امریکی ڈاکٹر الیگزینڈر کی عمر 56سال ہے۔ دنیا میں دماغ کے چوٹی کے چار سرجنوں میں سے وہ ایک ہیں۔ 30سالہ سروس کے دوران انہوںنے دماغ کے ہزاروں آپریشن کئے۔ وہ ہسپتال میں دماغی شعبہ کے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب ملحد تھے یعنی اللہ کے منکر تھے۔ روح اور جنت کو بالکل نہ مانتے تھے۔ مسیحیت کے ساتھ بس روایتی سا تعلق تھا۔ ان کی بیوی اور دو بیٹے تھے۔ بڑی خوشحال زندگی بسر ہو رہی تھی کہ اچانک انہیں ریڑھ کی ہڈی میں درد ہوا۔ چند منٹوں میں یہ درد اس قدر بڑھا کہ ڈاکٹر صاحب بے ہوش ہو گئے۔ ان کی بیوی نے فون کیا اور ایمبولینس ڈاکٹر صاحب کو انہی کے ہسپتال لے گئی۔ مسئلہ دماغ کا تھا چنانچہ وہ جس شعبہ کے سربراہ تھے، اسی شعبے کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیئے گئے۔ جدید ترین مشین ان کے دماغ کے ساتھ فٹ کر دی گئی جو لمحہ لمحہ کی دماغی فلم ریکارڈ کر رہی تھی اور دکھلا بھی رہی تھی۔ ہفتہ بھر ڈاکٹر صاحب بے ہوش رہے۔ دماغ کا وہ حصہ جہاں شعور، یادداشت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ ایسے مریض بچ نہیں پاتے۔ سو میں سے ایک انتہائی مشکل سے بچ پاتا ہے۔ بچ جائے تو یادداشت اور شعور ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر الیگزینڈر کے بچنے کا چانس مندرجہ بالا اتفاق سے بھی کہیں کم تھا۔ لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ڈاکٹروں کی ٹیم نے جب علاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا کہ اب ڈاکٹر صاحب کے بچنے کی امید ختم ہو چکی ہے، تو اچانک وہ ہوش میں آنا شروع ہو گئے۔
ڈاکٹر اسے دماغی میڈیکل دنیا کا ایک معجزہ قرار دیتے ہیں۔ اس سے اگلا معجزہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب تیزی کے ساتھ صحت یاب ہونا شروع ہو گئے۔ ان کی یادداشت بھی بحال ہو گئی۔ شعور کی قوتیں پوری طاقت کے ساتھ سرگرم ہو گئیں۔ ہفتہ بھر بے ہوشی کے دوران میں ڈاکٹر صاحب ایک اور جہان میں پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے اس جہان کی کہانی سنانا شروع کر دی۔ کہتے ہیں میں ایک تاریک سرنگ کے اندر داخل ہوا، اس کے آخر پر روشنی تھی، میں اس روشنی کے پاس پہنچا پھر نورانی بادلوں میں پرواز کرنے لگا، پرواز کرتے کرتے ایک انتہائی خوبصورت اور نورانی وجود جسے مرد اور عورت نہیں کہا جا سکتا مگر عورت سے زیادہ مشابہ تھا، میرے ساتھ محو پرواز ہو گیا۔ ہم زبان سے بات نہ کرتے تھے، مافی الضمیر کے اظہار کا سلسلہ ذہن کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور یہ انتہائی مکمل اور پرفیکٹ تھا۔ دوران پرواز ایسے ایسے علاقوں سے گزر ہوا کہ ان تجربات اور مشاہدات کو زبان سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آخرکار جنت کے دروازے پر پہنچ گئے مگر وہاں میرے ساتھ محو پرواز شخصیت جو انتہائی مہربان تھی اسے ایک دوسرے نورانی وجود نے مخاطب کر کے کہا کہ اسے واپس لے جائو، ابھی اس کا وقت باقی ہے۔
یہی وہ وقت تھا جب میری نبض نے چلنا اور دل نے دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔ آنکھوں کے پپوٹوں نے کھلنا شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر حیران تھے۔ میری بیوی، ساس اور بیٹے جو پاس کھڑے تھے خوشی سے نہال ہو گئے تھے کہ میں پھر سے زندگی کی جانب لوٹ رہا ہوں۔
قارئین کرام! مذکورہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بے ہوشی کی ہفتہ بھر کی فلم بھی دیکھی، پھر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ''جنت کا ثبوت‘‘ ہے۔ میں نے انگریزی میں ساری کتاب پڑھ ڈالی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اللہ، آخرت اور روح پر ایمان لا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تو ان چیزوں کو مانتا ہی نہ تھا لہٰذا میرے شعور میں اگر تصور تھا تو وہ منفی تھا مگر جب میرا شعور اور سب کچھ دماغی طور پر مردہ ہو گیا اور صرف اتنی سی رمق رہ گئی کہ جس سے زندگی کی ڈور بندھی ہوئی تھی تو یہ مناظر جو میں نے دیکھے یہ دماغی سائنس کے حوالے سے ناممکن ہیں۔ پھر میں نے کیا دیکھا؟ یقینا جس ''مَیں‘‘ نے دیکھا، وہ میری روح تھی۔
قارئین کرام! ڈاکٹر ایبن الیگزینڈر کہتے ہیں: میرا اگلی دنیا میں گزرا ہوا ایک ایک سیکنڈ اس قدر خوشگوار تھا کہ میری 55سالہ
زندگی اس ایک لمحے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر صاحب نے اب ریسرچ کا بہت بڑا ادارہ بنا دیا ہے جہاں وہ اللہ پر ایمان اور جنت و روح کی سائنسی توجیہات بیان کرتے ہیں۔ ان کی کتاب کو لاکھوں لوگ پڑھ چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ان سے رابطے میں ہیں۔ ہزاروں لوگ ان کا لیکچر سنتے ہیں۔ امریکہ میں اس وقت وہ ایک معروف شخصیت ہیں جن کے ساتھ بہت سارے سائنسدان، ڈاکٹرز اور دانشور وابستہ ہیں جو سائنسی تحقیقات کے ذریعے سے مشترکہ کام کرتے ہیں۔
میں نے یہ ساری تفصیل اس لئے بیان کی ہے کہ چند دن پہلے وزیراطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید صاحب مدارس کو جہالت کے ادارے قرار دے چکے ہیں۔ کراچی کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جہالت کی مثال بھی پیش کی اور کہا کہ ان مدارس سے جو کتاب سامنے آتی ہے اس کا عنوان رکھا جاتا ہے ''مرنے کے بعد کیا ہو گا؟‘‘ اس کے بعد حاضرین ازراہِ مذاق ہنس دیتے ہیں اور ان کی ہنسی پر ہمارے وزیر اطلاعات سمجھتے ہیں کہ انہوں نے علم اور دانش کی بات کی ہے، تبھی تو سامنے بیٹھے دانشوران ہنسے ہیں۔
موت کے بعد زندگی کے موضوع پر ڈاکٹر الیگزینڈر سے پہلے بھی کئی ڈاکٹروں نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں۔ ڈاکٹر الیگزینڈر کی کتاب مذکورہ کتب میں اس لئے اہم ترین کتاب ہے کہ ڈاکٹر صاحب دماغ کے ماہر ہیں، سرجن ہیں اور چوٹی کے دماغی سائنس دان ہیں۔ ذاتی تجربہ سے گزرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جو پہلے اپنے آپ کو دانشور سمجھتا تھا، وہ جہالت تھی، علم مجھے اب حاصل ہوا ہے جب میں آخرت کے نظریے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ پھر وہ جدید سائنسی انداز سے اسے ثابت کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے ملک کے وزیر اطلاعات جو برطانیہ میں بھی ایک عرصہ رہے ہیں، کتاب سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، ان سے یورپ اور امریکہ کی ایسی کتب کیسے اوجھل رہ گئی ہیں اور اگر اوجھل رہ گئی ہیں یا انہیں مذکورہ کتب کی اطلاع نہیں ہو سکی تو پھر یہ ایک موضوع پراطلاعات کا فقدان ہے۔ جسے وہ علم قرار دے رہے ہیں ڈاکٹر الیگزینڈر اسے لاعلمی قرار دیتے ہیں۔
میں ان سے عرض کروں گا کہ وہ ڈاکٹر الیگزینڈر کی کتاب کا مطالعہ کریں بلکہ ڈاکٹرصاحب کو اپنے ہاں مدعو کریں، سیمینار رکھیں، وہاں خالص سائنسی اور علمی انداز سے اپنا بھی مدعا بیان فرمائیں، ہم جیسوں کو بھی بلا لیں تو مہربانی ہو گی۔ بلائیں ضرور۔ اگر خرچے کا معاملہ ہو تو میں حاضر ہوں، فنڈ اکٹھا کر کے یہ مسئلہ حل کر لوں گا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کو امریکہ سے بلوانا بہرحال میرے بس میں نہیں۔ یہ کام جناب پرویز رشید صاحب ہی کا ہے۔ رشید کے معنی بھلائی کے ہیں، میں نے بھلائی کی ایک گزارش کی ہے، مجھے جناب وزیراطلاعات کی طرف سے رشیدانہ اطلاع کا انتظار رہے گا۔