"AHC" (space) message & send to 7575

ن اور انصاف کے درمیان میزان

این اے 122کا الیکشن ملکی سیاست میں کلیدی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ محض ضمنی الیکشن نہیں بلکہ یہ ایک پرانی اور روایتی پارٹی مسلم لیگ (ن) اور ایک نئی اور متحرک پارٹی تحریک انصاف کے درمیان مستقبل کی سیاست کا فیصلہ بھی کرنے جا رہا ہے کہ آئندہ ملکی سیاست میں کون سی پارٹی قوم کو لیڈ کرے گی۔ ویسے تو پچھلے 45سال سے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ اقتدار میں چلی آ رہی ہیںاور میاں نوازشریف کی مسلم لیگ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی پچھلے 25سال سے باری باری اقتدار میں ہیں۔ پاکستان کا روایتی ووٹ بینک ہمیشہ میاں نوازشریف کی جیب میں معاون رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا انقلابی جیالا اور متحرک ووٹ بینک محترمہ بینظیر بھٹو کے پرس میں رہا۔ دونوں ایک دوسرے کا ووٹ بینک توڑ نہیں سکے۔ میاں نوازشریف کی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی متحرک، فعال اور انقلابی لیڈر کی جگہ آصف علی زرداری جیسا مصلحت کیش، روادار اور مفادات کی خاطر مفاہمت کرنے والا مدمقابل مل گیا جس سے پیپلزپارٹی کا ووٹر مایوس ہو گیا، گھر بیٹھ گیا، ٹوٹ کر رہ گیا، بکھر گیا اور کافی سارا تحریک انصاف میں جا بیٹھا۔ مگر میاں صاحب کی یہ خوش قسمتی عارضی ثابت ہوئی اور ایک مضبوط مدمقابل عمران خان کی صورت میں سامنے آ گیا۔ عمران خان نے مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی توڑا ہے لیکن ابھی بہت کم ووٹ ٹوٹا ہے۔ روایتی ووٹ ابھی بہت حد تک میاں نوازشریف کی جیب میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب کے پاس پیپلزپارٹی کے زوال اور عمران خان کے چیلنج بننے کے درمیان گزشتہ دو اڑھائی سال کا ایک قیمتی وقت تھا جس میں میاں صاحب اپنے آپ کو سنبھال سکتے تھے‘ لیکن وہ سنبھل نہیں پائے۔
میاں صاحب کے نہ سنبھلنے کی وجہ ان کا روایتی انداز ہے جس میں کچھ کچھ جمود بھی شامل ہے۔ اس جامد روایتی انداز سیاست میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے لوگ ہیں۔ میاں صاحب کو چاہئے تھا کہ میاں شہباز شریف کے سوا اپنے خاندان کے سب لوگوں کو سیاست سے باہر کر دیتے مگر وہ پوری طرح ایسا نہ کر سکے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں، داماد اور بیٹی کو فارغ کر دیا لیکن اپنے سمدھی، بھتیجے، اہلیہ کے بھانجے وغیرہ کو فارغ نہ کر سکے۔ اسی طرح وہ سیاست میں برادری ازم کو بھی ختم نہ کر سکے۔ حلقے کے بااثر لوگ جس طرح بے پناہ پیسہ خرچ کر کے الیکشن جیتتے ہیں، پھر الیکشن جیتنے والے جس طرح مال بناتے ہیں اور ہارنے والے علاقے میں ڈاکے اور چوریاں کروا کر خرچے پورے کرتے ہیں، یہ سارا کلچر ختم نہیں ہو سکا۔ دھاندلی، زور زبردستی، پولیس اور اداروں کا استعمال وغیرہ جاری و ساری رہا... میاںصاحب اس تکلیف دہ روایتی کلچر کی موجودگی میں اگر صرف اتنا کر دیتے کہ وہ اپنی ٹھنڈی طبیعت کو کام میں لاتے، ایک دانشور بن کر سامنے آتے، اداروں کے سربراہ دیانت دار مقرر کر دیتے تو پھر بھی ان کی نیک نامی میں بے حد اضافہ ہو جاتا، لوگ روایتی کلچر کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان میں بہت کچھ بہتر پاتے اور کرپشن کے ناسور‘ جو بڑے بڑے میگاپروجیکٹس میں ہے‘ سے نجات پاتے، مگر میاں صاحب یہ بھی نہیں کر پائے۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان مزید آگے بڑھے ہیں، اب وہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی توڑنے لگ گئے ہیں۔ چودھری سرور جیسے دانشور لیڈر اور آجاسم شریف جیسے پرانے کارکن ٹوٹ رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار میں یہ صورتحال ہے تو اقتدار کے بغیر کیا ہو گا؟ یقینا بہت سارے پنچھی پر تول رہے ہوں گے۔ سمن آباد کے ڈونگی گرائونڈ میں عمران خان نے جو جلسہ کیا اس میں عمران خان نے سیاسی باتیں کیں‘ لیکن اس کے جواب میں مسلم لیگ ن جو برسراقتدار جماعت ہے، اس کے لیڈر اپنی سوا دو سالہ کارکردگی پیش نہیں کر سکے۔ پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور زعیم قادری بولے ضرور مگر انداز وہی تھا جیسے محلے کی دو عورتیں اپنے اپنے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو طعنے دیتی ہیں اور گلی کے شرفا پاس سے گزر جاتے ہیں۔ پنجابی میں اس انداز کو ''چھبّی‘‘ کہا جاتا ہے یعنی مسلم لیگ ن کے وزیر مجھے بڑے مظلوم نظر آئے کہ وہ چھبّیاں دے رہے تھے۔ دراصل قصور ان کا ہے تو سہی مگر کم‘ اصل بات یہ ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے پاس کارکردگی کا اثاثہ ہو تو وزیر اسے سامنے لائیں۔ وہ ہی نہ ہو تو یہ بے چارے کیا کریں؟ کمانڈر اسلحہ کے بغیر اپنے سپاہیوں کو میدان میں اتار دے تو پھر سوائے چھبیّوں کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ یوں حلقہ 122 کا مقابلہ کانٹے دار ہوتا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے لئے یہ ایک پہاڑ بنتا چلا جا رہا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کے ایاز صادق نے اس پہاڑ کو عبور کر بھی لیا تو تھوڑے سے مارجن سے عبور ہو گا، باقی کسر دھاندلی کے الزامات سے نکالی جائے گی۔ یہ ایک کلچر ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔ اگر تحریک انصاف کے عبدالعلیم خان جیت گئے تو مسلم لیگ ن کی حکومت جو پہلے ہی کمزور ہو چکی ہے مزید کمزور ہو جائے گی۔ یوں این اے 122کا الیکشن ہر لحاظ سے مسلم لیگ ن کے لئے ایک امتحان ہے۔
عمران خان کا کام آسان ہے کہ وہ حکومت میں نہیں رہے، صرف خیبر پی کے کی حکومت ہے جس کا دورانیہ سوا دو سال کا ہے۔ وہ بھی صوبائی حکومت ہے وہاں پولیس کو غیر سیاسی کیا گیا ہے۔ ریحام خان میدان سیاست میں آئیں مگر عمران خان نے ان پر پابندی لگا دی۔ خان کا کوئی رشتہ دار میدان سیاست میں نہیں ہے۔ اس کے برعکس میاں نوازشریف صاحب کو پچھلے 25سال کا حساب دینا پڑتا ہے اور جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کا مقابلہ روایتی طریقوں سے نہیں ہو سکتا، انقلابی انداز سے ہو سکتا ہے لیکن میاں نوازشریف انقلابی نہیں بن سکتے، وہ بہرحال روایتی سیاستدان ہی رہیں گے... زیادہ سے زیادہ موجودہ مدت پوری کر لیں گے اس کے بعد مجھے وہ پاکستان کی سیاست میں اعلیٰ ترین سطح پر نظر نہیں آ رہے۔ یوں جس طرح بڑے بڑے لوگ سابق ہو گئے، ممکن ہے میاں صاحب بھی سابق ہو کر تاریخ میں گم ہو جائیں ۔ مجھے ان کا اور ان کے خاندان کا یہ دورحکومت آخری نظر آ رہا ہے۔ زرداری صاحب کے بعد انہی کے انجام سے دوچار ان کے پیچھے لائن میں لگے میاں نوازشریف بھی مجھے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک حیران کن کام ہے اگر وہ کر جائیں تو تاریخ کے روشن کمرے میں ان کی کرسی جگمگ کرتی نظر آ سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو آزاد اور خودمختار بنا دیں، اپنی پارٹی کے اندر الیکشن کرا دیں اور یہ طے کر دیں کہ انتخابات میں وہی پارٹی جا سکے گی، جو اپنے اندر الیکشن کرائے گی۔ مزید یہ کہ انٹر پارٹی الیکشن بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں ہو گا۔ پاکستان میں اس وقت صرف دو جماعتیں ہیں‘ جن کے اندر الیکشن ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ شفاف الیکشن جماعت اسلامی کا ہے، دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کا ہے، مگر وہ الیکشن متنازعہ ہو گیا۔ الغرض! مجھے یہ سلسلہ مستقبل میں پاکستان کی سیاست میں نظر آ رہا ہے‘ لیکن اگر میاں صاحب اسے اپنے ہاتھوں سے کر جائیں اور اپنی جماعت میں ایک منتخب قیادت اوپر لے آئیں تو نیک نامی مل جائے گی وگرنہ دوسری صورت میں صاف اور واضح بات یہ ہے کہ این اے 122کے نتائج کے بعد میاں صاحب کی روایتی اور جمود کی ماری سیاست ایک متحرک، انقلابی اور جیالی سیاست کا مقابلہ نہیں کر پائے گی، وقت ان کے ہاتھوں سے کھسکتا چلا جائے گا اور نیا دور نئے لوگوں کے ساتھ راستہ بناتا پاکستان کے اسٹیج پر جلوہ گر ہر کسی کو نظر آتا جائے گا۔ حالات کا دھارا بہرحال یہی دکھائی دیتا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں