پاکستان سیاستدانوں کے سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے لئے سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری دبئی سے پاکستان تشریف لائے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اور جناب آصف علی زرداری شریک چیئرمین ہیں، یعنی بلاول صاحب کی چیئرمین شپ میں وہ شریک کار ہیں۔ اختیار میں عمل دخل رکھتے ہیں۔ دنیا کا نظام ہی ایسا ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے شریک اور ساجھے دار ہیں۔ اس شراکت داری کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اسی بنا پر باہم جھگڑے بھی ہوتے ہیں، ان جھگڑوں سے بچنے اور ان کو حل کرنے کے لئے وہ ضابطے بناتے ہیں‘ آئین بناتے ہیں، اس آئین کی شرح میں بھی وہ باہم لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ان سب محتاج انسانوں کو بنانے والا ایک ہے، بے نیاز ہے، خالق ہے اور باقی سب مخلوق ہے۔ وہ مخلوق کا حصہ نہیں ہے۔ اسی لئے وہ ''وحدہ‘ لا شریک‘‘ ہے اور باقی ہر کوئی اپنے اپنے حلقہ اثر میں شریک چیئرمین ہے۔
دنیا میں اس وقت مادی قوت کے مرکز کی علامت ''وائٹ ہائوس‘‘ ہے۔ یہ اینٹوں سے بنا ہے، اللہ کا حکم ہو اور یہ محل ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں الگ الگ ہو جائے تو اینٹ، سیمنٹ اور لوہے بجری وغیرہ کے الگ الگ ڈھیروں کے سوا یہ کچھ نہیں۔ اس میں جو طاقتور انسان رہتا ہے، وہ بھی جسمانی اعتبار سے عام انسانوں جیسا ایک انسان ہے۔ اگر اللہ کا حکم ہو اور ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں اس جسم کے تمام اعضاء الگ الگ ہو جائیں تو وہ گوشت اور ہڈیوں کے ٹکڑے ہی ہوں گے۔ مزید آگے بڑھیں تو وائٹ ہائوس میں لگی ایک اینٹ ایسی کھربوں اینٹوں سے مل کر بنی ہے جسے ایٹم کہتے ہیں۔ اسی طرح انسانی جسم کا کوئی ایک ٹکڑا لے لیں وہ بھی کھربوں اینٹوں سے مل کر وجود میں آیا ہے جسے خلیہ کہتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ خلیے کو بھی حیاتیاتی ایٹم ہی کہہ لیں۔ اس ایک ایٹم میں جسے کوئی انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے، ایک عظیم الشان اور وسیع و عریض جہان آباد ہے۔ ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ یہ ایٹم الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان کے ذروں سے مل کر بنتا ہے، پھر ان میں مزید آگے ذرات ہیں جن کا اپنا اپنا ایک جہان ہے۔
1964ء میں برطانیہ کے ایک سائنسدان مسٹر پیٹرہگزبوسن نے نظریہ پیش کیا کہ ساری کائنات بنیادی طور پر ایٹموں سے بنی ہے اور ہر ایٹم میں ایک پراسرار ذرے کا وجود ضروری ہے۔ اس ذرے کا نام ''خدائی ذرہ‘‘ مشہور ہوا۔ بعد ازاں سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی مشترکہ سرحد پر ایک عالمی لیبارٹری قائم کی گئی جس پر 12ارب ڈالر لاگت آئی۔ اس میں دو برس قبل تجربہ کیا گیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ خدائی ذرہ واقعی ہر ایٹم میں موجود ہے۔ اس دریافت کا اعلان پروفیسر پیٹرہگز بوسن نے خود کیا ہے۔ وہ اس بات پر بے پناہ خوش تھے کہ ان کی زندگی میں ہی ''خدائی ذرہ‘‘ دریافت ہو گیا۔ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس تجربے کو تسلیم کر لیا ہے۔ 21ویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی حقیقت اس دریافت کو قرار دیا گیا ہے۔
