کامیاب کمانڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے دشمن کو اپنی پسند کے میدان میں لا کر مقابلہ کرے اور کامیابی حاصل کرے۔ کچھ ایسا ہی کام مسلم لیگ ن کے سیاسی کمانڈروں نے کیا، انہوں نے قدرے کمزور میدان میں لڑائی سے اجتناب کیا۔ خواجہ سعد رفیق کے حلقے سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ پھر دو میدانوں میں بیک وقت اترنے کا اعلان کیا۔ لودھراں کے میدان میں کمزوری انہوں نے ابتدا ہی میں بھانپ لی تھی مگر شروع میں حکم امتناعی لینے سے گریز کیا۔ چند دن انتخابی مہم چلا کر حکم امتناعی لیا۔ اب آخر میں ایک ہی میدان رہ گیا تھا، یہ این اے 122کا میدان تھا۔ یہ میدان یوں تھا جیسے لاہور کے سیاسی قلعے کے اندر مسلم لیگ ن کا قلعہ ہو، یہ ان کی مرضی کا میدان تھا وہ عمران خان کو اپنی مرضی کے میدان میں لے آئے تھے چنانچہ زور کا رن پڑا... اور داد دینا پڑے گی تحریک انصاف کو کہ انہوں نے مخالف کی پسند کے میدان میں خوب معرکہ لڑا ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن)کے لوگ بھی دلیری دکھلائیں تو داد ضرور دیں مگر ہمارے ہاں سیاسی میدان میں ایسی دلیریاں مفقود ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ مسلم لیگ ن جیتی ہے تو تھوڑی گنتی سے ہی اپنی سیٹ بچا پائی ہے۔ انہیں غور کرنا ہو گا کہ قلعے کے اندر اپنے قلعے کا تحفظ وہ بمشکل کر پائے ہیں۔ اسی طرح چھوٹی سیٹ جو مسلم لیگ ن ہی کی تھی اسے تحریک انصاف شعیب صدیقی کی کامیابی کی صورت میں لے اڑی ہے۔ یوں ایک لحاظ سے تحریک انصاف خاصی آگے بڑھی ہے، پیچھے نہیں ہٹی۔ مسلم لیگ ن پر بہرحال تحریک انصاف کا جنون غالب تو آیا ہے، چاہے کم ہی آیا ہے۔
تحریک انصاف کے لئے غور طلب پہلو یہ ہے کہ عمران خان کی موجودگی میں عبدالعلیم خان نے معرکہ تو زوردار لڑا، چوہدری سرور اور اسلم اقبال نے
خوب ساتھ دیا مگر انہیں یاد رکھنا ہو گا کہ اپنی مہم کے آخر میں ان کی لیڈرشپ کے بیانات نے بھی لاہور کے باشعور لوگوں کو کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ مثال کے طور پر عمران خان نے معاشی راہداری کو اس لئے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اسے پنجاب کے ساتھ کیوں جوڑا جا رہا ہے۔ ایک قومی سطح کا لیڈر جب ایسی علاقائی مخاصمت کی بات کرے گا اور وہ بھی ایسے وقت پر کہ جب پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں وہ ضمنی الیکشن لڑ رہا ہو تو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بیان کے بعد عبدالعلیم خان کو جو ووٹ ملے، وہ بہت زیادہ ملے ہیں۔ مجھے مذکورہ بیان کے بعد توقع اور بھی کم ووٹ ملنے کی تھی۔ میں نے ایک بار اعجاز چوہدری صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ میاں نواز اور میاں شہباز شریف کی سیاسی مخالفت ضرور کریں، اس کے لئے مواد بھی اور ایشوز بھی بہت زیادہ ہیں مگر میٹرو بس اور موٹر وے جیسے منصوبوں کی مخالفت نہ کریں بلکہ ان منصوبوں کی تائید کریں، انہیں اچھا کہیں اور تحسین کریں۔ ہاں ان منصوبوں میں آپ کو جو خامیاں نظر آتی ہیں، کرپشن کا عنصر نظر آتا ہے، ثبوتوں کے ساتھ، اس پر تنقید کریں۔ یہ منصوبے عوامی فلاح کے منصوبے ہیں۔ اورینج ٹرین بھی ایسا ہی منصوبہ ہے، رنگ روڈ بھی ایسا ہی پروگرام ہے، ان کی مخالفت مت کریں۔ ان منصوبوں کی مخالفت کر کے جب آپ کہتے ہیں کہ یہی پیسے تعلیم، پولیس اور پٹوار سسٹم کی بہتری پر خرچ کرنے چاہئیں، تو اس کے بجائے آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ میٹرو بس وغیرہ جیسے منصوبے بھی اچھے ہیں مگر تعلیم وغیرہ جیسے منصوبوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں، سیاست کا یہ وہ مثبت انداز ہے جس سے عوام سمجھیں گے کہ آپ سنجیدہ بھی ہیں اور حق بات کرنے والے بھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ کسی دشمن کی دشمنی تمہیں یہاں تک کھینچ کر نہ لے آئے کہ تم بے انصافی کی بات کرو۔ بات عدل ہی کی کرو کہ یہی انداز پرہیزگاری کے قریب ترین ہے(القرآن)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو سیاستدان عوام میں اپنی ساکھ بنانا چاہتا ہے، اسے یہ انداز اپنانا ہو گا وگرنہ عوام باشعور ہوتے جا رہے ہیں اور لیڈروں کی بے شعور باتیں خود لیڈروں کی سیاست ہی کو نقصان پہنچائیں گی۔
