رمضان رحمتوں کا مہینہ ہے۔ شعبان کے آخری دنوں میں شاہ سلمان کعبے کے دروازے سے اندر داخل ہوا چاہتے ہیں۔ ''کلید بردار‘‘ آگے بڑھتا ہے اور بابِ کعبہ کا تالا کھولتا ہے۔ شاہ سلمان اندر داخل ہوتے ہیں۔ کعبہ کی دیواروں کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہیں۔ جب باہر نکلتے ہیں تو کلید بردار ساتھ ہی نکلتا ہے اور دروازے کو تالا لگا دیتا ہے۔ میری نظر ٹی وی سکرین پر جمی ہوئی ہے، آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ میں کبھی شاہ سلمان کو دیکھتا ہوں اور کبھی کلید بردار کو۔ یہ کلید بردار... اسی عثمان بن طلحہ کا فرزند ہے جس سے ایک بار میرے حضور نبی کریمﷺ نے تقاضا کیا تھا کہ وہ دروازہ کھول دے تاکہ حضورﷺ اندر داخل ہو کر اپنے رب کے حضور عبادت کر سکیں مگر عثمان بن طلحہ نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا، چابی دینے سے بھی انکار کر دیا اور صرف انکار ہی نہ کیا بلکہ برا بھلا بھی کہا... میرے حضورﷺ نے عثمان سے کہا، ایک وقت آئے گا یہ چابی محمدﷺ کے ہاتھ میں ہو گی تب جس کو میں چاہوں گا، دوں گا۔ عثمان بن طلحہ کہنے لگا، تب وہ دن ہماری ذلت اور بربادی کا دن ہو گا۔
میرے حضورﷺ نے مکہ فتح کر لیا، مکہ کی فتح کے بعد حضور نبی کریمﷺ شاہ عرب بن گئے ہیں کہ سارا عرب سرنگوں ہو چکا ہے۔ شاہ عرب اب بیت اللہ شریف میں ہیں اور کچھ ہی دیربعد کعبے کے اندر تشریف لے جانے والے ہیں۔ عثمان بن طلحہ کو بلایا
گیا وہ ہاتھوں میں چابی تھامے دوڑا آیا، سوچ رہا ہو گا کہ وہ دن تو آ گیا... اب کیا ہو گا؟ گردن سلامت بچ بھی گئی توچابی کے اعزاز کا تو اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جھڑکیاں سن کر جان ہی چھوٹ جائے تو بڑے نصیبے کی بات ہے۔ آنکھیں نیچی کئے جب حضورﷺ کے سامنے باادب کھڑا ہوا اور چابی حضورﷺ کے مبارک ہاتھ پر رکھی تو حضورﷺ نے بارہ تیرہ سال پرانی بات تو کیا یاد کروانا تھی، عظیم اخلاق کے مالک رحمت دو عالمﷺ نے تبسم فرمایا، رحمت بھری نظروں سے دیکھا، حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ جو حضورﷺکے پیچھے کھڑے تھے، عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسولﷺ! یہ چابی ہمیں دے دیجئے۔ میرے حضورﷺ نے کہا کہ تمہیں چابی نہیں دوں گا۔ چابی واپس عثمان بن طلحہ کے ہاتھ پر رکھی، عثمان نے کلمہ پڑھا اور ساتھ ہی میرے حضورﷺ نے فرمایا، عثمان! یہ چابی تیری اولاد میں رہے گی۔ وہ ظالم ہو گا جو چابی چھینے گا، اب عثمان آگے بڑھتا ہے، تالا کھولتا ہے اور شاہ عرب کعبہ میں داخل ہوتے ہیں۔
ٹھیک چودہ سو اٹھائیس سال بعد اسی عثمان بن طلحہؓ کی اولاد میں سے ان کا ایک بیٹا تالا کھولتا ہے اور شاہ سلمان اندر داخل ہوتے ہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو اس لئے رواں تھے کہ میرے حضور کا رحمتوں بھرا اخلاق ہر سال اس وقت بہار کا اک سماں باندھتا ہے جب کلید بردار کعبہ کا دروازہ کھولتا ہے۔ نام محمدﷺ اپنی پوری رعنائیوں اور عظمتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور زبان پر درود و سلام کا ورد چلتا ہے جب کلید بردار کعبہ کا دروازہ کھولتا ہے۔ ''محمدﷺ‘‘ کے معنی ہی یہ ہیں کہ ساری دنیا میں سب سے بڑھ کر جس کی تعریف کی جائے... ہاں ہاں! لوگو! میں رو اس لئے رہا تھا کہ اس رسولِ رحمتﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں نے جسموں کے ساتھ بارود باندھا اور مسجدوں کو منہدم اور نمازیوں کو شہید کر دیا۔ وہ مسجد کہ جس کے محراب کا رخ کعبہ کی جانب تھا۔ مجھے پریڈ لائن کی مسجد بھی یاد آئی کہ جس کے نمازیوں کا رخ کعبہ کی جانب تھا جن میں سے کتنے ہی شہید کر دیئے گئے۔ اسلام کے دشمنوں کو موقع ملا اور انہوں نے اسلام کو دہشت گرد کہنا شروع کر دیا۔ قرآن کو جلانا شروع کر دیا۔ ایسے خاکے بنانے شروع کر دیئے جس میں توہین آمیزی تھی۔ کعبہ پر ایٹم بم گرانے کی باتیں تھیں۔ دہشت گرد آگے بڑھتے چلے گئے۔ اب کے انہوں نے آرمی پبلک سکول کے بچوں کو نشانے پر رکھ لیا... یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ایک تبدیلی کا دن تھا۔ اسمِ محمدﷺ کی لاج رکھنے کا دن تھا۔
آپریشن کا نام ''ضربِ عضب‘‘ رکھا گیا۔ ''عضب‘‘ یہ میرے حضورﷺ کی تلوار کا نام ہے۔ یہ تلوار عورتوں، بچوں، مسجدوں، اقلیتوں، ان کی عبادت گاہوں کی محافظ تلوار ہے۔ پاک فوج نے یہ تلوار چلائی، بے دریغ چلائی اور زوردار چلائی۔ ٹھیک ایک سال کے بعد میاں محمد نوازشریف اور جنرل راحیل شریف نے اعلان کیا ہے کہ ضرب عضب کی یلغار کامیاب اور کامران ہو گئی ہے۔ اس کامیابی پر ساری قوم خوشی سے نہال ہے، بلوچستان میں جنگجوئوں کا ہتھیار ڈالنا اک مثال ہے۔ میں مبارکباد پیش کرتا ہوں مٹی کے بندوں کو، مٹی کے جھنڈوں کو جنہوں نے قوم کی جھولی میں یہ کامیابی ڈالی ہے۔ قوم کے اٹھارہ کروڑ لوگ خصوصی خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، مٹی کے ان شیروںکو جنہوں نے پاکستان کا پرچم بن کر وطن کو امن دیا، مگر خود منوں مٹی کے نیچے چلے گئے۔ جب ان کے شیردل سالار جنرل راحیل شریف دھاڑ رہے تھے کہ اقتصادی کوریڈور بن کر رہے گا، دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی، تو اٹھارہ کروڑ عوام کی خوشحالی کا دروازہ کھل رہا تھا، صرف ایشیا ہی نہیں، یورپ اور افریقہ بھی... اور امریکہ بھی مستقبل میں اس کوریڈور سے معاشی خوشحالی کی جھولیاں بھرے گا۔ جھولی چاہے کوئی بھی بھرے، اس کا ٹیکس، راہداری کا محصول اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی جیب میں جائے گا۔ یوں پاکستان سونے کی چڑیا بنے گا۔ معاشی راہداری کی حفاظت کے لئے پاک فوج کے دس ہزار شاہینوں کو بھی متعین کر دیا گیا ہے جو ہمارے چینی بھائیوں کی حفاظت کریں گے اور دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملائیں گے۔
اے اہل وطن! جب اس چڑیا کے چہچہانے کا نظارہ کرو، اور عنقریب کرو گے (انشاء اللہ) تو جناب عاصم باجوہ صاحب کے کلپ ''مٹی کے بندے اور مٹی کے جھنڈے‘‘ کو کبھی نہ بھلانا، ان شہداء کے وارثوں کو کبھی نہ بھلانا کہ جنہوں نے یلغار کی، نام محمدﷺ کی لاج رکھی اور امن کی سوغات تمہاری جھولی میں ڈالی۔ اے مٹی کے بندو، اے مٹی کے جھنڈو! تمہارے وجود وطن کی مٹی میں ہیں مگر تمہاری پاکیزہ روحیں فردوس کے بالاخانوں میں ہیں۔ ہم عزم کرتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری راہوں کے راہی ہیں۔ وقت آنے پر مٹی کے بندے بنیں گے، اپنے پرامن اسلام اور ملک و قوم کا دفاع کریں گے اور پھر تمہارے ساتھ آن ملیں گے۔ (انشاء اللہ)