''خدائی ذرے‘‘ کو مذکورہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ ایٹم کو جوڑ کر رکھنا اسی ذرے کا کام ہے۔ اگر یہ اپنا کام چھوڑ دے تو ساری کائنات کا وجود ختم ہو جائے گا اور وہ توانائی کی لہروں کے سوا کچھ بھی نہ ہو گی... یہ ہے ایک انسان اور اس کی دنیا کی حقیقت جس کی خاطر وہ جھگڑوں سے باز نہیں آتا۔ ایک وقت آنے والا ہے، جب انسانیت کی تاریخ ختم ہو جائے گی۔ وہ عالیشان پتھر اور تختیاں جن پر حکمرانوں کے نام لکھے ہوئے ہیں‘ وہ عالیشان میگا پروجیکٹس جو محنتوں سے اور اپنے نام تاریخ میں لکھوانے کے لئے بنوائے گئے ہیں‘ سب کے سب نابود ہو جائیں گے اور ایسا اس وقت ہو گا جب ''خدائی ذرے‘‘ کا خالق چاہے گا۔
میرے پاکستان کے سارے سیاستدان قابل احترام ہیں اور وہ آئین کے تقدس پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔ وہ آئین جو خود انسانوں نے ہی مرتب کیا ہے... مگر اس آئین میں خالق کائنات کے آئین سے جو کچھ لیا گیا ہے‘ اس پر کوئی بھی نہیں بولتا
کہ گزشتہ چالیس سال سے اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے دیباچے میں ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے‘ اسے جلد از جلد ختم کیا جائے گا مگر چالیس سال بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ جناب وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف صاحب اپنی پیاری بیٹی مریم صفدر کو ایک سو ارب روپیہ سودی پروگرام میں رکھ کر اس کی چیئرپرسن بنا دیتے ہیں۔ اسی آئین میں یہ بھی موجود ہے کہ قوانین کو کتاب و سنت کے مطابق بنایا جائے گا مگر چالیس سال میں اس پر کوئی کام اور عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔
ہم سب نے کائنات بنانے والے کے بھیجے ہوئے رسولؐ کا کلمہ پڑھ رکھا ہے مگر اس عظیم رسولﷺ جن کا نام نامی اور اسم گرامی حضرت محمد کریمﷺ ہے، ان کا دیا ہوا قانون نافذ نہیں کیا۔ جس اللہ نے یہ کائنات بنائی ہے، ایک ایک ذرے سے بنائی ہے اور ایک ایک ذرے کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھنے والا ہے۔ اسے تھامنے والا وہی ہے، اسے ایک ضابطے میں باندھنے والا وہی ہے، اس کائنات میں انسان کے حیاتیاتی ایٹموں کو بھی تھامنے والا وہی ہے، اسے ضابطے میں جکڑنے والا بھی وہی ہے، اسی رب کریم نے آسمان سے قانون اتارا ہے اور اپنے آخری نبیﷺ کے ذریعے بتلایا ہے کہ اس آئین کو نافذ کر دو گے تو تمہارا معاشرہ سکون میں ہو جائے گا۔ امن میں ہو جائے گا... مجھے افسوس ہے اس بات کا کہ سارے سیاستدان جھگڑ رہے ہیں اور آئین کے نام پر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں‘ مگر اللہ کے آئین کی بات کرتے نہیں۔ فکر تو اس بات کا ہونا چاہئے کہ عنقریب ہم میں سے ہر انسان کے حیاتیاتی ایٹم اپنا کام چھوڑنے والے ہیں‘ زمین میں خاک کی نذر ہونے والے ہیں اور وہ جو اصل انسان ہے وہ روحانی شکل میں اپنے خالق کے سامنے پیش ہونے والا ہے‘ وہاں جواب کیا ہو گا؟ اے سیاستدانو! میڈیا کے زور پر اپنے جیسے بندوں کے سامنے غلط بیانیاں کر کے اپنی ساکھ کو کسی قدر بہتر بنا لو گے مگر یہ سوچو کہ اپنے اللہ کے ہاں ساکھ بہتر بنی ہے یا نہیں؟ اگر وہاں ساکھ نہیں ہے تو اگلے جہان کا سکھ کیسے ملے گا؟
یہ خاندان اور برادری کے سارے شراکت دار اسی مٹی میں گمنام ہو کر خاک کے ذرے ہی رہ جائیں گے۔ وحدہ‘ لا شریک کے سامنے جب پیشی ہو گی تب تمہارے اقتدار میں ناجائز شریک رہ کر سکھی ہونے والے تمہیں دکھی ہونے سے کیسے بچائیں گے... اللہ گواہ ہے اگر اس کی فکر لگ جائے تو ہمارا پاکستان سکھی ہو جائے۔ اگر صاحبان اقتدار کو یہ فکر نہیں کہ دکھی پاکستانیوں کے دکھوں کا بوجھ اٹھائے تو جب اللہ کے حضور پیشی ہو گی‘ ذلت کا کیسا بھیانک منظر ہو گا؟ تب دنیا کا حکومتی پروٹوکول محض ایک خواب اور سراب ہو گا جس کا کوئی نقش موجود نہ ہو گا۔ اس لئے کہ زمین ہی ایک دوسری زمین سے بدل دی جائے گی۔ تب نئی زمین پہ بے بسی اور ذلت کی کہانی انتہائی دکھ بھری ہو گی۔ اس دکھ کی فکر کر اے ناداں!