سمجھ نہیں آرہی کہ مجھے کیا ہو گیا ہے جو میرے دل میں سیاستدانوںسے ہمدردی پیدا ہو گئی ہے۔ بطور خاص میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور جناب الطاف بھائی سے ہمدردی میں میرے دل سے بار بار درد کی ٹیس اٹھتی ہے۔ میاں نوازشریف کے لیے اس وقت سے میں بڑا غمناک ہوں جب چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب میں ایک انہونی ہو گئی۔ جونہی حلفیہ پروگرام کا اختتام ہوا اور چائے پینے اور ملنے ملانے کا آغاز ہوا تو تمام لوگ آرمی چیف جناب جنرل راحیل شریف کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ وزیراعظم بھی وہاں موجود تھے، ان کے گرد کوئی نہ تھا۔ ان کے اپنے وزیر اور گورنر وغیرہ بھی آرمی چیف ہی کے گرد جمع تھے۔ میاں صاحب نے جب اس محرومی کو دیکھا تو بہتر یہی سمجھا کہ وہاں سے چلے آئیں؛ چنانچہ وہ چائے پئے بغیر تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گئے۔ جناب صدر نے دروازے تک ان کے ساتھ تیز قدمی کی اور الوداع کر دیا۔ وزیراعظم عوامی نمائندہ ہوتا ہے۔ عوام کا محبوب ہوتا ہے۔ مجھے غم یہ لاحق ہے کہ جب خواص کی مجلس میں ہمارے محبوب عوامی وزیراعظم کا یہ حال ہو گیا ہے تو کل کو عوام کے اندر صورتحال کیا ہو گی؟ بس یہی وہ غم اور ہمدردی ہے جو مجھے میاں نوازشریف جیسے عوامی لیڈر کے ساتھ ہو گئی ہے۔ دکھ یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ نے ان کی شہرت کو ثریّا سے زمین پر دے مارا ہے۔ جو کھڑاک آیا ہے اس نے میرے دل کو ہلا مارا ہے، ہلانے اور جھنجھوڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا، اس واقعہ نے تو میرے دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
جناب آصف علی زرداری کے بارے میں بھی میرے دل کی یہی کیفیت ہے‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ہم عوام کے یہ محبوب قائد اس قدر وزنی تھے کہ دنیا میں ایسا کوئی ترازو کسی لوہار نے بنایا ہی نہیں جس میں ان کو تولا جا سکتا‘ ان کا وزن کیا جا سکتا اور معلوم کیا جا سکتا کہ جناب کا وزن K2 کے برابر ہے یا نانگا پربت کے مساوی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ترازو میں ہمالیہ بھی ہل کے رہ جائے۔ جی ہاں! اسی لئے تو ہر جانب ایک ہی نعرہ تھا: اک زرداری سب پر بھاری... میں بہت دکھی ہوں کہ ہم عوام کے اس قدر بھاری اور وزنی راہنما کہ جنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی اور ہم عوام اگلے مرحلے میں یہ توقع کر رہے تھے کہ اینٹ کے جواب میں کہیں ہمالیہ کو اٹھا کر نہ مار دیا جائے‘ انہیں اچانک دبئی میں جا کر اینٹوں کے ایک محل میں رہنا پڑ گیا۔ اب انہوں نے اپنے صوبائی اقتدار کی اینٹوں یعنی وزیروں مشیروں کو بھی وہیں اکٹھا کر لیا ہے اور حکومت وہاں سے چل رہی ہے۔ مجھے ان کی اس جلاوطنی پر انتہائی دکھ اور غم ہے۔ ہم عوام کے دکھوں کے مداوا کے لئے جناب بلاول صاحب یہاں تشریف لائے تھے اور پُرجلال خطابات فرما کر واپس دبئی تشریف لے گئے ہیں۔ الغرض! میں دکھی اور غمزدہ آخر کیوں نہ ہوں کہ سارا وزن جس قدر بھی تھا وہ پاکستان سے نکل کر دبئی میں منتقل ہو گیا ہے۔ کچھ کچھ لندن میں بھی چلا گیا ہے۔ پاکستان اس وزن سے بڑی تیزی کے ساتھ محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔
لندن کا ذکر آیا تو مجھے الطاف بھائی یاد آ گئے ہیں۔ ان کو ایک لمبی مدت سے صرف ٹی وی پر ہی دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ اب دید اور دیدار کے وہ مواقع بھی چھین لئے گئے ہیں۔ وزن ان کا بھی کافی بڑھ چکا ہے مگر لندن میں ہی رہ گیا ہے۔ کراچی میں اب یہ وزن نظر نہیں آتا یا شاید ہماری آنکھ اس قابل نہیں کہ دیکھ سکے۔ میں ایک عرصہ سے اپنی آنکھ کو کوسنے دیئے چلے جا رہا تھا‘ مگر فاروق ستار بھائی نے کمال کر دیا کہ ہڑتال اور یوم سوگ کا اعلان کیا تو شاید کراچی میں تالوں کی جتنی فیکٹریاں تھیں وہ آگ میں جل چکی ہیں۔ کہیں سے کوئی تالا میسر نہیں ہو سکا جو کسی شٹر کو لگا دیا جاتا۔ مجھے اس پر انتہائی دکھ ہوا کہ کراچی اور حیدرآباد میں ہمارے مقبول ترین عوامی سیاستدان کی شہرت ناجانے کہاں چلی گئی ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ میں ہر سیاستدان کا تذکرہ کروں مگر ایک عرصہ سے ملک کی برسراقتدار بڑی عوامی جماعتوں کے یہی تین لیڈر ہیں‘ جو پارلیمان میں موجود ہیں۔ پارلیمان سے باہر اب ان کی شہرت اور عوامی مقبولیت کا جو حال ہو گیا ہے میں سوچتا ہوں کہ جب یہ پارلیمان سے باہر ہوں گے تو تب کیا ہو گا؟ یہی وہ دکھ اور ہمدردی ہے جو میرے دل کو کھائے چلی جا رہی ہے۔
میں اس حوالے سے بھی سخت صدمے میں ہوں کہ گزشتہ 25برس سے یہی رہنما اقتدار میں ہیں‘ اگر اخباروں میں ان کے بیانات، اشتہارات میں تصاویر، کیمروں میں پڑی ویڈیوز، دیواروں پر لگے اشتہارات، کھمبوں پر لگے پوسٹرز اور ایک ایک ہورڈنگ کو‘ جو دس دس لاکھ سے لے کر کئی کئی لاکھ کا ہے‘ اگر اکٹھا کیا جائے تو کھربوں روپیہ بن جائے۔ اخباروں کو اکٹھا کیا جائے تو ان کی ردی کا ہمالیہ بن جائے... مگر یہ کیا ہو رہا ہے کہ یہ سارا کچھ چند دنوں میں ہوا ہو جائے اور ایک جرنیل گمنامی سے نکلتا ہوا چاند بن جائے اور محض ڈیڑھ سال میں ہر پاکستانی کی آنکھ کا تارا بن جائے اور ہر دل کا راج دلارا بن جائے... ہمدردی اپنی جگہ مگر میں نے سوچنا شروع کر دیا۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ایک بندہ ہے۔ وہ دو شہیدوں کا وارث ہے۔ دل کا سچا اور بات کا کھرا ہے۔ عمل پر یقین رکھتا ہے اور قوم کے مال کو امانت سمجھتا ہے۔ بس اپنی تنخواہ پر گزارہ کرتا ہے اور سب سے بڑی سب سے پہلی اور سب سے آخری بات یہ ہے کہ اپنے اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے۔ ملنے والوں کو عاجزی سے ایک ہی بات کہتا ہے، دعائوں میں یاد رکھنا... وہ چاپلوسوں اور خوشامدیوں سے کوسوں دور رہتا ہے۔ مختلف ذرائع سے حقیقت تک پہنچتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ یہ ہے وہ خوبی جس نے ہر دل کو اس کا اشتہار بنا دیا ہے۔
میرے حضورﷺ نے فرمایا ہے، دل اللہ کی مٹھی میں ہیں، جدھر چاہے پھیر دیتا ہے۔ جی ہاں! دل پھیر دیئے گئے ہیں، کس جانب کو، ہم عوام کے پیارے سیاستدان اس سمت کو دیکھ لیں۔ میرے حضورﷺ کی ایک اور حدیث ہے، فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو بلا کر فرماتے ہیں، میں زمین پر فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو اور اس کی محبت کا آسمانوں میں اعلان کر دو۔ اور پھر اس محبت کا قبول زمین پر بھی رکھ دیا جاتا ہے۔ پیارے سیاستدانو! اس کا نظارہ کرنا ہے تو بخاری شریف کی ایک اور حدیث دیکھ لو۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت محمد کریمﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا، سامنے احد پہاڑ آیا تو شاہ عرب نے فرمایا، اس احد پہاڑ کے وزن برابر اگر میرے پاس سونا ہو تو ایسا نہیں کہ مجھے کوئی خوشی ہو گی بلکہ یہ بات محض اتنی ہی اہمیت رکھے گی کہ میں تین دن گزرنے سے پہلے پہلے سارا پہاڑ خرچ کر دوں گا۔ ایک دینار بھی باقی نہ بچے گا، ہاں! اگر ایسا ہو کہ میں نے کچھ قرض دینا ہو تو بس وہی رکھوں گا... قرض کی ادائیگی کے بعد ایک گرام بھی باقی نہ رہے گا... یہ تھا حکمران مدینہ کی حکمرانی کا انداز... جی ہاں! عزت، سچی آبرو اور پائیدار شہرت‘ جو آسمانوں میں بھی ملے اور اہل زمین کے دلوں پر بھی لکھی جائے۔ اس کا تو طریق کار یہی ہے جو میرے حضور نے عمل سے بتلا دیا ہے۔ اے میرے پیارے سیاستدانو! تمہاری ہمدردی میں عرض کر رہا ہوں۔ اربوں ڈالر کی اپنی ساری دولت جو آپ لوگوں نے ہم عوام سے ہتھیائی ہے‘ الل ٹپ منصوبوں میں ضائع کر کے کمیشن کے نام سے باہر کی دنیا میں رکھی ہے‘ وہ ساری کی ساری قومی خزانے میں جمع کرا دو، عوام سے معافی مانگ لو، صاف کہو کہ ہم نے دھوکہ دیا، خیانت کی، امانت کو اجاڑا، اسے واپس کر رہے ہیں۔ بس اتنی رکھ لو جتنی حلال کی ہے۔ ہم عوام معاف کر دیں گے۔ عزت اور شہرت بھی مل جائے گی مگر سچی ملے گی۔ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی... اگر میری ہمدردی وارے میں نہ آئے تو تم جانو اور جنرل راحیل کا آپریشن ضربِ عضب جانے اور اگلے جہان بھی تم جانو اور حشر کا بے رحم انصاف جانے۔ ہم عوام یہاں بھی دیکھیں گے اور وہاں بھی دیکھیں گے... ہاں! دیکھیں گے کہ جو ہم عوام کی ہمدردی سمیٹ کر تخت نشین ہوئے، جب وہ بے درد بنے توان کے پائوں کے نیچے سے پھسلنے والے تختے کیسے تھے؟