پاکستان 14اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا، مسرت کے مناظر کا آغاز ملک بھر میں یکم اگست سے ہی ہو جاتا ہے۔ اس بار یکم اگست کو ایسی پرمسرت خبر ملی جس نے اہل دانش کے دلوں کو باغ باغ کر دیا، ساتھ ہی ساری دنیا کو حیران بھی کر دیا۔ خبر یہ ہے کہ پوری دنیا میں ذرات کی تحقیق کی سب سے بڑی لیبارٹری سرن کا، جو فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع ہے، پاکستان کو ممبر بنا لیا گیا ہے۔ چند دن قبل پاکستان کو ''شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کی رکنیت بھی ملی۔ اس رکنیت کا تعلق چونکہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست سے ہے اس لئے اس کی خبر شہ سرخی اور بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہوئی مگر میرے خیال میں ''سرن‘‘ کی جوہری تنظیم کی رکنیت شنگھائی تعاون تنظیم کی خبر سے کہیں بڑی اور اہم ترین خبر ہے۔ اس لئے کہ شنگھائی تنظیم کی رکنیت تو بھارت کو بھی ملی مگر ''سرن تنظیم‘‘ کی رکنیت اسے نہیں دی گئی‘ حتیٰ کہ روس، چین، جنوبی کوریا اور جاپان بھی درخواست دینے کے باوجود یہ رکنیت حاصل نہیں کر سکے۔ یورپ کی جوہری تحقیقی سائنسی تنظیم کی رکنیت ایشیا بھر میں صرف پاکستان کو ملی ہے۔ بعض لوگ یقینا حیران ہیں کہ ایک پسماندہ ، کرپشن اور جامد مفاداتی سیاست کے ہاتھوں یرغمال اور تباہ حال ملک نے اتنا بڑا مقام کیسے حاصل کر لیا؟
پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، ایٹمی قوت حاصل کرنے کے لئے پاکستان نے جو ٹیکنالوجی استعمال کی وہ کئی ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجی سے بہتر ہے، پھر اس ایٹمی قوت کی حفاظت کیلئے پاکستان نے کئی سطحوں پر جو انتہائی محفوظ سسٹم مرتب کیا ہے اس میں بھی پاکستان سب سے آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے آج تک ایٹمی تنصیبات میں کہیں کوئی خرابی لیکج وغیرہ سامنے نہیں آئی کہ جس سے عوامی سطح پر نقصان ہوا ہو۔ اس کے برعکس امریکہ میں ایسے کئی حادثات میں بھاری نقصان ہو چکا ہے۔ روس میں چرنوبل کا حادثہ سب کو یاد ہے جس نے پورے علاقے اور ماحول کو ایٹمی تابکاری کی نذر کر کے تباہ و برباد کر دیا۔ ایسے حادثات یورپ میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت خاصا بدنام ہے‘ بھوپال میں ایٹمی تابکاری سے ہزاروں لوگ مرے ہیں۔ راجستھان اور دیگر کئی مقامات پر واقع جوہری تنصیبات میںبھی ایسے حادثات ہو چکے ہیں۔ خود جاپان میں جو دنیا کا مانا ہوا ترقی یافتہ اور سائنس میں اول درجے کا ملک ہے وہاں بھی فوکوشیما میں ایٹمی ری ایکٹرز کی تباہی کو دو سال قبل ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔ اس کے بعد جاپان نے ایٹمی بجلی سے ہی توبہ کر لی ۔ بھارت کے بارے میں دوبارہ بتلا دیں کہ اس کا ایٹمی نظام اس قدرفرسودہ ہے کہ ان کی ایٹمی آبدوزیں برقی نظام کی خرابی کی وجہ سے کھڑی کھڑی تباہ ہو چکی ہیں۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین ایٹمی ٹیکنالوجی اور اس کا فول پروف حفاظتی نظام بحمداللہ دنیا میں اب تسلیم کر لیا گیا ہے اور اس کا سرٹیفکیٹ ''سرن‘‘ کی رکنیت ہے۔ پاکستان کے دو اہم ترین سائنسی ادارے ''پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘‘ اور ''پاکستان نیشنل سنٹر فار فزکس‘‘ گزشتہ 22سال سے سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ 1994ء میں لیبارٹری کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ایک سو سے زائد پاکستانی سائنسدان سرن میں کام کر چکے ہیں۔ موجودہ صدی کا سب سے بڑا سائنسی انکشاف ''خدائی ذرے‘‘ کی دریافت ہے۔ اس دریافت میں 27پاکستانی سائنسدانوں نے حصہ لیا تھا۔ سرن لیبارٹری کی زیرزمین 27کلومیٹر طویل سرنگ میں جو اساسی سائنسی سامان اور آلات نصب ہوئے، وہ زیادہ تر پاکستان میں تیار کئے گئے۔ انڈے کی شکل میں بنائی گئی اس سرنگ میں 10عدد ڈیٹیکٹر نصب تھے ان میں سے 8 عدد پاکستان میں تیار کئے گئے۔ خدائی ذرے کی دریافت میں جن مایہ ناز پاکستانی سائنسدانوں نے حصہ لیا ان میں ڈاکٹر صاحبان حفیظ، جمیلہ بشیر، حسن شہزاد، تیمور خورشید، صالح محمد، محمد احمد، واجد علی، عادل الرحمن، اشتیاق حسین، وقار احمد، شمعونہ فواد، عمران ملک، ضیاء آفتاب اور محمد شارق شامل ہیں۔ ''سرن‘‘ کے مقام پر موجود لیبارٹری کو ''لارج ہیڈرون کولائیڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہ سائنسدان مستقل طور پر یہاں کام کرتے ہیں۔ جو باقی سائنسدان ہیں وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس لیبارٹری سے منسلک ہیں۔ پاکستان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس لیبارٹری کا تحقیقی مواد پاکستان بھیجا جاتا ہے اور ہمارے مایہ ناز سائنسدان پاکستان میں اس مواد کا سائنسی مشاہدہ کرتے ہیں، ان کے ماڈل بناتے ہیں جو واپس لیبارٹری میں بھیجے جاتے ہیں۔
سرن لیبارٹری کی جانب سے پاکستان کے سائنسی تحقیق کے ادارے ''پاکستان نیشنل سنٹر فار فزکس‘‘ میں 500کمپیوٹر لگائے گئے ہیں جو اعلیٰ تحقیق کے لئے لیبارٹری کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح لیبارٹری کے عالمی سائنسدانوں کی جانب سے پاکستان کو سائنسی سامان کی ڈیمانڈ دی گئی تو پاکستان نے اپنے اداروں میں جو سامان تیار کر کے دیا، اس کی مالیت دس ملین ڈالر یعنی ایک کروڑ ڈالر ہے۔ پاکستانی روپے میں یہ مالیت ایک ارب روپے سے زائد ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے ادارے ''ہیوی مکینیکل کمپلیکس‘‘ نے جو سامان فراہم کیا اس پر لیبارٹری کے عالمی سائنسدانوں نے ''سرن‘‘ کی جانب سے مذکورہ پاکستانی ادارے کو ''بیسٹ سپلائر ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔ بہت سارے حقائق میں سے یہ ہیں وہ چند حقائق جن کی بنیاد پر پاکستان کو سرن کی رکنیت دی گئی جبکہ انڈیا کو بے پناہ تگ و دو اور درخواستوں کے باوجود محروم رکھا گیا اس لئے کہ وہ اس کا اہل نہ تھا۔ اس رکنیت کے بعد اس پر سائنسی ترقی کے دروازے مزید کھلیں گے۔
پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے تو یورینیم کے ذرے کا دل چیر کر ہی ایٹمی قوت بنا ہے۔ یعنی ایک ذرے کا علم حاصل کیا اور اس میں پوشیدہ قوت کو قابو کر کے ایٹمی طاقت بن گیا۔ خدائی ذرہ جو سرن کی لیبارٹری میں دریافت ہوا ہے، سائنسدانوں نے بتلایا کہ کائنات جب ایک دھماکے کے ساتھ عدم سے وجود میں آئی تو اس دھماکے یعنی بِگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ہزار کھربویں حصے میں خدائی ذرہ وجود میں آ گیا اور اس نے توانائی کے بے کنار سمندر کو اپنی جانب کھینچنا شروع کر دیا۔ الغرض! اگر یہ ذرہ نہ ہوتا یعنی اللہ تعالیٰ اسے وجود نہ عطا فرماتا تو یہ کائنات توانائی ہی رہتی، موجودہ شکل میں مادی صورت اختیار نہ کرتی۔ آج بھی اگر اس ذرے کا کردار ختم ہو جائے تو ساری کائنات آن واحد میں توانائی بن جائے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ''سورئہ فاطر‘‘ کی آیت نمبر 41میں اس طرح بیان فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ ہی نے ساری کائنات کو سنبھال اور تھام رکھا ہے وگرنہ تمام آسمان اور زمین تحلیل ہو کر اپنا وجود کھونے لگ جائیں اور اگر یہ تحلیل ہو کر اپنا وجود کھونے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے بعد ان کو کوئی نہیں سنبھال سکتا۔ یہ اتنی بڑی حقیقت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔ اسی لئے مذکورہ دریافت شدہ ذرے کو سائنسدانوں نے گاڈ پارٹیکل یعنی خدائی ذرے کا نام دیا ہے۔ یاد رہے اس لیبارٹری میں ذرات پر تجربات کے بعد یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ روشنی سے زیادہ رفتار اس کائنات میں ممکن ہے۔ موجودہ ساری ترقی کی ٹیکنالوجی روشنی کی رفتار پر ہے۔ اگر نئے دور کی ٹیکنالوجی روشنی سے تیز رفتاری پر استوار ہو گئی تو موجودہ دور آنے والے وقتوں میں ایک پسماندہ دور تصور کیا جائے گا۔ مجھے خوشی ہے اس بات کی کہ آنے والے ممکنہ دور میں پاکستان حصہ دار اور ایک اہم ترین پارٹنر بن کر سامنے آیا ہے۔ (فللہ الحمد)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، بشیر الدین محمود اور ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے سائنسدانوں نے پاکستان کے لئے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ ہمارے طلبہ بھی اب دنیا میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ کیمسٹری کے حالیہ عالمی مقابلے میں دو پاکستانی طالب علموں عبداللہ اور سید فیضان نے باکو میں تمغے حاصل کئے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں پوسٹ گریجوایٹ کالج اور لاہور کے سٹی سکول کے لئے یہ ایک اعزاز ہے۔ الغرض! پاکستانی طلبہ عالمی سائنسی مقابلوں میں انعامات اور تمغے جیت رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان سائنس کے میدان میں کافی آگے جا رہا ہے۔ یوں حالیہ اگست کا پیغام یہ ہے کہ نظریاتی ملک پاکستان علمی میدان میں بھی چوکڑیاں بھر رہا ہے۔ جب کوئی ملک آگے بڑھتا ہے تو ہر میدان میں آگے بڑھتا ہے۔ پاکستان کا شمار آنے والے دنوں میں تیزی کے ساتھ ہر میدان میں آگے بڑھنے کا ہے لہٰذا تخریبی ذہن رکھنے والوں کے لئے علمی اور سائنسی میدان کا بھی پیغام یہی ہے کہ وہ ناکام ہوں گے۔ پس بہتر ہے کہ وہ تخریب کے بجائے تعمیر میں آگے بڑھیں۔ ان کا بھلا اسی میں ہے، پاکستان پائندہ باد۔