بعض حلقے یہ تاثر دیتے ہیں کہ یمن سعودی عرب کشیدگی سے سعودی بادشاہت کو خطرہ ہے، حرمین کو نہیں۔ میں سعودی عرب کے نظام حکومت کو معروف معنوں میں بادشاہت نہیں کہوں گا۔ جو اس کو بادشاہت کہتے ہیں وہ اس نظام حکومت سے ناواقف و ناآشنا ہیں۔ ہمارے ذہن میں بادشاہت کا عمومی تصور یہ ہے کہ بادشاہ جو کرتا تھا، جو بولتا تھا، جولفظ بھی اس کی زبان سے ادا ہوتا تھا وہ قانون بن جاتا تھا لیکن سعودی عرب میں ایسی بادشاہت کا نظام نہیں ہے۔ آپ ان کے نظام حکومت کو دیکھیں آپ اس کے دستور و قانون کو ملاحظہ کریں، آپ کو ان کے دستور کے اندر ابتداء میں ایک اہم ترین بنیادی شق دیکھنے کو ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا نظام قرآن اور سنت ہے، قرآن اور حدیث ہے۔ پھر انہوں نے حدیث کی بھی تعریف کی ہے کہ اللہ کے نبیؐ کے فرمان اور عمل دونوں ہی حدیث یا سنت ہیں۔ یہ ہے اس ملک کا قانون اور دستور۔ اب آپ اس کو کس طرح بادشاہت کہہ سکتے ہیں؟
اگلی بات دیکھیں کہ جب سعودی عرب میں شاہ کا انتخاب ہوتا ہے تو اس کیلئے باقاعدہ ایک بیعت کونسل قائم کی گئی ہے، جہاں باہم مشاورت کے ساتھ نئے بادشاہ کا انتخاب ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ باپ فوت ہو گیا تو پھر اس کا بیٹا ہی بادشاہ بنے گا، لیکن چونکہ ان کا ایک بہت بڑا شاہی خاندان ہے جو ہزاروں افراد پر مشتمل ہے اس لئے شاہ کا انتخاب بیعت کونسل کرتی ہے، پھر اس کی توثیق کیلئے باقاعدہ انہوں نے اپنے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ امرھم شوریٰ بینھم، یعنی مشورے سے ان کے سارے معاملات طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک بہت بڑی شوریٰ ہے جس میں پورے سعودی عرب سے قبائلی نظام کے تحت ہر علاقے اور قبیلے سے شوریٰ کا ایک ایک رکن لیا گیا ہے جس میں باہم مشاورت سے تمام معاملے طے ہوتے ہیں۔ اس کو آپ کس طرح معروف روایتی بادشاہت کہہ سکتے ہیں؟ اسی طرح نیچے شہروں کی سطح پر آ جائیں۔ وہاں بلدیات کا ایک باقاعدہ نظام ہے اور اس کے ممبران کا انتخاب اور چنائو شروع ہو گیا ہے۔ یوں بلدیات کا نظام ،جسے معروف معنوں میں بنیادی جمہوریت کہا جاتا ہے ،گراس روٹ لیول پر موجود ہے۔ کیا ہم اس نظام کو بادشاہت کہہ سکتے ہیں؟
اسی طرح ملک میں چونکہ اسلام عملی طور پر نافذ ہے، اس کے لئے انہوں نے ایک مجلس قائم کی ہے جس کا نام ھیئۃ کبار العلماء یعنی ملک کے بڑے بڑے جید ممتاز علماء کی ایک کونسل یا مجلس بنائی گئی ہے، جس میں مملکت کو درپیش کوئی بھی مسئلہ شرعی اور دینی اعتبار سے دیکھنے، پرکھنے اور حل کئے جانے کے لئے پیش ہوتا ہے اور اس مجلس کو اتنا اختیار حاصل ہے کہ اگر بادشاہ ٹیڑھا ہو کر چلے تو اسے بھی معزول کیا جا سکتا ہے، یہ ہے اس نظام کا حسن۔ اس ضمن میں پاکستان کی مثال پیش کروں گا، جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں 73ء کے آئین میں ایک ترمیم 58(2)B کے ذریعے سے صدر کو یہ اختیارات دیئے گئے تھے کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس ترمیم کو بہتر نہ جانا تو انہوں نے اس کو بھی ایک ترمیم کے ذریعے سے ختم کر دیا، یعنی ملکوں میں حالات کے مطابق قانون سازی ہوتی رہتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ سعودی عرب کے اندر خالص اللہ سے ڈرنے والے، اللہ کے لئے فیصلے کرنے والے، کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے والے علماء کی ایک بہت بڑی مجلس ہے، جسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بادشاہ کو بھی معزول کر سکتی ہے۔ اب ایک مثال بھی ہے کہ شاہ عبدالعزیز آل سعودؒ جب فوت ہو گئے تو ان کے صاحبزادے شاہ سعود بادشاہ بن گئے، لیکن ان کے بارے میں علماء کی مجلس میں چند مسائل پیش کئے گئے اور اس مجلس نے مشاورت کے بعد شاہ سعود کو معزول کر کے عہدے سے ہٹا دیا اور شاہ فیصل کو بادشاہ بنا دیا۔ اس لئے سعودی عرب کے نظام حکومت کو معروف معنوں میں بادشاہت (ملوکیت) کہنا بالکل غلط ہے اور جسے دنیا اصطلاحاً بادشاہت کہتی ہے وہ نظام سعودی عرب میں نافذ نہیں، اس لئے جب ہم ان کے نظام کو دیکھتے ہیں تو میں لوگوں کی تفہیم کیلئے اسے آج کے دور کی بہترین اسلامی، جمہوری بادشاہت کہتا ہوں،جو اس وقت دنیا کی بہترین اور خوشحال فلاحی ریاست ہے۔
اس لئے میری گزارش ہے کہ سعودی عرب کے نظام حکومت کو بادشاہت کہنا ناانصافی ہے، بلکہ میری دانست میں صرف جدید سیاسی نظریات سے ہم آہنگ لوگوں کو سمجھانے کیلئے عرض کرتا ہوں کہ سعودی عرب کے نظام حکومت کو آپ اسلامی، فلاحی، جمہوری بادشاہت کہہ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سعودی عرب کا دعویٰ یا موقف نہیں میری ذاتی رائے ہے تاکہ جمہوری لوگوں کو ان کے انداز و زبان میں سمجھا سکوں۔ اس لئے جو لوگ کہتے ہیں کہ یمن کے حوثی باغیوں کے ساتھ کشیدگی سے حرمین کو خطرہ نہیں بلکہ سعودی بادشاہت کو خطرہ ہے، غیر مناسب تصویر پیش کر رہے۔ سعودی عرب کا موجودہ نظام حکومت بہت ممکن حد تک اسلامی فلاحی نظام حکومت ہے اور پھر آل سعود نے حرمین شریفین کی جو خدمت کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس ضمن میں میں عرض کر دوں کہ جب شاہ عبدالعزیز فرمانروا بنے تو حرم مکی کے اندر چار مصلے معروف تھے، اس کے علاوہ بھی کئی مصلے تھے۔ ایک مصلے پر جماعت ہوتی تو باقی دیکھتے رہتے، یوں مسلمانوں کی ساری جمعیت منتشر تھی۔ اس منتشر امت کو شاہ عبدالعزیز نے حرم کے اندر متحد کیا۔ فرقہ واریت کا خاتمہ کیا۔
قارئین کرام !ہر ملک نے اپنے اپنے انداز سے اپنا نظام حکومت تشکیل دے رکھا ہے اس پر عملی لحاظ سے گفتگو کی جا سکتی ہے باقی اس صورت حال میں جو پاکستان کے مفاد کو زک پہنچائی جارہی
ہے اس پر کم توجہ دی جارہی ہے ۔کیونکہ یمن سعودی عرب کشیدگی کے پیچھے بہت بڑی عالمی سازش ہے۔ پاکستان میں پاک چین معاشی راہداری کا قیام عمل میں آ رہا ہے۔ چین کے صوبے کاشغر سے لے کر گوادر تک معاشی راہداری کیلئے پاکستان اور چین کے درمیان معاہدے طے پا چکے ہیں۔ اب اس اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لئے ایک مدت سے کوشش کی جا رہی تھی، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا جا رہا تھا کہ گوادر کی بندرگاہ آپریشنل نہ ہو سکے۔ اب ہماری بہادر افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے سے بہت حد تک امن بحال کر دیا ہے اور اللہ کے فضل سے مزید جو تھوڑی بہت کسر باقی ہے، وہ بھی پوری ہو جائے گی اور مکمل امن بحال ہو جائے گا۔ کیونکہ اگر ملک میں امن ہو گا تو معاشی راہداری کے فیوض عوام تک پہنچیں گے۔ لیکن ادھر آپ نے پاکستان میں امن قائم کیاادھر امریکہ اور اسرائیل نے اور ان قوتوں نے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے جا رہی تھیں، یمن میں باغیوں کو کھڑا کیا۔ عدن کے پاس بحر احمر پر باب المندب تک باغی آ چکے ہیں۔ اب ذرا دیکھیں۔ گوادر کی بندرگاہ سے متصل بحری راستہ کون سا ہے؟ تمام جہاز باب المندب سے گزریں گے اور پھر نہر سویز کو عبور کر کے آگے جائیں گے اور اگر وہاں باغی بیٹھے ہوں گے تو پاک چین معاشی راہداری غیر محفوظ ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے سارے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ایک بین الاقوامی سازش رچائی گئی ہے۔ اس سازش پر پاکستان اور چین کیسے خاموش رہ سکتے ہیں ؟