"AHC" (space) message & send to 7575

وبائی وائرس اور نبوی علاج

آج کل ''ایبولا وائرس‘‘ سے دنیا کے ملک کانپ رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور سپین میں لوگ اس مرض سے مر چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف جنہوں نے ڈینگی وائرس کے خلاف دن رات ایک کیا تھا اور کامیابیاں حاصل کی تھیں انہوں نے ''ایبولا وائرس‘‘ کے حوالے سے بھی حفاظتی اقدامات پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ افریقہ کا ایک ملک جس کا نام ''کانگو‘‘ ہے۔ اس کے دریا کنارے آباد لوگوں میں اس وائرس کا آغاز ہوا۔ دریا کا نام ''ایبولا‘‘ ہے۔ اس لئے اس وبا کو ''ایبولا وائرس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ وائرس بندروں سے انسانوں میں آیا ہے۔ چمگادڑوں اور دیگر بیمار جانوروں سے انسانوں میں آیا ہے۔ حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔
ایبولا وائرس، ڈینگی اور ایڈز وغیرہ کے امراض میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے انسان کے مدافعتی نظام کی تباہی۔ جب انسان کے اندر بیماریوں کا دفاع کرنے والا نظام ہی ناکارہ ہونا شروع ہو جائے تو یہ دنیا جس کی فضا جراثیموں سے بھری پڑی ہے۔ انسان ان کا شکار بننا شروع ہو جاتا ہے اور جلد ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ پہلے طاعون اور چیچک جیسے وبائی امراض ہوا کرتے تھے۔ انسان کی کوششوں سے وہ وبائیں ختم ہوئیں تو آئے روز نئے ناموں سے نئی وبائیں دھمکانا شروع کردیتی ہیں۔انسان یقینا ان کے خلاف جہاد جاری رکھے گا۔ ویکسین تیار کر لے گا، فاتح بن جائے گا کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے بتلا دیا ہے کوئی بھی مرض ایسا نہیں جس کی دوا نہ ہو۔ مگرنئی سے نئی وبا نئے نام کے وائرس کے ساتھ پھر سے نمودار ہوتی رہے گی، لہٰذا ضروری ہے کہ میڈیکل کی دنیا میں جہاں ان کا علاج دریافت کیا جائے وہیں روحانی دنیا میں بھی ان وبائوں کا بندوبست کیا جائے۔
ابن ماجہ میں صحیح حدیث ہے، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''جب کسی قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو ان میں طاعون اورایسی بیماریاں پھیلتی ہیں جو ان لوگوں میں نہیں ہوا کرتی تھیں جو پہلے ہو گزرے‘‘ جی ہاں! ساری دنیا یہی کہتی ہے کہ ایڈز کا مرض فحاشی کا نتیجہ ہے۔ باقی ماندہ وبائی امراض کا حاصل بھی یہی ہے کیونکہ تھوڑے فرق کے ساتھ سب وبائی امراض کی فطرت ایک ہے کہ وہ انسان کے مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کو ناکارہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ وبائیں انسانوں کے گناہوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہیں تو کیا اس کا شکار بھی گناہگار ہی ہوتے ہیں؟ نہیں ایسا بالکل نہیں، اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ اس کا کون سا بندہ گناہ گار ہے اور کون نیک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جس بندے کو وبائی مرض گھیر کر جان سے مار ڈالے وہ اللہ کا محبوب بندہ ہو... اور وبائی مرض کے ہاتھوں مذکورہ بندے کو شہادت کا رتبہ مل جائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! طاعون (سے موت) میری امت کیلئے شہادت ہے۔ (مسند احمد) اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ جس علاقے میں ایسا مرض پھیل جائے اور بندہ اپنے اللہ پر ایمان رکھ کر وہیں صبر کے ساتھ رہے کہ ہو گا وہی جو اللہ نے لکھ رکھا ہے۔ (وہ فوت ہو جائے تو) اسے شہید جیسا اجروثواب ملے گا۔ اسی لئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے بارے میں روایت لائے ہیں کہ ان کی شہادت والی انگلی میں طاعون کی گلٹی نمودار ہوئی تو وہ اسے دیکھ کر فرماتے تھے: مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں۔ الغرض! حضرت معاذ بن جبلؓ اور ان کے سارے گھر والے اسی مرض سے شہید ہوئے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ جیسے جلیل القدر صحابیؓ کی ثابت قدمی اور اپنے پیارے رسولﷺ کے فرمان پر ایمان ہی تھا کہ وہ ایسے اولوالعزم تھے کہ طاعون کو اپنے اوپر حملہ آور دیکھ کر گھبرائے نہیں بلکہ اپنے اللہ کے پاس جانے کو تیار ہوئے بیٹھے تھے اور شہادت جیسے اجروثواب کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
قارئین کرام! سنت یہ ہے کہ علاج بھی کرو اور عافیت بھی اپنے مولا سے مانگو۔ بیماری حملہ آور ہو جائے اور بچنے کی امید نہ رہے تو ایک مسلمان حضرت معاذ بن جبلؓ کی طرح اجروثواب کی امید رکھے اور حوصلہ ہمالیہ جیسا رکھے... مدینہ منورہ میں جب بخار کی وباء پھیلی تھی تو حدیث میں آتا ہے کہ مدینہ کی زمین سب سے بڑھ کر وبائی امراض والی زمین تھی چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے جب صحابہ ؓ کو وبائی بخار میں مبتلادیکھا تو اللہ کے حضورؐ دعا کی: 
اَللّٰھُمَّ حَوِّلْ حُمَّاھَا اِلَی الْجُحْفَۃِ
''اے اللہ کریم! مدینے کے وبائی بخار کو جحفہ لے جا (مسلم) یاد رہے، ان دنوں جحفہ میں یہودی رہا کرتے تھے جو شرارتیں کیا کرتے تھے، لہٰذا مدینہ منورہ وبائی امراض سے پاک صاف ہو گیا اور جحفہ یہودیوں سے اجڑ گیا۔ بدر سے آنے والوں کے لئے یہ مقام میقات بھی ہے یہاں سے لوگ احرام باندھ کر عمرہ اور حج کے لئے مکہ جاتے ہیں۔
رپورٹیں یہ بھی ہیں کہ یہودی جو دنیا بھر کے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، بیالوجیکل ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے حیاتیاتی جراثیموں کی ایجاد میں وہ سب سے آگے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں فصلوں کے جو بیج دیئے جاتے ہیں، فصل تو خوب ہوتی ہے مگر بطور بیج کے وہ کام نہیں دیتی۔ بیج انہوں نے اپنے پاس ہی رکھا ہے جسے مہنگے داموں بیچتے بھی ہیں اور اس کے جین میں کیڑے اور سنڈی کا کوئی نقص ڈالتے ہیں تو اس کی دوائی بھی صرف انہی کے پاس ہوتی ہے لہٰذا اس سے بھی خوب کمائی کرتے ہیں۔
اب یہ جو مختلف وائرس ہیں، ان کا شکار وہ بے دریغ انسانوں کو کر رہے ہیں لہٰذا ان کا میڈیا امریکہ اور یورپ میں خوب شور مچا رہا ہے، اس کے بعد ویکسی نیشن سامنے آئے گی۔ اربوں ڈالر کی دنیا میں بکے گی اور سارا مال یہودی کی تجوری میں جائے گا۔ مجھے ایسی رپورٹوں میں تقویت اس لئے بھی محسوس ہوتی ہے کہ چودہ سوسال قبل رحمۃللعالمین نے وباء کو یہود کی طرف منتقل کرنے کی دعا کی تو اس میں باقی انسانیت کے لئے رحمت کا پہلو یہ ہے کہ یہود ہی انسانیت کو اپنی شرارتوں کے ذریعے سے تباہیوں سے دوچار کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو ان شرارتوں سے محفوظ فرمائے۔ مزید برآں! حفاظتی دعا جو اللہ کے رسولﷺ نے مانگی اس دعا کو صبح و شام لازم پکڑا جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور بندی کو محفوظ رکھے گا۔ (ان شاء اللہ)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں