"AHC" (space) message & send to 7575

شہدائے پشاور کے والدین کے ساتھ چند لمحے!

رحمن و رحیم اللہ حلیم نے قرآن کریم میں بچوں کو موتی قرار دیا ہے۔ صاف شفاف موتی، سرخ و سپید اور آب دار موتی جبکہ اللہ کے رسول کریم رحمت للعالمینﷺ نے بچوں کو پھول قرار دیا ہے۔ خوشبودار پھول، کھلے کھلے بہار دیتے پھول، آنکھوں کو بھلے لگتے پھول، دل میں جگہ بناتے پھول‘ یہ پھول جب مسلے گئے، کچلے گئے، ان کی استانیاں، میری بیٹیا ںاور بہنیں جب خون میں نہلا دی گئیں تو میرے سامنے میرے حضورﷺ کا فرمان آ گیا کہ میرے حضورﷺ نے خواتین کو آبگینے کہا، صاف شفاف شیشے قرار دیا‘ ہاں ہاں! یہ شیشے توڑ دیئے گئے، کرچی کرچی کر دیئے گئے؛ چنانچہ میں نے دل پر پتھر رکھا اور پشاور میں ورسک روڈ پر اس جگہ پہنچا جہاں نونہالوں اور ان کی علمی پیاس بجھانے والی ان کی روحانی مائوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا... 
میں آرمی پبلک سکول میں پہنچا، نونہالوں کی تصویروں کو دیکھا، اہل درد کے پیغامات کو پڑھا، یہاں آرمی کے آفیسر سے ملا، حوصلہ دیا مگر وہ تو پہلے ہی حلم اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔ کیوں نہ ہو کہ دو شہیدوں کے وارث جنرل راحیل کا سپاہی تھا۔اب میں کرنل (ر) سہیل کے گھر میں ہوں، کرنل صاحب کے اس بیٹے کا نام اذان ہے۔ باپ نے اس کا نام اذان رکھا تھا۔ اللہ اکبر سے اذان شروع ہوتی ہے، لاالٰہ الا اللہ پر ختم ہوتی ہے۔ باپ نے نام اس لئے اذان رکھا کہ جب بھی اذان بیٹے کو آواز دے تو ذہن میں پوری اذان کا نقشہ نقش ہو جائے۔ وہ اسم بامسمّیٰ تھا یعنی جیسا نام تھا ویسا ہی کردار تھا۔ وہ اذان سنتے ہی جاگ جاتا۔ باپ کو بھی اٹھاتا اور فجر کی نماز کے لئے تہکال بالا کی مسجد چل پڑتا۔ اس کا بڑا بھائی میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اذان بحفاظت نکل گیا تھا مگر بھائی کو بچانے پھر چل پڑا اور پھر اِک دہشت گرد کی گولی آئی اور اذان کے سینے میں لگی جس میں قرآن تھا، دوسری آئی، پھر تیسری آئی، یوں اذان کے سینے میں تین گولیاں لگیں... 
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اذان کا بابا کرنل سہیل بولا، حمزہ صاحب! میرا اذان تو عرش کے سائے میں چلا گیا مگر مجھے غم اس بات کا ہے کہ امریکہ کے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں، یورپ، بھارت، جاپان و کوریا کے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں، وہ میرے اذان اور اس کے معصوم ساتھیوں کے خون سے کیا پیغام لیں گے؟ حمزہ صاحب! میرا پیارا اسلام بدنام ہو رہا ہے۔ میرے پیارے نبیﷺ، میرے مہربان رسولؐ اور لاجواب کتاب قرآن پرالزام آ رہا ہے۔ 
شیخ البانی رحمہ اللہ اپنے سلسلہ میں حدیث لائے ہیں ''کَانَ اَرْحَمَ النَّاسِ بِالْعِیَالِ وَالصِّبْیَانِ‘‘ اللہ کے رسولﷺ خاندان پر اور بچوں پر بہت ہی زیادہ رحم کرنے والے تھے۔ انگریزی زبان میں لفظ کی سپرلیٹو ڈگری جس طرح (Best) کے معنی دیتی ہے۔ عربی کا لفظ ''اَرْحَمْ‘‘ اس سے کہیں آگے بڑھ کر اپنا معنی دیتا ہے یعنی اللہ کے رسولﷺ بچوں کے ساتھ انتہا درجے مہربان تھے۔ سوچتا ہوں اذان میں حضورؐ کی رسالت کی گواہی دینے والا بھلا اذان پر گولی چلا سکتا ہے۔ نہیں نہیں، بالکل بھی نہیں... پھر گولی چلانے والا کون تھا؟ وہ تکفیری اور خارجی تھا۔ اس کے منہ میں تکفیر کا آلہ نصب تھا۔ وہی آلہ آج اذان اور اس کے ساتھیوں کے ملعون قاتلوں کے منہ میں فٹ تھا۔ یہ بے رحم ہوتے ہیں، تکفیر کا بیج ہی ایسا ملعون یعنی اللہ کی رحمت سے دور ہے کہ اس میں شقاوت ہی شقاوت ہے۔ ایسی شقاوت کہ جسے اللہ نے ''اسفل السافلین‘‘ کہا ہے۔
کرنل (ر) قاضی ظفر صاحب کے گھر پہنچا تو وہ کہہ رہے تھے، حمزہ صاحب! میری بیوی طاہرہ تہجد گزار تھی، جس روز شہید ہوئی اس روز بھی تہجد پڑھ کر گئی... میں بوڑھا اکیلا رہ گیا، میری غمخوار مجھ سے دہشت گردوں نے چھین لی مگر مجھے فخر ہے کہ سلامت نکل چکی تھی مگر پھر گئی اور اپنے بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہو گئی... آہ! اس کا روحانی بچہ بھی کس قدر دلیر تھا کہ جسے دہشت گرد نے تیل کی بوتل اور ماچس پکڑائی اور کہا اپنی پرنسپل پر تیل پھینکو اور آگ لگائو، معصوم شاگرد نے انکار کر دیا... ساتھ ہی اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی ہو گیا... ہاں! کس ماں کا وہ دلاور تھا، معلوم نہ ہو سکا جس نے یہ کردار ادا کیا۔ دلیری کا ایوارڈ تو اللہ ہی دے گا، مگر قاتل کس قدر عاری تھا ماں بیٹے کے درمیان تعلق سے، محبت اور احترام کے باہمی رشتے سے... آہ! پشاور میں انسانیت کی اس قدر توہین ہوئی کہ تاریخ میں شاید ایسا انسانیت سوز واقعہ ملنے نہ پائے۔
