دین کے وہ دعویدارجن میں خارجیت اور تکفیر کے جراثیم ہوتے ہیں‘ مسلمان حکمرانوں کو مرتد اور کافر قرار دیتے ہیں اس بناء پر کہ وہ اپنے ملکوں میں اسلامی نظام اور حدود کا نفاذ نہیں کرتے۔ کافر قرار دینے کی دلیل قرآن مجید کی آیات سے لاتے ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو ایسے لوگ کافر ہیں۔ پھر اللہ نے ایسے لوگوں کو ظالم اور فاسق قرار دیا۔ دین کے ایسے نام نہاد دعویدار اگر تکفیر کے فتوے تک ہی رہتے تو کسی حد تک گوارا تھا مگر وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے قرار دیئے گئے کافروں اور مرتدوں کے قتل کو جائز قرار دینے لگے۔ پھر وہ اور آگے بڑھے اور جتھے بنا کر حکمرانوں‘ قومی تنصیبات اور دفاعی اداروں پر خونی حملے کرنے لگے۔ یوں جب وہ اس حد تک پہنچے تو ناقابل برداشت ہو گئے اور ریاستی طاقتوں نے انہیں کچلنا شروع کر دیا کیونکہ اب انہوں نے عام لوگوں کو بھی یہ کہہ کر مارنا شروع کر دیا کہ جو کافر کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے۔
قرآن کی سورہ مائدہ میں جن لوگوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا گیا ہے وہ یہودی اور عیسائی ہیں کیونکہ اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کا تذکرہ کیا اور واضح کیا کہ انہوں نے تورات اور انجیل کے قوانین کا نفاذ نہیں کیا لہٰذا قرآن میں اللہ نے جن کو کافر قرار دیا ہے تو یہودونصاریٰ ہی کو قرار دیا ہے۔ امام ابن کثیر ؒ بھی اپنی تفسیر میں اس سے مراد یہودونصاریٰ ہی کو قرار دیتے ہیں۔ مزید برآں! صحیح مسلم اور مسند احمد بن حنبل میں اللہ کے رسولﷺ کا واقعہ مذکور ہے کہ آپﷺ یہود کے علاقے سے گزر رہے تھے، وہاں دیکھا کہ ایک یہودی کا منہ کالا کر کے اسے گھمایا جا رہا ہے۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ تورات میں جس جرم کی وجہ سے منہ کالا کیا گیا تھا اس کی سزا اور ہے مگر انہوں نے تورات کے حکم کو بدل کر نئی سزا تجویز کر لی اس پراللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ پر قرآن نازل کیا اور ایسے لوگوں کو کافر، ظالم اور فاسق قرار دیا۔ حضرت براء بن عازبؓ جو یہ حدیث بیان کرتے ہیں، واضح کرتے ہیں کہ یہ تمام آیات کافروں سے متعلق ہیں۔
قارئین کرام! دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی جہالت اور نادانی کا اندازہ لگائیں کہ وہ قرآن کے واضح سیاق و سباق کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کے واقعہ اور شان نزول کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ صحابی کی واضح شرح کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں، مفسرین کے امام حضرت امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر کو بھی ماننے کا نام نہیں لیتے اور مسلمان حکمرانوں کو کافر اور دین سے خارج کر دینے کے فتوے شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے بے علم، نادان اور ناپختہ نوجوانوں نے مفتی بن کر اور پھر قاضی بن کر دین کو داغ دار کرنا شروع کر دیا‘ پھر انتہا یہ کہ خود ہی جلاد کا کردار بھی ادا کرنے لگے، لہٰذا لازم ہے کہ علم اور بصیرت کو لوگوں تک پہنچایا جائے اور فساد کے راستوں اور دروازوں کو نظریاتی طور پر بند کیا جائے۔
ہاں! مسلمان حکمران جو اللہ کے قوانین کا نفاذ نہیں کرتے وہ گناہ گار ضرور ہیں اور معاشرے میں جو ظلم اور ناانصافی ہے وہ اس کے لئے اپنے اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں۔ علماء اور اصلاح کاروں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دعوت کا کام کریں، حکمرانوں کو بھی سمجھائیں، اللہ کا خوف دلائیں، احترام اور اخلاق کے دامن کو تھامتے ہوئے نصیحت کریں۔ جب ملاقات کریں تو ان کی خیرخواہی کرتے ہوئے حق بات کہیں، دلائل کے ساتھ تحریریں لکھیں، تقریریں کریں، پرامن احتجاج کریں۔ الغرض! اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ ان کی ذمہ داری یہیں تک ہے۔ جب ایسے لوگ اپنے دائرہ کار سے نکلیں گے اور دوسروں کو اسلام کے دائرے سے نکالیں گے تو معاشرتی فساد اور قتل و خونریزی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ الٹا اثر یہ ہو گا کہ علماء بدنام ہوں گے، دین پرتشدد کا الزام آئے گا، غیر مسلم دنیا کا میڈیا شور مچائے گا اور ہمارا پرامن دین دہشت گردی کے الزامات کی لپیٹ میں آئے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ جی ہاں! نام نہاد مفتیان اور قاضیان جو تکفیر اور ارتداد کے فتوے لگاتے پھرتے ہیں وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
میرے پیارے پاکستان کے حکمرانوں کے لئے23مارچ 1940ء کا دن یقینا تجدید عہد اور غوروفکر کا دن ہے جب پورے برصغیر کے مسلمانوں نے لاہور میں جمع ہو کر حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی قیادت میں فیصلہ کیا تھا کہ لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ اس وقت ایک نظم بھی پڑھی گئی تھی جس میں پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور حضرت قائداعظم رحمہ اللہ نے واضح کر دیا تھا کہ ہم مدینہ منورہ کی سٹیٹ کا یہاں تجربہ کریں گے۔ قائداعظمؒ اور قائد ملتؒ کو تو وقت نے فرصت نہ دی؛ تاہم انہوں نے ابتدائی اقدامات اور بنیادیں ضرور رکھ دیں مگر بعد میں ہمارے حکمرانوں نے ''اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ نام تو رکھ لیا مگر کردار کو نظرانداز کر دیا۔ اس کا نتیجہ حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی صورت میں نکلا۔ سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے ونگ بنا لئے۔ علاقے اور زبان کی بنیاد پر قتل اور خونریزی کے معرکے سر کئے جانے لگے۔ اسی طرح مذہبی دہشت گردی نے بھی ملک کی جڑیں ہلا دیں جن کا ہم تذکرہ کر چکے ہیں۔ آج پاک فوج سیاسی اور
مذہبی دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کئی سالوں کی دہشت گردی کے بعد آج پاکستان کے لوگ اس مقام پر کھڑے ہیں کہ پاک افواج 23مارچ کی پریڈ کے لئے تیاری کر چکی ہیں۔ 23مارچ 2015ء کی پریڈ اس بات کا پیغام ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے اپنا خون دے کر، بیویوں کو بیوہ، بچوں کو یتیم اور ماں باپ کو اپنے سے محروم کر کے اہل پاکستان کو امن کا تحفہ دیا ہے۔
اس موقع پر ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی حکمران اپنی حکمرانی کو شفاف بنائیں۔ کرپشن سے پاک معاشرہ اور ادارے تشکیل دیں۔ آغاز اپنی ذات سے کریں، ملک میں اسلامی قوانین کی بہار کا رنگ جمائیں، انصاف اور میرٹ کو یقینی بنائیں۔ الغرض! تجدید عہد کریں، نظریہ پاکستان کی اساس کو مضبوط بنائیں۔ یوں تمام فتنے نظریاتی طور پر دم توڑجائیں گے۔ حکمرانوں کو تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ فتنوں کا ظہور تبھی ہوا ہے جب انہوں نے غفلت اور غلط حکمرانی کا بیج بویا۔ یہ بیج اب درخت بن چکا ہے، اسے جڑ سے نہ اکھاڑا گیا تو فتنے نام بدل بدل کر سامنے آتے رہیں گے۔ چیلنج بنتے رہیں گے۔ لہٰذا 23مارچ کا تقاضا ہے کہ ہر پہلو سے جائزہ لیں، تجدید عہد کر کے آگے بڑھیں۔ اب کے صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان خوشحالیوں اور امن کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔ سجیلے جوانوں کی قربانیاں پاکستان کو شاہین کی پرواز دے رہی ہیں۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ اس پرواز کو نظر نہ لگے۔ (آمین)