خان صاحب ایک دبنگ آدمی ہیں، مخلص بھی ہیں، کرپشن کے دھبوں سے ان کا دامن بھی پاک ہے مگر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے صوبہ خیبر پی کے کا جو وزیراعلیٰ بنایا ہے، اس کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں کہ وہ ملنگ آدمی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے، دبنگ نے ایک ملنگ کو وزیراعلیٰ کیوں بنایا ہے؟ پٹھان لوگ تو بڑے دبنگ ہوتے ہیں، ان کو ملنگ کیوں دیا ہے؟ جن کی سرکاری ٹھیکیداری پر کہ جب وہ وزارت اعلیٰ سے قبل وزیر ہوا کرتے تھے، وہاں کے لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ پھر ملنگ وزیراعلیٰ جب جلال میں آتے ہیں تو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر کے آگ لگانے کی باتیں کرتے ہیں۔ جب وجد میں آتے ہیں تو دھمال بھی ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے انداز این اے 122 کے نتائج پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ میں ایک بار پشاور گیا۔ وہاں ایک جرگے میں شامل تھا جس میں مولانا سمیع الحق، حافظ محمد سعید اور سراج الحق جیسے زعماء بھی موجود تھے۔ وہاں مولانا سمیع الحق، جو ہمیشہ بڑی شفقت فرماتے ہیں، مجھے ازراہ تفنن کہنے لگے: امیر حمزہ! وہ شاہباز شریف جیسا ایک وزیراعلیٰ ہمیں بھی لاہور سے بھیج دو کہ کام کرواتا ہے تو دنوں میں کرواتا ہے، ہمارا تو پشاور کا ایک لمبا پل ہی نہیں بن پا رہا اور سارا شہر کئی سالوں سے مصیبت میں اور دھول میں اٹا ہوا ہے۔ جی ہاں! یہ ہے سوچ ایک قومی قائد کی جس کا ازراہ تفنن ہی اظہار ہوا، مگر اس میں حقیقت تو بہرحال موجود ہے۔
میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب اگر 2018ء کے الیکشن میں اچھے نتائج کے طلب گار ہیں تو صوبہ خیبر پر توجہ دیں اور ملنگ کے بجائے اپنے جیسا دبنگ وزیراعلیٰ بنائیں یا پھر خود بن جائیں۔ مولانا مفتی محمود ایک بڑے لیڈر تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چند ماہ وزیراعلیٰ رہ سکے۔ ان کے دور کو آج تک دنیا یاد کرتی ہے۔ آپ بھی باقی ماندہ مدت خود وزیراعلیٰ بن کر ڈلیور کریں، پھر وزیراعظم بنیں۔ میاں نوازشریف بھی وزیراعلیٰ بننے کے بعد وزیراعظم بنے ہیں۔ جنون کے ساتھ اگر میری معجون کو بہتر سمجھیں تو خان صاحب اسے بھی کھا کر دیکھیں۔ ان شاء اللہ ضرور فائدہ دے گی، ورنہ مستقبل کی وزارت عظمیٰ کی کشتی میں موجودہ وزارت علیا پتھر تو جمع کر ہی رہی ہے۔ زمان پارک میں جو نقصان ہوا ہے اس میں بھی میری معجون فائدہ دے گی۔ حفیظ اللہ نیازی دانشور دوست ہیں ہمارے... ان کو عہدہ مت دیں کہ آپ کے عزیز ہیں مگر کارکن تو بنا کر رکھیں۔
تحریک انصاف کے پاس مقرر اچھے ہیں۔ خان صاحب خود بہت اچھے مقرر ہیں۔ شاہ محمود قریشی بلا کے مقرر ہیں۔ شیخ رشید بھی اچھے مقرر ثابت ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں فقدان ہے، حمزہ شہباز اس بار اپنے تایا کی طرح دھیمے مگر منجھے ہوئے مقرر بن کر سامنے آئے ہیں۔ اپنے جلسوں میں تحریک انصاف کے جنون کا رنگ بھی انہوں نے نون میں ملانا شروع کر دیا ہے۔ بھنگڑے خوب ڈالے ، ساتھ ساتھ خود کو دیانتدار اور مسکین و مظلوم بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے اور مخالفوں کو قارون کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے لئے بھی میری معجون یہی ہے کہ آپ کی یہ باتیں محض سیاسی بیان بازی ہے، جس پر آپ کا اپنا ضمیر مطمئن نہیں، عوام کس طرح مطمئن ہوں گے؟ لہٰذا آپ باقی ماندہ اڑھائی سال میں اتنا ہی کر دیں کہ تمام اداروں کے سربراہ میرٹ اور دیانت کی بنیاد پر لگا دیں، اپنا پیسہ واپس لے آئیں، سستا اور بے لاگ انصاف دے دیں تو 2018ء میں آپ بہتر ہو جائیں گے وگرنہ زرداری صاحب آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے تو عمران خان سامنے آ گئے... اور اگر یہ بھی روایتی بن گئے تو پھر کوئی اور خان دور نہیں ہے۔