"AHC" (space) message & send to 7575

چاول کا سائنسی کردار

ہمارے ہاں جس موسم میں سیلاب آتا ہے، یہ چاول کی پیداوار کا موسم ہوتا ہے لہٰذا چاول کی فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ اگر سیلابی پانی جلد اتر جائے تو کافی ساری بچت ہو جاتی ہے اگر پانی اترنے میں دیر کر جائے تو نقصان زیادہ ہو جاتا ہے اور اگر پانی چند دن ٹھہر جائے اور آسمان بادلوں سے خالی ہو جائے تو سورج کی تپش سے دھان کی پکی ہوئی بالیاں گرم پانی میں گل سڑ کر تباہ ہو جاتی ہیں اور کسان بے چارہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
میرے معاون صلاح الدین کسان بھی ہیں لہٰذا انہوں نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈے کی کوشش شروع کر دی اور پھر کوشش کرتے کرتے ہمیں پاکستانی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر فدا محمد عباسی صاحب کا پتہ چلا کہ اس میدان میں انہوں نے کامیاب ترین پیش رفت کی ہے چنانچہ ہم نے ان سے رابطہ کیا اور صلاح الدین صاحب کو ساتھ لے کر ایبٹ آباد پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں ناشتہ کر کے ہم مانسہرہ سے آگے شنکیاری کے علاقے میں پہنچے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے سائنسدان ہمیں چاول کے فارم میں لے گئے۔ یہاں تقریباً ایک ایکڑ جگہ میں انہوں نے چاول کی کتنی ہی اقسام تیار کر دی ہیں... اس کے بعد وہ ہمیںچند کلومیٹر مزید آگے ایک گائوں کوٹلی پائیں میں لے گئے وہاں کے زمینداروں کے کھیتوں میں کئی ایکڑ زمین دھان کی خوبصورت فصلوںسے لہرا رہی تھی۔ ہم یہاں گھومتے چلے گئے اور رنگا رنگ اقسام دیکھتے چلے گئے۔
اللہ اللہ! دھان کی فصل کا قد 6سے 8فٹ تک بلند تھا اور اس کے تنے سرکنڈوں کی طرح مضبوط اور موٹے تھے۔ دبانے سے دبتے نہ تھے۔ سیلابی پانی میں نہ یہ دبیں گے نہ قدرے تیز ہوا سے یہ فصل لمبی پڑ کر گرے گی۔ یعنی عام سیلاب میں دھان کی یہ فصل تباہی سے بچ جائے گی (ان شاء اللہ) اس کی پیداوار کا حال جب ہمیں ڈاکٹر صاحب نے بتلایا تو وہ بھی حیران کن تھا۔ مشاہدے کے لئے ہم خود فصل میں موجود تھے۔ ہمارا کسان جو عام مونجی کی فصل بوتا ہے، اس میں شاخیں تو کافی ہوتی ہیں لیکن پیداواری شاخیں سات تا بارہ ہوتی ہیں۔ ہر شاخ میں 100سے 250دانے ہوتے ہیں، یوں ایک پودے میں سات سو سے لے کر تین ہزارتک دانے ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت سے جو کمال کر دکھلایا ہے وہ عقل کو حیران کر دینے والا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دریافت کئے اور بنائے ہوئے پودے کی پیداواری شاخیں 14سے بیس تک ہیں اور ہر شاخ پر سات سو سے لے کر 870تک دانے ہیں یوں یہ تعداد 17 ہزار بنتی ہے یعنی اللہ نے ایک دانے کے بدلے 17 ہزار دانے عطا فرما دیئے۔ میں نے خود ایک پیداواری شاخ کے دانے گنے تو اس کی تعداد 850تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خرچ کرنے والوں کی مثال دانے کے ساتھ دیتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ ایک دانے سے سات عدد پیداواری شاخیں نکلیں، ہر پیداواری شاخ میں سو دانہ پیدا ہو گیا... آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں اس پیداوار کو بڑھا دیتے ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ انتہائی وسعت والے اور سب کچھ جاننے والے ہیں۔
یقینا اللہ تعالیٰ اضافہ اسی کے لئے کرتے ہیں جو کوشش کرتا ہے، دوسرے مقام پر فرمایا، اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں... جی ہاں! زرعی سائنسدان ڈاکٹر فدا محمد عباسی صاحب نے پاکستانی قوم کی حالت بدلنے کے لئے کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی کوشش کو کامیاب فرما دیا... گائوں کے زمیندار حضرات دستر خوان پر مجھے بتلا رہے تھے کہ ابھی تو ہم نے ڈاکٹر صاحب کی بہت ساری ہدایات کو نظرانداز کر دیا اگر ہم پوری طرح ہدایات پر عمل کرتے تو نتائج اور زیادہ شاندار ہوتے... ڈاکٹر صاحب نے ان زمینداروں کی زمینوں پر تجربہ کیا تو ان سے کچھ نہیں لیا بلکہ شکریہ ادا کر رہے تھے کہ انہوں نے مجھے تجربے کے لئے زمین دی... اسی طرح چائے کے جس فارم کے اندر تجربہ گاہ ہے وہاں ڈاکٹر صاحب نے جو ملازم رکھا ہوا ہے اس کو اپنی جیب سے تنخوا دیتے ہیں۔ ہاں! ان کے کام کو دیکھتے ہوئے ڈائریکٹوریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے انہیں چھ لاکھ روپے دیئے۔ انہوں نے اپنے ذاتی چند ہزار اور چھ لاکھ سے کروڑوں نہیں اربوں روپے کا کام کر دیا... اب ایک بات میرے ذہن میں آ رہی ہے کہ اتنے بڑے کام اور ریسرچ کے لئے ہزارہ یونیورسٹی کیا بے خبر ہے؟ اس نے اپنے سائنسدان کو زمین کیوں نہ دی۔ یہ کام یونیورسٹی کی زمین پر کیوں نہ ہوا...؟ مزید برآں! صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر جو یونیورسٹیوں کے چانسلر ہوتے ہیں، کیا انہیں اپنی یونیورسٹی کے سائنسدان کے اس حیرت انگیز کام کی خبر ہے؟ کیا تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ پرویز خٹک اس کام کو جانتا ہے...؟ بہرحال! ہم حکمرانوں کا تذکرہ چھوڑتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
قارئین کرام! ڈاکٹر صاحب نے جو فصل تیار کی ہے اس کا پتّہ بڑا چوڑا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چاول پک کر تیار ہو جاتا ہے اور پتّہ سبز ہی رہتا ہے یعنی مویشیوں کے لئے سبز چارہ بھی تیار ہے۔ کسان اپنے مویشیوں کے لئے خشک پرالی ٹوکے پر کترتے ہیں اور دیگر چارے کے ساتھ ملا کر کام چلاتے ہیں اب جناب! دھان کا چاول بھی اور پرالی کا سبز پتّہ بھی۔ سبحان اللہ! دو دو بھی اور دیسی گھی کے ساتھ تربَتر بھی... حیرتوں کا چھوٹا سا جہان ہے، باسمتی کی خوشبو پنجاب کے علاقے شیخوپورہ کی خاص پہچان ہے۔ نارووال، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کا امتیاز ہے۔ یہی باسمتی جب صوبہ خیبر میں لگائی گئی تو چاول بھی ویسا نہ ہوا اور خوشبو بھی غائب ہو گئی۔ اب ڈاکٹر صاحب نے صوبہ خیبر میں جو تجربہ کیا ہے، جناب والا! باسمتی کی خوشبو بھی وہاں ملے گی... اے کاش! کھربوں روپیہ خرچ کرنے والے محکہ زراعت کو بھی یہ خوشبو پہنچ جائے مگر ناس ہو کرپشن کی بدبو کا کہ اس نے اقتدار کے ایوانوں میں اس قدر مضبوط ڈیرے جمائے ہوئے ہیں کہ اقتدار کی کم بخت ناک ایسی خوشبو سونگھنے سے قاصر ہے جس پہ میرا تو دل فدا فدا ہو رہا ہے جب سے حیرتوں کے اس جہان کی سیر کر کے آیا ہوں... ڈاکٹر فدا کو کسی کرپٹ حکمران کی نظر بد نہ لگ جائے۔ اللہ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ انہوں نے چاول کی دو چار درجن نہیں ،بلکہ 300اقسام تیار کر دی ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا چاول ہاتھوں ہاتھ بکتا تھا۔ ایک عرصہ سے بھارت نے سستا چاول دے کر اپنی اجارہ داری قائم رکھی ہے۔ حکومت نہ سہی میں پاکستان کے زرعی لینڈ لارڈز سے عرض کروں گا کہ تحقیقی لیبارٹری بنائیں، ڈاکٹر فدا محمد پر پیسہ فدا کریں۔ پاکستان چاول کے میدان میں دنیا کا نمبر ون ملک بن جائے گا۔ اس لئے کہ جو ٹیکنالوجی ڈاکٹر صاحب کے پاس ہے کسی کے پاس نہیں۔ جاپان، انڈیا، تھائی لینڈ، جرمنی کے زرعی سائنسدان ان کے کارنامے کے معترف ہیں اور اپنے سائنسی میگزینز کے اندر مضامین شائع کر چکے ہیں... مجھے بتلایئے! ایک دانے سے 17 ہزار دانے... کون مقابلہ کرے گا؟ اور یہ ٹیکنالوجی پاکستان دنیا کو دیتا ہے تو ساری انسانیت کھائے گی۔ یورپ جو بیج ہمیں دیتا ہے مہنگا ترین دیتا ہے، ٹیکنالوجی نہیں دیتا... اے حکمرانو! ٹیکنالوجی تو گھر میں موجود ہے... آگے بڑھیئے! اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایئے، شرط صرف اور صرف دماغ میں میرٹ اور شفافیت کی خوشبو ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں