"AHC" (space) message & send to 7575

جہاد اور رستہ

میرے پاکستان میں بچیوں کے سکولوں کو بم سے اڑانے والے کہتے ہیں ہم جہاد کر رہے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کو شہید کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں ، ہم مجاہدین ہیں۔ سکیورٹی اداروں پر حملہ کرنے والے کہتے پھرتے ہیں ، ہم جہادی کام کرتے ہیں۔ مسجدوں اور مارکیٹوں میں حملے کر کے نمازیوں اور عام لوگوں کو شہید کرنے والے بولتے جا رہے ہیں کہ ہم قتال کر رہے ہیں۔ جی ہاں! ایسے نام نہاد جہادیوں کو پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ دہشت گرد کہتے ہیں۔ حرمین شریفین کے امام اور سعودی عرب کے مفتی اعظم ان کو دہشت گرد اور فسادی کہتے ہیں۔
قارئین کرام! آیئے، دیکھتے ہیں ان نام نہاد جہادیوں کے جہاد کا نتیجہ اور پھل کیا ہے ، اس لیے کہ درخت اپنے پھل سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ پھل میٹھا ہے یا انتہائی کڑوا، پھل ہی درخت کی پہچان دیتا ہے۔ یہ دہشت گرد جس کو جہاد کہتے ہیں اس کے بہت سارے کڑوے پھل اور پہلو ہیں ؛ تاہم اس وقت ہمارے سامنے صرف ایک پہلو ہے اور وہ ہے سکول، سڑکیں اور راستے کہ اللہ کی عام مخلوق اس حوالے سے کس قدر پریشان ہے؟
پاکستان میں اس وقت طلبہ اور طالبات کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ بچے اس وقت سکول نہیں جا رہے ہیں۔ بچے کھیل کود میں بھی مصروف ہیں اور منفی سرگرمیوں میں بھی۔ بچہ گھر میں زیادہ وقت نہیں ٹھہر سکتا، لہٰذا وہ گھر سے باہر آوارگی کرے گا۔ ماں بھی پریشان، باپ بھی پریشان، یوں ہماری نسلوں کو جاہل، آوارہ اور منفی سرگرمیوں میں دھکیل کر تباہ کیا جا رہا ہے اور اس تباہی کا کریڈٹ دہشت گردوں کو جا رہا ہے۔ ہر بچے کی منفی سرگرمی اور آوارگی کا گناہ دہشت گردوں کے نامۂ اعمال میں درج ہو رہا ہے۔ نیز سکولوں کی سکیورٹی پر جس قدر خرچہ آ رہا ہے یہ بچوں کے والدین کے ذمے پڑے گا۔ یوں اربوں روپے کا قرضہ قیامت کے دن دہشت گردوں کے سروں پر لدا ہو گا۔ خوف اور دہشت کے لمحات کا حساب الگ سے دینا پڑے گا۔
حضرت معاذ بن انسؓ بتلاتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں اللہ کے رسولﷺ کے ہمراہ تھا (راستے میں ایک جگہ پڑائو کیا) تو لوگوں نے خیمے لگانے کی جگہوں میں تنگی کر دی اور عام گزرگاہ کو بھی نہ چھوڑا۔ اللہ کے رسولﷺ کو اس صورت حال کا پتہ چلا تو آپ ﷺ نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا جس نے لوگوں میں اعلان کیا ''جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستے پر خیمہ لگائے اس کا کوئی جہاد نہیں ‘‘۔ (ابودائود، کتاب الجہاد)
اللہ اللہ! مجاہد اور صحابی، اللہ کے رسولﷺ کا ہمراہی، اگر وہ راستے کا حق مارتا ہے تو اس کا جہاد کوئی نہیں اور جو پاکستان کے راستوں کا حق مارے، اس انداز سے کہ جب بھی دہشت گردی کرے، ناکوں میں اضافہ ہو جائے، پورے ملک کی سڑکوں پر جگہ جگہ لوگوں کو تلاشی کے لیے رکنا پڑے، یوں راستے تنگ ہو جائیں، کاروں اور بسوں کی لمبی لمبی لائنیں لگ جائیں۔۔۔۔۔ پھر دہشت گردی ہو، دہشت گردوں کی طرف سے دھمکی آئے، سکیورٹی میں اور اضافہ ہو جائے، تلاشی میں مزید سختی ہو جائے، ایمبولینس مریضوں کو لے کر ناکوں پر رکتے ہوئے لیٹ ہو جائیں، مریض مر جائیں، حاملہ خواتین جان سے ہار جائیں، نومولود مرجھا جائیں۔۔۔۔۔ ایئرپورٹ پر لمبی لمبی لائنیں لگ جائیں، لوگ جہازوں میں سوار ہونے سے رہ جائیں، عمرہ والے لیٹ ہو جانے کی وجہ سے محروم ہو جائیں، الوداع کہنے والے اور استقبال کرنے والوں کو ایئرپورٹ سے دور روک لیا جائے، وہ آنسو بہاتے رہ جائیں ۔ الغرض! راستے ہیں کہ تنگ ہی ہوتے چلے جاتے ہیں، ان سب کا بوجھ فساد مچانے والوں کے سر ہے۔ وہ لوگوں کی تکالیف کے ذمہ دار ہیں۔ حیران ہوتا ہوں یہ نام نہاد جہادی کس قدر بے پروا ہیں کہ 20کروڑ پاکستانیوں کا بوجھ اٹھا کر اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے۔ سب کی تکلیفوں اور پریشانیوں کا حق یہ کیسے دیں گے؟ اللہ کی پناہ!