بچوں کی استانی سحر افشاں کے گھر پہنچا تو اس کے بھائی فواد گل نے میرے ہاتھ پر ایک ورق رکھا، اس ورق کے دونوں طرف جنازے کی مسنون دعائیں لکھی ہوئی تھیں، الہدیٰ انٹرنیشنل نیچے لکھا ہوا تھا، خواتین میں اصلاح کا کام کرنے والی یہ تنظیم ہے جس کی سربراہ محترمہ فرحت ہاشمی ہیں۔ معلوم ہوا کہ سحر افشاں موت کے لئے تو پہلے ہی تیاری کر رہی تھی، اس نے جب جنت میں سحر کی ہو گی تو اللہ نے کہا ہو گا، میری بندی! مجھ سے ملنے کو پہلے ہی تیاری کر رہی تھی... جا! اس جنت میں جہاں حضرت مریم، حضرت آسیہ، حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن کے محلات ہیں۔ سحرافشاں نے بھی اپنے بچوں کو نہ چھوڑا اور بچاتے ہوئے ایک تکفیری دہشت گرد کے ہاتھوں جام شہادت پی گئی۔ (ان شاء اللہ)
اب میں ڈاکٹر فاروق صاحب کے گھر میں ہوں۔ دو بیٹیاں ہیں، ایک بیٹا مبین شاہ آفریدی۔ محمد فوزان کے ہاں گیا۔ ان کی بھی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا محمد عالیان۔ محمد کامران کی بھی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا حمزہ کامران۔ ظہور احمد کے ہاں گیا تو ان کی بھی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عزیز احمد... ان سب کے اکلوتے بیٹے شہید ہو گئے۔ میں نے سب کو یہی دلاسا دلایا کہ بیٹیوں کی اولاد بھی اولاد ہی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کے تینوں بیٹے فوت ہو گئے اور حضورﷺ اپنی نواسی امامہ سے محبت کرتے تھے۔ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے بیٹے اور پھول کے لقب سے ملقب فرماتے تھے۔ عبداللہ ظفر شہید کے گھر بھی گیا اور شہیر خان شہید کے گھر بھی۔ شہیر خان کے والد گرامی محمد طاہر صاحب تو صبر کے ہمالیہ ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھ کر حضورﷺ کا فرمان میری نگاہوں کے سامنے مجسم ہو کر آ رہا تھا کہ مومن کو اس کی جان، اولاد اور مال میں جو صدمہ پہنچتا ہے وہ اللہ سے ملاقات کرے گا تو اس پر کوئی گناہ نہ ہو گا (ترمذی) یعنی شہداء بچے بھی معصوم اور ماں باپ بھی معصوم (سبحان اللہ)
قارئین کرام! وہ لوگ بھی ہیں کہ جو ایسی فضول باتیں بھی کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کو پھانسی دینے اور فوجی عدالتیں بنانے کا اب ہی کیوں خیال آیا؟ عرض ہے کہ درست کام تاخیر سے بھی ہوا تو درست ہی ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ تو ہوا کہ ظالموں نے بے گناہ مردوں پر حملہ کیا اور ساتھ عورتیں اور بچے بھی مارے گئے مگر میرے علم میں انسانی تاریخ کا یہ شاید پہلا واقعہ ہے کہ بچوں اور عورتوں کو ٹارگٹ کر کے شہید کیا گیا اور چن چن کر معصوم بچوں کو مارا گیا، لہٰذا اب بھی اگر حکومت اور فوج سخت ایکشن نہ لیتی تو یہ خود عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو جاتے۔ بچوں پر آ کر ہر پاکستانی کی برداشت جواب دے گئی۔
آخر میں تعزیت کرتا ہوں ان سب سے کہ جن کی خدمت میں حاضری کا اعزاز حاصل نہ کر سکا۔ میں تعزیت کرتا ہوں پاکستان کے ان 55ہزار شہداء سے کہ جو دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان کی مساجد، گلیوں، بازاروں، فوجی تنصیبات، پولیس اسٹیشنوں وغیرہ میں شہید ہوئے... اللہ کے حضور دعا کرتا ہوں میرے مولا کریم! شہداء کے گھروں میں جانے کی ہمت عطا فرما کہ آپ کے پیارے رسولﷺ نے فرمایا! ''جو مومن بھی اپنے کسی بھائی سے اس کے صدمہ میں تعزیت کرتا ہے‘ دلاسا دلاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن انتہائی عزت والا لباس زیب تن فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، صحیح)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں