"AHC" (space) message & send to 7575

سعودیہ میں خودکش بمبار اور قرآن

شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سعودی عرب کے ایسے بادشاہ تھے جنہوں نے اپنے لئے ''خادم الحرمین الشریفین‘‘ کا لقب اختیار کیا اور اب ان کے چھوٹے بھائی شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے بادشاہ کا لقب بالکل ہی ترک کر دیا اور خادم الحرمین کے ساتھ اپنے آپ کو ''امام‘‘ کہلوانا شروع کر دیا ہے۔ امام کے لفظ میں ملک کی حکمرانی کا مفہوم بھی شامل ہے اور مسجد کی امامت کا مطلب بھی شامل ہے۔ ہم بات کر رہے تھے شاہ سلمان کے بڑے بھائی شاہ فہد مرحوم کی کہ جنہوں نے مدینہ منورہ میں دنیا کا سب سے بڑا پریس لگوایا اور وہاں سے قرآن کریم کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدینہ منورہ کے قرآن کمپلیکس ہی کا چھپا ہوانسخہ قطیف کی جامع مسجد علیؓ میں فرش پر پڑا ہے اور اس پر مسجد کے ایک نمازی کے جسم کا ٹکڑا پڑا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خون کے آنسو رویا کہ جس ظالم نے خودکش بمبار بن کر مسجد کے نمازیوں کے ٹکڑے کئے، اس کا قرآن سے کیا تعلق ہے؟ یقینا کوئی تعلق نہیں، داعش نے فوراً اپنے خودکش بمبار کی کارستانی کو فخریہ تسلیم کر لیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علاوہ دوسرے مسالک کے لوگوں کو زندگی کا حق دینے کے لئے تیار نہیں۔ ان لوگوں نے مسیحی لوگوں کے گرجوں میں بھی خودکش حملے کئے ہیں یعنی یہ نصرانیوں کو بھی زندگی کا حق دینے کو تیار نہیں۔ ان لوگوں نے یزدی لوگوں کی عورتوں، بچوں اور جوانوں کو بھی بے دریغ قتل کیا ہے، یہ ان کو بھی زندگی کاحق دینے کو تیار نہیں۔ جی ہاں! یہ اپنے علاوہ کسی کو بھی زندہ رہنے کا حق دینے کے روادار نہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ قرآن
کو صرف ہم ہی ماننے والے ہیں، حضرت علیؓ نعوذباللہ خلاف ورزی کر رہے ہیں اور پھر ابن ملجم نے مسجد ہی میں حضرت علیؓ پر حملہ کر کے شہید کیا تھا اور آج پھر ابن ملجم ہی کے پیروکار نے مسجد علیؓ میں اپنی حرکت کو دہرایا ہے۔ ایسی حرکتیں کرنے والے ہمارے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق خارجی ہیں۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر حلق سے نیچے نہیں اترے گا یعنی قرآن پر عمل نہ ہو گا۔ قرآن کیا بتلاتا ہے، ملاحظہ ہو!
(میرے پیارے نبی!) اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین پر رہنے والے سارے کے سارے لوگ ایک ہی بار ایمان والے بن جاتے تو کیا آپ لوگوں کواس وقت تک مجبور کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ ایمان والے نہیں بن جاتے (یونس: 99)
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبیﷺ کو مخاطب کر کے، قیامت تک کے لئے ان لوگوں کی اصلاح کر رہے ہیں جو اپنے نظریات کے علاوہ ہر شخص کو مجبور کر کے اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔
خارجی تو اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ جو کوئی ان کی بات اور ان کا عقیدہ نہیں مانتا اس کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ حق دیتا ہے، یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں، یہ اللہ سے آگے بڑھ گئے ہیں، اللہ کی تقدیرکا تقاضا بہرحال یہی ہے کہ جہاں آدم علیہ السلام رہیں گے وہاں ابلیس بھی رہے گا۔ اللہ کی زمین پر بت پرست بھی رہیں گے۔ پہلے نبیوں کو ماننے والے بھی رہیں گے اور حضرت محمد کریمﷺ کو ماننے والے بھی رہیں گے مگر خارجی گروہ ایسا گروہ ہے کہ جو اللہ کی تقدیر کے تقاضے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اللہ کے رسولﷺ مدینہ کی ریاست کے حکمران ہیں، ہمیں وہاں بھی یہ تقاضا عملی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ وہاں انصار اور مہاجرین جیسے جلیل القدر صحابہ بھی تھے، اسی مدینہ میں بت پرست مشرک بھی تھے، اسی مدینہ طیبہ میں یہودی بھی بستے تھے اور مسیحی بھی رہتے تھے، منافقین بھی وہیں آباد تھے۔ حضور نبی کریمﷺ سب کو اسلام کی دعوت دیتے تھے، تعلق رکھتے تھے، ان کو حقوق دیتے تھے، وہ آزادانہ اپنے دین پر عمل کرتے تھے، دین پر سوال و جواب بھی ہوتے تھے، گفتگو بھی ہوا کرتی تھی۔ یہ سب کچھ حدیث کی
کتابوں میں موجود ہے، مگر خارجی لوگ نہ اللہ کی بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں اور نہ حضرت محمد کریم کے مبارک اسوہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، اللہ مزید فرماتے ہیں:
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ سے آگے نہ بڑھو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ (الحجرات:1)
مگر یہ لوگ اس قدر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے آگے بڑھ چکے ہیں کہ سوائے گردنیں اتارنے اور دھماکے کرنے کے کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ کیا قرآن پر ایک نمازی کے جسم کا ٹکڑا یہ اشارہ نہیں کرتا کہ جس ظالم نے بے گناہ لوگوں کو مارا اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں... سکرین پر ایک اور ایسا ہی بھیانک منظر ہے کہ داعش کا ایک نام نہاد خدائی فوجدار شام کے ایک شہر کے بازار سے گزر رہا ہے۔ اس کو ایک لڑکی نظر آتی ہے جس نے چہرے پر نقاب نہیں لیا، پینٹ پہن رکھی ہے، لڑکی نرم و نازک اور دبلی پتلی سی ہے۔ یہ خدائی فوجدار بڑا قدآور اور موٹا تازہ ہے۔ یہ ایک ہاتھ سے لڑکی کے بالوں کو پکڑتا ہے، اسے زمین سے اوپر اٹھاتا ہے، دوسرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے خنجر سے ذبح کر دیتا ہے اور خون آلود کلمہ پڑھنے والی مسلمان بچی کو دور پھینک دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک قصاب مرغی کو ذبح کر کے اپنے پھٹے کی ایک سائیڈ پر پھینک دیتا ہے۔ کسی نے مجھے یہ منظر دکھانے کی کوشش کی۔ میں نے دیکھنے سے انکار کر دیا، اس لئے کہ مجھ میں یہ سکت نہیں ہے، البتہ سن لیا اور سن کر ہی کتنی دیر تک آنسو بہاتا رہا۔
میرے سامنے میرے پُررحمت پیارے نبیﷺ کا اسوہ یوں جلوہ گر ہوتا ہے کہ آخری حج کے موقع پر جب حضورﷺ عرفہ سے واپس تشریف لا رہے تھے، آپ کے پیچھے حضرت عباسؓ کے بیٹے حضرت فضل بن عباسؓ بیٹھے تھے۔ حضرت فضل بڑے گورے چٹے نوجوان تھے، انتہائی خوبصورت تھے، کالی زلفیں رکھی ہوئی تھیں، عورتوں کا قافلہ بھی جاری تھا، حضورﷺ نے دیکھا کہ حضرت فضل عورتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں اور وہ حضرت فضل کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ آپﷺ نے حضرت فضل کا چہرہ دوسری طرف کر دیا، بخاری مسلم اور حدیث کی کتابوں میں یہ موجود ہے، یوں بھی آیا ہے کہ ایک خاتون مسئلہ پوچھنے آئی، یہ خاتون حضرت فضلؓ کی طرف دیکھنے لگی اور حضرت فضل اس کی جانب۔ حضورﷺ نے کسی کو کچھ نہ کہا بس حضرت فضل کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر چہرہ دوسری طرف کر دیا۔ دونوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا اور کمال مہربانی اور وقار کے ساتھ عملی طور پر نصیحت بھی فرما دی۔ بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نام نہاد خدائی فوجدار اللہ کے رسولﷺ سے بھی آگے بڑھ گئے۔ یاد رہے! جو آگے بڑھے گا وہ جہنم کے گڑھے میں گر سکتا ہے، جنت میں نہیں جا سکتا، اس لئے کہ اللہ اور رسول سے آگے جنت کوئی نہیں ہے۔ جنت تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے پیچھے پیچھے ہے۔ اللہ کے حضور دعاگو ہوں کہ مولا کریم سعودی عرب کو استحکام عطا فرمائے اور خارجی ذہنیت سے سارے عالم اسلام کو محفوظ فرمائے، پاکستان کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں