پاک فوج نے مذہبی اور سیاسی دہشت گردی پر مسلسل ضرب عضب کے تحت ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ امن‘ جس کو ہر آنکھ ترس گئی تھی‘ ہر دل میں امید کی مشعل بن گیا ہے۔ اب ہر پاکستانی کی خواہش یہ ہے کہ ہر گزرتے دن میں اس مشعل کی تابانی میں اضافہ ہی ہو۔ حالات، قرائن اور رویے یہی بتلا رہے ہیں کہ فیصلہ مشعل کی ضوفشانی میں اضافے ہی کا ہو چکا ہے۔
سکیورٹی فورسز کی تنصیبات اور وہاں تعینات محافظوں اور افسروں پر حملے کئے گئے۔ پریڈ لائن کی مسجد میں نمازیوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ ان بچوں کی خواتین اساتذہ کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔ سکیورٹی فورسز کے جن اہلکاروں کو اغوا کیا گیا ان کے سرکاٹ کر فٹ بال بنا کر کھیلا گیا اور ظلم کا ایسا ایسا بھیانک طرز عمل اختیار کیا گیا کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے لازوال قربانیاں دے کر اس سارے سلسلے کو روکا اور قربانیوں کا یہ سفر تاحال جاری ہے۔ مگر اس دوران پاک فوج نے ایک ایسا کردار ادا کیا جس نے فاتحؐ مکہ اور فتح مکہ کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ ایسا کردار نظریاتی لوگ ہی ادا کر سکتے ہیں اور پاک فوج ایک نظریاتی فوج ہے‘ جس نے ردعمل میں بھی اپنے نظریے پر آنچ نہیں آنے دی۔ میں ایسے کردار پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ پاک فوج کے جرنیل جناب ناصر خان جنجوعہ کے سامنے دہشت گرد ہتھیار ڈال رہے تھے اور وہ خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ہمیں آپ لوگوں نے گھائو اور زخم تو بڑے گہرے لگائے ہیں مگر ہم آپ کو معاف کرتے ہیں اور نہ صرف معاف کرتے ہیں بلکہ پانچ لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے تعاون بھی کرتے ہیں تاکہ آپ لوگ امن کی زندگی گزارتے ہوئے اپنے بیوی، بچوں، بھائیوں، بہنوں اور ماں باپ کا آسرا بن سکیں۔ میں سوچ رہا تھا، وہ کہ جن بچوں کو ان دہشت گردوں نے یتیم کیا، جن عورتوں کو بیوہ بنا کر بے آسرا کیا، جن بوڑھے ماں باپ کا بڑھاپے میں سہارا چھین لیا، ان کو سہارا اور آسرا بھی پاک فوج مہیا کرے گی اور سہارا چھیننے والوں کو بھی سہارا پاک فوج مہیا کر رہی ہے۔ یہ ہے نظریہ اور یہ ہے نظریاتی لوگوں کا کردار کہ جس نے فتح مکہ اور فاتح مکہ کی یادوں کو تازہ کر دیا۔
میرے حضورؐ نے جب مکہ فتح کیا تو ہند کو معاف کر دیا، جی ہاں! مقتل میں اس نے وحشی کو پیسے دے کر حضرت حمزہؓ کو شہید کروایا تھا۔ درست ہے کہ مقتل میں اس نے اپنا انتقام لیا لیکن یہ کہاں درست ہے کہ اس نے حضورﷺ کے چچا جان کا پیٹ چاک کیا، سینہ چیر ڈالا اور کلیجہ نگلنے کی کوشش کی تو نگل نہ سکی اور پھر اعضاء کا ہار بنا کر گلے میں ڈال لیا مگر میرے پُررحمت نبیﷺ نے فاتح بن کر یہ گھنائونا اور غیر انسانی فعل بھی معاف کر دیا۔ یہ کون عورت ہے، یہ ابولہب کی بیٹی ہے۔ حضورﷺ کے راستے میں کانٹے بکھیرنے والی ام جمیل کی بیٹی ہے۔ عتبہ عتیبہ کی بہن ہے کہ جن کے میرے حضورﷺ کی بیٹیوں سے رشتے طے پا چکے تھے۔ انہوں نے رشتے چھوڑے اور گستاخیاں بھی کیں۔ ایسے بھائیوں کی بہن ہے یہ... نام اس کا دُرّہ ہے۔ یہ میرے حضورﷺ کو وضو کرانے کے لئے آ گئی۔ حضورﷺ نے دیکھا تو پیار سے یوں معاف کر دیا کہ کمال کر دیا۔ فرمایا، اے دُرّہ! آج تم میری رشتہ دار ہو اور میں تمہارا رشتہ دار ہوں۔ یہ رشتہ داری نظریاتی تھی۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمہ پر استوار ہو رہی تھی۔ جب ان لوگوں نے ہتھیار پھینک کر کلمہ پڑھ لیا تو ایک رشتے میں بندھ گئے۔ ابوجہل کا بیٹا بھاگ کھڑا ہوا تھا، اس کی بیوی اسے واپس لائی اور کہنے لگی: کہاںدھکے کھانے کو بھاگ رہا ہے‘ میں نے محمدﷺ کو جیسا کریم اور رحیم پایا آج تک نہ سنا اور نہ دیکھا۔ اور پھر وہ واپس آیا تو میرے حضور نے اسے بھی سینے سے لگا لیا۔ اس لئے کہ ہتھیار پھینک کر اخلاص کے ساتھ سرنڈر ہو گیا۔ میرے حضورﷺ آرام کی غرض سے حضرت علیؓ کی بہن امّ ہانی کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت ام ہانی عرض کرنے لگیں: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کے فلاں دشمن کو پناہ دے دی ہے‘ میرے بھائی علی کہتے ہیں، میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ میرے حضورﷺ نے فرمایا: اے اُم ہانی! جس کو تم نے پناہ دے دی اس کو ہم نے پناہ دے دی۔ اور فیصلہ فرما دیا کہ ہم میں سے کسی ادنیٰ نے بھی کوئی پیمان کر لیا‘ ہم اسے پورا کریں گے۔ یوں دشمن کو معافی مل گئی اور ایک خاتون کی عزت و افتخار کو چار چاند لگا دیئے عرب کے چاند نے۔ صدقے اور قربان ایسے پاک اور مہربان اپنے حضورﷺ پر۔
میرے دیس کی پاک فوج نے آج ایسا ہی کردار ادا کیا، پھر میں کیوں نہ فخر کروں ایسی نظریاتی فوج پر کہ جس نے دلیری کی تاریخ رقم کر دی۔ دلیر ایسے ہی ہوتے ہیں جو قابو پا کر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ دلیری اور بہادری اسی کا نام ہے۔ بزدلی اور کمینگی یہ ہے کہ عہد کو توڑا جائے، جن سے عہد کر لیا ان کو گرفت میں لے کر مروڑا جائے، یہ بزدلی ہے اور خساست ہے۔ یہ ان کا کام ہے جن کا کوئی نظریہ نہ ہو، ہاں ہاں! جن کا نظریہ کوئی نہیں وہ عورتوں کو مارتے ہیں، بچوں کو مارتے ہیں، مزدوروں کو مارتے ہیں، زبان، رنگ، نسل اور علاقے کی بنیاد پر مارتے ہیں، مذہب کے نام پر مارتے ہیں، بے دریغ مارتے ہیں، یہ خسیس اور بزدل ہیں۔ نظریاتی لوگ زخم اور گھائو کھا کر بھی ایسے طرز عمل کی سوچ تک نہیں رکھتے۔ یہی عظمت ہے اور دنیا کی تاریخ یہی بتلاتی ہے کہ ایسی عظمت ہی کو ستارے لگتے ہیں، ایسی بلندی ہی کو چار چاند لگتے ہیں۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے ایسے علمبرداروں کو ایک بار پھر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
پاک فوج کو جب سول حکمرانی نے دہشت گردی ختم کرنے کا اختیار دیا اور اس اختیار کو آئین کا حصہ بنایا تو یہ بھی لکھ دیا کہ جو ''سہولت کار‘‘ ہو گا وہ بھی دھر لیا جائے گا۔ معاشی دہشت گردی کی اصطلاح بھی اب زبان زد عام ہو چکی ہے اس کے سہولت کار بھی اب گرفتار ہونے جا رہے ہیں۔ اللہ اللہ! کیسا منظر ہے کہ معاشی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ایسے پسینے تو اولین مارشل لاء میں چھوٹے تھے۔ جب جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء لگایا تھا۔ لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ یہ مارشل لاء نہ جانے کیا بلا ہے؛ چنانچہ لوگ اس حد تک ڈرے کہ جو عورتیں خاوندوں سے ناراض ہو کر میکے میں بیٹھی تھیں وہ ڈر کے مارے سسرال میں آ گئیں اور سسرال والے منتیں کر رہے تھے کہ اب ہم برا سلوک نہیں کریں گے۔ یہ تھا ایک عوامی تاثر... مگر پھر مارشل لاء بے چارہ بے توقیر اور بے عزت ہو گیا۔ جب ذاتی مفاد اور مصلحت کی داغدار چادر میں لپٹنے لگ گیا تو پھر اسے بے آبرو ہی ہونا تھا۔
آج مارشل لاء نہیں لگا، جنرل راحیل نے تھوڑا سا اختیار لیا ہے۔ اس اختیار کو ذاتی مفادات سے بہت بالا ہو کر استعمال کیا ہے تو صورتحال یہ ہے کہ معاشی دہشت گردوں اور سہولت کاروں نے غیر ملکی کرنسی کو جلانا شروع کر دیا ہے۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے راستے بند ہو گئے ہیں لہٰذا باہر کیسے لے جائیں، اندر رکھیں تو کہاں رکھیں، اربوں اور کھربوں کی غیر ملکی اور ملکی کرنسی کہاں کھپائیں، کہاں دبائیں، ڈر اس قدر ہے کہ دبئی میں جا نہیں سکتی، مٹی میں دبائی تو دبائو والے دبی ہوئی بھی نکال لیں گے لہٰذا وہ جلا کر گٹر میں بہا رہے ہیں، بچ تو یہ پھر بھی نہ پائیں گے... البتہ یہاں ایک کام ہو سکتا ہے کہ اگر ان کو سہولت دے دی جائے کہ یہ اپنی ساری اندرونی اور بیرونی لوٹی ہوئی جائیداد لے کر سامنے آ جائیں، سرنڈر کر جائیں تو ان کو بھی معاف کر دیا جائے، بوریوں کی بوریاں، پائونڈز کی بوریاں، ڈالروں کی بوریاں، یورو کی بوریاں، سونے کی اینٹوں کے کارٹن اور ہیرے جواہرات کے ڈبے، زمینوں کی رجسٹریاں اور ان کی کئی کئی کلو بھاری فائلیں سب لے کر سرنڈر کر جائیں تو کوئی ناصر خان جنجوعہ جیسا جرنیل یہ سارا کچھ خزانے میں جمع کر کے ان کو سینے سے لگا لے۔ میری تجویز ہے اگر ایسا ہو سکے تو میرے نظریاتی بھائی اس پر بھی توجہ فرما لیں... اور اگر معاشی دہشت گرد تائب نہ ہو پائیں تو پھر ان کی قسمت، انجام ہم پاکستانی دیکھیں گے۔ (ان شاء اللہ)