ہندوستان میں جہاں جہاں بھی مسلم کش فسادات ہوئے ہیں آپ اس کے پس منظر میں جائیں گے تو ایک ہی چیز سامنے آئے گی کہ مسلمان تجارت اور بزنس میں آگے بڑھنے لگے تو فسادات کروا کر ان کے کاروبار کو تباہ کر دیا گیا، حتیٰ کہ اگر کسی مسلمان کی دکان محلے میں چوک اور کارنر جیسی اچھی لوکیشن اور پوزیشن میں تھی تو اسے بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ برہمن کی یہ تنگ نظری پاکستان کے بارے میں بھی عالمی سطح پر پورے جوبن کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے بہترین جغرافیہ سے نوازا ہے کہ چین جیسی معاشی سپرپاور اپنا مال پاکستان کے ذریعے سے کاشغر سے گوادر لاکر آگے براعظم افریقہ، عرب دنیا اور یورپ تک لے جا سکتی ہے اور بدلے میں ان کا مال اسی راستے سے چین جا سکتا ہے۔ وسط ایشیا کی ریاستیں بھی اسی روٹ کو استعمال کر سکتی ہیں۔ یوں کاشغر۔ گوادر روڈ اور ریلوے لائن دنیا کی ایک اہم ترین تجارتی گزرگاہ بننے جا رہی ہے۔ انڈیا، واہگہ کے راستے اس شاہراہ سے منسلک ہونے کے لئے بے چین ہے مگر اس بے چینی کا بہترین حل یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کر لے اور پرامن پڑوسی بن کر تجارت کرے اور فائدے حاصل کرے۔ لیکن امریکہ کی شہ پر اس نے اپنی تنگ نظری کے پیش نظر دوسرا راستہ اختیار کر رکھا ہے جو بربادی اور دہشت گردی کا راستہ ہے۔ اسے پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ ہضم نہیں ہو پا رہا؛ چنانچہ وہ عرصہ پہلے اس منصوبے کو برباد کرنے کا پروگرام بنا چکا ہے۔
اس مقصد کے لئے اس نے پاکستان کے دو کناروں کو پکڑ رکھا ہے... گلگت بلتستان میں علیحدگی کی تحریک کو کھڑا کیا جائے، یہاں دہشت گردی کو رواج دیا جائے۔ دوسرا بلوچستان میں بھی یہی کام کیا جائے۔ اپنے منصوبے کی معاونت کے لئے اس نے کراچی پر بھی سرخ نشان لگا رکھا ہے۔ امریکہ کا تعاون اسے اس حد تک حاصل ہے کہ وہ کاشغر کے مسلمان علاقوں میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دیتا رہتا ہے۔ یوں یہ مل کر بھی کام کرتے ہیں اور الگ الگ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلتستان کا ایک علیحدگی پسند دانشور اور لیڈر اس وقت امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی حکومت کے خرچے پر انڈیا کا کام کر رہا ہے۔ اس کا تعلق بلتستان کی وادی شیگر سے ہے۔ اس کا پورا نام سینج حسنین سیرنگ ہے۔ ''گلگت بلتستان سٹڈیز‘‘ کے نام سے اس نے ادارہ بنا رکھا ہے۔ جس کا باقاعدہ تعلق انڈیا کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے ساتھ ہے۔ ''را‘‘ کا ادارہ جس کا نام ''دفاعی مطالعہ اور تجزیہ‘‘ ہے، اس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مسٹر سینج انڈیا کے دورے کرتا ہے اور انڈیا کے فوجی میگزین ''انڈین ڈیفنس ریویو‘‘ میں گلگت بلتستان کو متنازعہ بنانے کے لئے مضامین لکھتا ہے۔ اس کا پہلا مضمون 17اگست 2009ء کو جبکہ تازہ مضمون 14 مئی 2015ء کو شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہی یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب مسٹر سینج ''یو این‘‘ کی اس کونسل سے خطاب کرتا ہے جو حقوق انسانی کے حوالے سے جنیوا میں طے کی گئی شرائط اور اصولوں کو ابھارتی اور واضح کرتی ہے۔ وہاں مسٹر سینج اپنے خطاب میں کہتا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے اور پاکستان کے کنٹرول میں ہے، وہاں حقوق انسانی کی پامالی ہو رہی ہے۔ یہی خطاب مسٹر سینج یورپین پارلیمنٹ اور برطانوی دارالعوام میں کرتا ہے۔ اسے ان خطابات کے پیسے ڈالروں، یورو اور پائونڈ میں ملتے ہیں، دیگر امداد الگ ہے۔ وہ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میںلیکچر دیتا ہے تو اسے ہر لیکچر کے بدلے پیسے ملتے ہیں۔ یوں پاک چین معاشی راہداری کو تباہ کرنے کیلئے اس کا ادارہ واشنگٹن ڈی سی میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے اور پاکستان میں اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے اور تعاون میں ہے۔ وہ دوہائیاں دے رہا ہے کہ چین، گلگت بلتستان کے چوک پر پہنچ چکا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت مسٹر سینج نے27دسمبر2014ء کو انڈین ڈیفنس ریویو میں مضمون لکھا اور اپنے دوستوں کو ابھارا کہ وہ معاشی راہداری کو متنازعہ بنانے کے لئے آگے بڑھیں۔