صحیح مسلم میں ہے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''جس نے زمین کے نشان کو بدلا اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ جی ہاں! پاکستان کی سڑکوں کے نشان بدل گئے، جگہ جگہ رکاوٹیں اور آہنی بیریئر رکھ دیے گئے، مٹی اور ریت کی بوریاں رکھ دی گئیں، حکمرانوں اور اہم جگہوں کے راستے بند کر دیے گئے۔ راستے کھلتے ہیں تو بڑی چھان پھٹک کے بعد۔ الغرض! ہماری زمین پر راستوں کے حلیے بدل گئے۔ اس مصیبت کا ذمہ دار کون ہے، جس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے ، وہ بڑا ہی بدقسمت ہے۔ انتہائی حرماں نصیب ہے ، اس لیے کہ حضورﷺ کی زبان مبارک سے وہ شخص ملعون قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے بندو! لعنت کا مستحق اللہ کی رحمت سے دور ہو گیا۔ ملعون راستے پر نہ چلو، اللہ کے پُر رحمت راستے پر چلنے کی کوشش کرو۔ صحیح مسلم ہی میں ہے اللہ کے رسولﷺ نے پہلی امتوں میں سے ایک امت کے شخص کا واقعہ بیان فرمایا کہ وہ سڑک پر چل رہا تھا، اس نے دیکھا راستے پرکانٹوں بھری ایک شاخ پڑی ہے۔ اس نے اس شاخ کو ہٹا دیا، اللہ نے اس کے اس کام کی اتنی قدر افزائی فرمائی کہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیا (جنت دے دی)۔
اے پاکستان میں جہاد و قتال کی باتیں کرنے والو! یہ جہادوقتال
نہیں، دنگا اور فساد ہے۔ اس سے باز آ جائو، توبہ کر لو، اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دو، جو ساٹھ ہزار پاکستانی تمہاری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہو گئے ، ان کی جانوں کا حساب تو تمہارے ذمہ ہے ، باقی اللہ کے 20کروڑ بندوں کو ستانے سے باز آ جائو، جس قدر تم ستا چکے ہو، سچے دل سے توبہ کر لو تو شاید اللہ کی رحمت کے حقدار بن جائو۔۔۔۔۔ اس شخص کے ڈرنے کی طرح جس کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا، ایک شخص بے حد گناہ گار تھا، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا میں مر جائوں تو مجھے آگ میں جلا کر راکھ بنا دینا، راکھ کو ہوائوں میں اڑا دینا، اللہ کی قسم! اگر اللہ اس بات پر قادر ہو گیا کہ مجھے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کرے تو ایسی سزا دے گا جو کسی کو آج تک نہ دی۔ وہ جب فوت ہو گیا تو بیٹوں نے وصیت پر عمل کر دیا، اب اللہ نے زمین کوحکم دیا، اس نے تمام ذرات کو جمع کر دیا، اللہ نے اپنے سامنے کھڑا کر لیا اور پوچھا: تو نے اپنے بارے میں ایسا کیوں کیا؟ عرض کرنے لگا، مولا! تیرے ڈر کی وجہ سے، اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ (بخاری)
اللہ کے حضور دعا ہے کہ وہ لوگ جو بات بات پر مسلمانوں کو کافر اور مرتد قرار دے کر خود ہی جلاد بنے ہوئے ہیں، اللہ سے ڈر جائیں کہ اللہ تو گناہ گاروں کو معاف فرمانے والا ہے جبکہ بعض نام نہاد جہادی گردن اڑانے سے کم کا سوچتے ہی نہیں۔۔۔۔۔ کاش ! تائب ہو جائیں تاکہ اللہ کی رحمت کے حقدار بن جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں