ہے... ہم سمجھتے ہیں حکمرانوں کو اور ماضی میں حکمران رہنے والی اپوزیشن کو غور کرنا چاہئے کہ ہم سارے لوگ جو اپنی بہتر پوزیشنوں پر ٹھہرائو چاہتے ہیں، قرار اور ثبات کے طلبگار ہیں تو کیا ہمارے کردار سے انسانیت کو فائدہ پہنچا ہے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ مہلت کی مدت جونہی ختم ہو گی۔ اکھاڑکر پھینک دیئے جائیں گے اور اگر دنیا میں رسی دراز ہی رہی تو آخرت کی پکڑ بڑی شدید ہے۔