پاک چین معاشی راہداری کو متنازعہ بنانے کے لئے انڈیا کی
ایک خاتون ڈاکٹر مانیکا چانسوریا بھی انتہائی سرگرم ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اس نے جاپان، فرانس اور امریکہ کی نیو دہلی میں واقع جواہر لعل یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے۔ چین، پاکستان اور افغانستان اس کا موضوع ہے۔ برطانیہ کے اخبار گارجین میں وہ باقاعدگی کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پاک چین معاشی راہداری کے حوالے سے لکھتی ہیں۔ مذکورہ خاتون کا جو تازہ ترین مضمون شائع ہوا ہے اس کا عنوان ہی یہ ہے کہ ''پاک چائنہ معاشی راہداری کا مستقبل غیر یقینی ہے‘‘۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشی کوریڈور کو غیر یقینی بنانے کے لئے وہ کس قدر بے چین ہیں اور دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اسماعیلی کمیونٹی، جس کے سربراہ اور امام پرنس کریم آغا خان ہیں، ان کے دادا مسلم لیگ کے سربراہ رہے۔ پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا۔ گوادر بندرگاہ جسے قلات کے بلوچ سردار نے سلطنت عمان کو بیچ دیا تھا، 1958ء میں اسے خریدنے کے لئے حکومت پاکستان کو دو تہائی رقم دی۔ پاکستان میں وہ ایک تجارتی کمیونٹی ہے۔ بلتستان، چترال خصوصاً گلگت میں ان کی اکثریت ہے، جہاں خنجراب سے معاشی کوریڈور داخل ہو کر گلگت کے راستے آگے بڑھے گا۔ اسی برادری کے بے گناہ لوگوں کی بس کو جس میں خواتین بھی تھیں نشانہ بنا کر
45لوگوں کو بھون دیا گیا۔ یہ ظلم اور غمناک دہشت گردی کراچی میں اس لئے کی گئی تاکہ اس کا جھکڑ گلگت میں چلایا جائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مخصوص سیاستدان جو کبھی حکمران اور کبھی اپوزیشن میں ہوتے ہیں، آج پاک چین معاشی کوریڈور کے حوالے سے باتیں کر رہے ہیں جو مسٹر سینج کر رہا ہے اور جن باتوں کو مانیکا چانسوریا رقم کر رہی ہے۔ نریندر مودی چین کا دورہ کرتا ہے تو اسی راہداری کا شکوہ کرتا ہے۔ ایسے حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ صرف پاک فوج ہی نہیں بلکہ محب وطن سیاستدانوں اور دانشوروں کو آگے بڑھنا ہو گااور وہ آوازیں جو دہلی، واشنگٹن اور پاکستان سے بیک وقت اٹھ رہی ہیں انہیں بے نقاب کرنا ہو گا۔ وفاقی وزیر احسن اقبال قابل اور دانشور وزیر ہیں۔ وہ سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہے۔ اس عالمی یلغار کا ہر سمت سے ہر محب وطن کو مقابلہ کرنا ہو گا۔ دہشت گردی کو کچلنے میں جنرل راحیل شریف سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں تو ان کا ساتھ اخلاص کے ساتھ دینا ہو گا۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی مہم چلانا ہو گی کہ مسٹر سینج اور مسز چانسوریا کے سہولت کاروں کو پاکستان میں منہ چھپانے پر مجبور ہونا پڑے نہ کہ وہ ہر جانب دندناتے ہوئے ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہیں، ہر محب وطن پاکستانی دیکھتا رہے، دل ہی دل میں کڑھتا رہے اور چانسوریا بی بی کے پاکستانی سہولت کاروں کے ہاتھوں معاشی چوراہے پر واقع ہونے والے اپنے کاروبار کو وقت سے پہلے ہی اجڑتا ہوا دیکھتا رہے۔ نہیں نہیں! اس بار ایسا نہ ہو گا۔ نہ ہونے دیا جائے گا۔ (انشاء اللہ)