"AHC" (space) message & send to 7575

ننھے فرشتوں کا پاکیزہ خون

پشاور کے ننھے فرشتوں کے پاکیزہ خون نے ہر آنکھ اشکبار کر دی۔ 
میرے حضورﷺ کا ننھا لخت جگر ننھا ابراہیم گود میں تھا اور حضور ﷺ کے آنسورواں تھے ... میرے حضورﷺ نے اک سوال کے جواب میں فرمایا : نبی جنت میں ہے، شہید جنت میں ہے اور بچہ جنت میں ہے ۔(ابودائود) سوچتا ہوں جب بچہ ہو اور شہید بھی ہو تو تب اس کے مقام کا کیا کہنا ۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے ننھے فرشتوں کے پاکیزہ خون کی عظمت کا کیا کہنا ؟ بچہ تو ماں کے دل کا ٹکڑا اور باپ کے دل کا ثمر ہوتا ہے ۔ جب دل کٹتا ہے اور پھل ٹوٹ کرگرتا ہے تو حالت کیا ہوتی ہے، اپنے پُررحمت حضور ﷺ کے دور کا واقعہ یاد آگیا ۔
حضرت قُرہ ؓ بتلاتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں آیا کرتا تھا ۔ وہ اپنے ننھے بچے کو بھی ساتھ لایا کرتا تھا ۔ ایک بار حضورﷺ نے پوچھ ہی لیا، لگتا ہے تجھے اپنے بیٹے سے بڑی محبت ہے۔ جواب میں بچے کا باپ کہنے لگا ۔ اے اللہ کے رسول مجھے اپنے بچے سے اس قدر محبت ہے کہ میں کہتا ہوں اللہ آپ سے بھی اسی طرح محبت کرے جس طرح میں اپنے بچے سے محبت کرتا ہوں ... پھر کئی دن گزر گئے وہ حضور ﷺ کی مجلس میں نہیں آیا ۔ حضرت قُرہ ؓ کہتے ہیں ایک دن حضور ﷺ نے مجھ سے پو چھ لیا کہ مذکورہ آدمی اب نظر نہیں آرہا ۔ میں نے حضور ﷺ کو بتلایا کہ اس کا بچہ فوت ہوگیا ہے ... حضور ﷺ اس شخص سے ملے اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا !یہ بات تجھے یقینا ڈھارس بندھائے گی کہ جنت کے جس دروازے پر بھی تو جائے گا اسی دروازے پر تیر ا بیٹا انتظار کر رہا ہوگا ۔ لہٰذا خوش ہو جائو کہ وہ تمہارے لیے دروازہ کھولنے کو دوڑتا چلا آئے گا (مسند احمد وعلی بن جعد) 
بخاری اور دیگر احادیث میں ہے اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا جنت میں بچوں کے کفیل حضرت ابراہیم ؑ ؑہیں میں نے خود انہیں جنت کے باغ میں دیکھا وہ کھڑے ہیں اور ان کے اردگرداس قدر بچے ہیں کہ میں نے اتنی بڑی تعداد بچوں کی کبھی نہیں دیکھی ۔حضرت سارہ ؓ ان بچوں کی نگہبانی کرتی ہیں ۔اللہ اللہ ! حضرت ابراہیم ؑ ان بچوں کے باپ ہوتے ہیں تو زوجۂ خلیل ؑ حضرت سارہ ؓ ان بچوں کی ماں ہوتی ہیں ۔ 
آرمی پبلک سکول بچوں کے والدین ! اللہ کے رسولﷺ تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ تمہارے بچے دہشت گردوں کے ہاتھوںسے شہید ہوئے تو سیدھے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سارہ ؓ کی نگرانی میں جنت کے محلات اور باغات میں جاپہنچے ۔آپ نے صبر کیا تو اس کا پھل اللہ کے رسول ﷺ نے یو ں بتلایا کہ جب فرشتہ کسی باپ اور ماں کے بچے کی روح کو لے کر اللہ کے پاس لے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ موت کے فرشتے سے فرماتے ہیں تم نے میرے بندے اور میری بندی کے دل کا پھل توڑا ۔بتلائو تب میرے بندے اور بندی نے کیا کہا، فرشتے جواب دیتے ہیں ، اے اللہ کریم ! اس نے تیری تعریف کی اور اِنّاللّٰہ وانا الیہ راجعونکہا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں : میرے اس بندے اور بندی کے لیے جنت میں محل بنادو اور اس پر '' بیت الحمد ‘‘ کی تختی لگا دو۔ اے شہید بچوں کے والدین !آخر کار اس دنیا سے جانا ہے۔ جانے تک پیارے بچے بھی اپنی امی اور ابو کے منتظر ہیں اور باپ کی انگلی پکڑ کر اور ماں کے دوپٹے کا دامن پکڑ کر '' بیت الحمد ‘‘ میں لے جانے کے منتظر ہیں ۔ 
آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کرنے والے کمینے، ذلت کے اس مقام پر ہیں جس پر دنیا کی ہر زبان کی ڈکشنری کے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ۔ یہ انتہائی گھٹیا قسم کے جانور اس قدر بزدل تھے کہ ننھے فرشتوں کو مارنے کے لیے فوج کی وردیاں پہن کر آئے۔ یہ چور تھے دیوار پھلانگ کر آئے ۔ انہوں نے خولہ نامی پانچ سالہ اس ننھی پری کو بھی مارا جو آج ہی داخل ہونے آئی تھی ۔ 
بچوں کا استاد باپ ہوتا ہے تو استانی روحانی ماں ۔میں سلام پیش کرتا ہوں پرنسپل محترمہ طاہرہ قاضی کو کہ جسے پاک فوج کے کمانڈوز نے بحفاظت نکال لیا لیکن وہ اپنے روحانی بچوں کے بغیرجانے پر تیا ر نہ ہوئیں اور پھر دوبارہ اپنے بچوں کو بچانے سکول چلی گئیں ۔ کس قدر دلیر تھیں وہ ،ننھی جانوں کو لیڈ کرتی ہوئی اپنے اللہ کی جانب پرواز کر گئیں ۔ انہیں اللہ سے ایوارڈ اور نشان ضرور ملے گا ۔آمین!
امام احمد بن حنبل ؒ ایک روایت لائے ہیں کہ حضور ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کے ایک عسکری دستے نے لڑائی لڑتے ہوئے اپنا، دائرہ بڑھاتے ہوئے جب دشمن کے بچوں تک رسائی حاصل کی تو انہیں بھی قتل کر دیا ۔ یہ دستہ واپس آیا تو حضور ﷺ کے سامنے مسئلہ پیش ہوا ۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے ان کے اذہان کو جھانکنا چاہا اور پوچھا تم لوگوں کو کس سوچ اور نظریے نے بچوں کو قتل کرنے پر ابھارا ؟کہنے لگے۔ وہ مشرکوں کے بچے تھے ۔ اس پر حضور ﷺ نے جھٹ سے جواب دیا : کیا یہ حقیقت نہیں کہ تم میں سے جو آج اسلام کی نعمت حاصل کرکے بہتر لوگ بنے ہوئے ہیں ، وہ مشرکوں ہی کی اولاد ہیں ؟سن لو ! اس رب کی قسم کھا کر کہنے لگاہوں جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ،جو جان بھی پیدا ہوتی ہے وہ فطرت پر ہی پیدا ہوتی ہے اور اپنی فطرت اسلام پر ہی رہتی ہے ،جب تک اس کی زبان وہ کچھ نہ بیان کرنے لگ جائے جو اس کے دل میں ہے۔ 
جی ہاں ! پھر تو وہ جوان ہوگا اور جوان ہو کر میدان جنگ میں سامنے آئے گا تو مقابلہ ہو گا ۔ یہ مشرک نوجوان کے بارے میں ہے ، بچہ ہے تو وہ بے شک یہودی ہے ،عیسائی ہے، ہندو ہے،سکھ ہے، بدھ ہے ،کچھ بھی ہے وہ فطرت اسلام پر ہے۔ خبر دار ! میرے حضور ﷺ رحمت دوعالم کا لاڈلاہے ۔ اسے کچھ نہ کہنا اور آرمی پبلک سکول کے جوبچے مسلے گئے روندے گئے ۔ یہ'' تو لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ پڑھتے تھے۔ اس سے پہلے تلاوت کرتے تھے ۔ یہ تو ترانہ پڑھتے ہوئے آخر پر سایہ خدائے ذوالجلال کہہ کر رب کے حضور اپنا ننھا چہرہ ہلکا سا جھکا کے سجدہ ریز ہوتے تھے اور پھر کلاس روم میں جاتے تھے ۔ظالمو ! ان کو تم نے مارا ،اب اللہ کی مار کا انتظار کرو ۔اس دنیا میں بھی رسوائی اور اگلے جہاں کی ذلت کا بھی انتظار کرو !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں