میں اس فوجی جوان کیپٹن خالد افتخار شہید کا خط پڑھ کر کتنی دیر آنسو بہاتا رہا جس نے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے لئے جانے والی ٹیم میں اپنے آپ کو رضاکارانہ پیش کیا۔ اس نے جلدی جلدی اپنی زندگی کا آخری خط لکھا۔ بسم اللہ کے بعد اس نے سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو مخاطب کیا پھر اس پر لکیر پھیر دی، پھر اپنی بیوی فائزہ کا نام لکھا، اس پر بھی قلم کی سیاہی کو لکیر بنا دیا۔ تیسری اور آخری بار اس نے پاکستان کو مخاطب کیا اور پھر خط لکھا... سوچ کی بلندی ملاحظہ ہو کہ وہ جان دینے کے لئے جا رہا ہے اور واضح کرتا ہے کہ وہ یہ جان اللہ کی راہ میں دے رہا ہے‘ پاکستان کے ہر مرد اور عورت، ہر بچے اور جوان کی جان کی حفاظت کے لئے اور آبرو کے تحفظ کے لئے جان دے رہا ہے‘ اس لئے اس کا مخاطب سارا پاکستان ہے اور اسی میں اس کی والدہ اور بیوی کے لئے بھی دو تین جملے موجود ہیں کہ خصوصی رشتوں کے تقاضے کا اس کے ہاں بس اسی قدر حق ہے۔ سوچ کی یہ بلندی اور پختگی اسی کا نصیب بنتی ہے جو اس زمین کی سطحی سوچوں سے اپنے آپ کو بہت اونچا لے جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ ہیں پاکستان کے محافظ جو اس وقت پاکستان مخالف مذہبی اور سیاسی دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
مذہبی دہشت گرد پاکستانی مسلمان کی جان لیتا ہے اور سیاسی دہشت گرد بھی پاکستانی مسلمان کی جان لیتا ہے۔ کام دونوں کا ایک ہے اور جس بے گناہ کی جان یہ لیتے ہیں، اس مظلوم کی ماں اور باپ کو، یتیم بچوں اور بیوہ خاتون کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ جس دہشت گرد نے اس کے پیارے کا خون بہایا وہ مذہبی تھا یا سیاسی تھا۔ وہ مذہبی خارجی تھا یا سیاسی خارجی تھا۔ وہ مذہبی تکفیری تھا یا سیاسی تکفیری تھا۔
اسے تو اس بات سے غرض ہے کہ دہشت گرد اور دہشت گردی کو ختم ہونا چاہئے۔ اس کے دیس میں امن اور سکون ہونا چاہئے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ جوان جان دے رہا ہے اور ماں اور بیوی کے ناموں پر لکیر پھیر کر پاکستان کو مخاطب کر رہا ہے۔ یہ بھی کسی پاکستانی باپ کا بیٹا ہے۔ پاکستانی ماں کا لخت جگر ہے، پاکستانی مسلمان بہن کا وِیر ہے۔ اس کے لواحقین کا سوال صرف یہ ہے کہ اس کے ادارے کو جب بے مقصد مطعون کیا جاتا ہے تو اس پر اٹھارہ کروڑ ان پاکستانیوں کا کیا ردعمل ہے کہ جن کی حفاظت کے لئے وہ اپنی جان... جان آفریں کے سپرد کر رہا ہے؟ گویا وہ کہہ رہا ہے: ''نہ بیوی کے لئے، نہ ماں کے لئے، میری جان ہے پاکستان کے لئے‘‘۔
جن مسلمان ملکوں میں اس وقت وہاں کے باسیوں کا خون بہہ رہا ہے، آپ دیکھ لیں پہلے اس ملک کی فوج کو ختم کیا گیا، ملکی سکیورٹی اداروں پر اس ملک کے لوگوں کے جتھے بنا کر حملے کروائے گئے۔ حقوق کے نام پر افراتفری پھیلائی گئی، صوبائیت اور قومیت کی بنیاد پر افتراق پیدا کیا گیا، مذہب اور مسلک کی اساس پر باہم نفرت کی خلیج کو حائل کیا گیا۔ یوں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی، وہاں کے سکیورٹی ادارے بھی مندرجہ بالا گھٹیا سوچوں کا شکار ہو گئے۔ باہم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور پھر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس ملک کا کیا حال ہوا۔ عراق کی فوج نہ رہی تو مسلح جتھے بن گئے۔ آج وہاں مسلمان، شیعہ سنی کے نام پر قتل ہوتے ہیں تو دوسری
جانب مسیحی بھی مارے جاتے ہیں۔ ایزدی قتل ہوتے ہیں تو کرد بھی مارے جاتے ہیں۔ یہی حال شام کا ہوا۔ لیبیا کا بھی یہی حشر ہوا۔ اور اب یمن بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ ان تمام ملکوں کے سکیورٹی ادارے تباہ ہو گئے اور پھر ہر شہری کی تباہی اس کا مقدر بن گئی۔
میں جب ایسی کوئی چنگاری اپنے ملک میں دیکھتا ہوں تو تڑپ اٹھتا ہوں۔ ڈاکو تھانے پر حملہ کرتے ہیں اور اہلکاروں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں۔ سیاستدان ایم پی اے اور ایم این اے تھانوں پر حملہ کرتے ہیں اور اپنے بندے چھڑوا کر لے جاتے ہیں۔ دہشت گرد جیلوں پر حملہ کرتے ہیں اور اپنے ساتھی چھڑوا کر لے جاتے ہیں یعنی فون کر کے اپنے بندے چھڑوانے سے اب بات آگے بڑھ چکی ہے اور بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ بات مزید آگے بڑھتی چلی گئی اور رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو ہم کہاں جا کھڑے ہوں گے؟ بجائے اس کے کہ وہ آخری مرحلہ آئے جب ہمارے جوان جان دینے کے لئے آگے بڑھیں اور ایک آخری خط پاکستان کے نام لکھیں‘ اس سے پہلے ہم ایسے لوگوں کو کیوں نہیں روک دیتے؟ یہ اک سوال ہے، فکرمندی ہے اور تشویش ہے۔
چند دن ہوئے‘ کچھ احباب نے مجھے مجبور کیا اور لاہور کے ایک اچھے ہوٹل پر کھانے کے لئے لے گئے۔ احباب نے مجھے بتلایا کہ ہم یہاں آتے رہتے ہیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ اس ہوٹل کے مالک نے اپنے ایک ملازم کو معمولی سستی پر برا بھلا کہا اور تمام لوگوں کے سامنے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ ہم نے ہوٹل مالک سے کہا کہ آپ نے سب لوگوں کے سامنے اپنے ملازم کو اس قدر بے عزت کر دیا‘ یہ مناسب نہیں ہے۔ ہوٹل مالک ہمیں کہنے لگا، یہ میرا معاملہ ہے میں جو چاہوں کروں اور اپنے ملازموں کے ساتھ جیسا سلوک چاہوں کروں، آپ کو مداخلت کا کوئی حق نہیں... ہم اس واقعہ کے دو تین دن بعد گئے تو کیا دیکھا کہ ہوٹل مالک کے ہاتھ اور کلائی پر پلستر چڑھا ہوا تھا، ہم نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ہوٹل مالک کا اسی دن ایکسیڈنٹ ہوا اور ہاتھ کی ہڈی کلائی اور دیگر جگہوں سے ٹوٹ گئی اور یہ وہی ہاتھ تھا جس نے ملازم کو تھپڑ مارا تھا۔ ہماری مداخلت کو تو اس شخص نے برداشت نہ کیا مگر اللہ نے جب مداخلت کی تو برسرزمین فوراً ہی بدلہ لے لیا۔
اللہ کے رسولﷺ کی حدیث ہے، فرمایا! مظلوم کی بددعا سے بچو چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو... جی ہاں! وہ غیر مسلم ہے، چاہے کچھ بھی ہے مگر اپنے اللہ کا تو بندہ ہے، وہ اللہ کو نہیں مانتا تب بھی اللہ کا بندہ ہی ہے۔ اللہ رب العالمین ہے۔ وہ اپنے نہ ماننے والوں پر بھی ظلم برداشت نہیں کرتا، لہٰذا ہمارے پاکستان کے نظام اور سسٹم میں جو ظلم روا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے تو اس کی حرارت اور تپش ایسی بڑھ جائے کہ سسٹم ہی جواب دے جائے‘ اس سے پہلے ہمیں سسٹم کو ٹھیک ضرور کرنا چاہئے کیونکہ سسٹم میں ناانصافی کی انتہا ایک دن سسٹم کے حاملین کی ہڈیاں بھی توڑ سکتی ہے۔ وہ وقت نہیں آنا چاہئے، وہ ہر ایک کے لئے خطرناک ہو گا۔
مثال کے طور پر پولیس کا نظام جس قدر بھی خراب ہے اسے افراتفری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ آج اس خراب سسٹم میں بھی ایک چور اگر پکڑا نہیں جاتا، دوسری چوری پر ایک تھانے کو پیسے دے کر چھوٹ جاتا ہے، تیسری چوری پر بہرحال پکڑا جائے گا تو یہ تھانیدار اسے الٹا لٹکا کر مارے گا بھی، مال بھی برآمد کرے گا اور جیل بھی بھجوائے گا... لیکن اگر سسٹم ہی نہ رہے تو پھر کون سا گھرچوروں سے محفوظ رہے گا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ موجودہ سسٹم کو برقرار رکھتے ہوئے اسے افراتفری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اس کو ٹھیک کرنا چاہئے، اسے بدلنا چاہئے، عدل پر اسے استوار کرنا چاہئے اور اس میں کسی دہشت گرد کا لحاظ نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن نے جو فرمایا کہ ایسے لوگوں کو سزا دیتے وقت نرم نہیں ہونا چاہئے۔ جی ہاں! نرمی ہو گی تو جس ماں کے شیر جوان نے پاکستان کے نام خط لکھا ہے، ماں اور بیوی کے ناموں کو کاٹا ہے، اس بلند سوچ کی نفی ہو گی۔ اور یاد رکھنا چاہئے‘ بلند سوچوں کے حامل، سجیلے جوانوں کے پاکیزہ خون کی نفی ہمیں مثبت، ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان نہیں دے سکتی۔ موجودہ سسٹم کے حامل حکمرانوں کو یہ حقیقت بہرحال ذہن نشین رکھنا چاہئے۔